Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجھنجھٹ ؔلکھنوی اور ان کی شاعری

جھنجھٹ ؔلکھنوی اور ان کی شاعری

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پرویز شکوہ

اردوزبان میں طنزو مزاح کے دور جدید کا آغاز اودھ پنچ سے ہوا۔ اودھ پنچ کی اشاعت۱۸۷۷ء؁ میں شروع ہوئی تھی۔ اودھ بنچ کے ذریعہ منشی سجاد حسین نے نثرد نظم میں طنز و ظرافت کے گل کھلائے ۔ اودھ پنچ نے بہت ہی جلدشاعروں اور نثر نگاروں کا ایک بہت بڑا حلقہ پیدا کر لیاتھا۔ جس میں منشی سجاد حسین، پنڈت تربھون ناتھ ،احمد علی شوق، عبد الغفور شہباز، ہجر، نواب سید محمد آزاد، اکبر الہ آبادی اور سرشار وغیرہ شامل تھے۔
اس نسل کے بعد رشید احمد صدیقی، احمدشاہ پطرس بخاری، شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی وغیرہ اپنے دور کے ممتاز مزاح نگار رہے، ان کے بعد آنے والے زمانے میں متعدد مزاح نگار گزرے ، ان میں کسی نے تو عملی مذاق سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورتوں کو موضوع سخن بنایا تو کسی نے کرداراور گفتار کی ناہمواریوں کو اپنا موضوع قرار دیتے ہوئے طنزو ظرافت کے موتی بکھیرے۔
لکھنؤ علم و ادب کا گہوارہ رہاہے۔ جس کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں شعر وسخن کی محفلیں سجتی رہی ہیں،لکھنؤ کی ادبی محفلوں پر بھی ہزل گو شعراء چھائے رہے۔
جن میں ظریف لکھنؤی،ماچسؔ لکھنؤی اور سگار لکھنؤی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔لکھنؤ کے ہزل گو شعراء میںجھنجھٹ ؔلکھنوی کا نام فراموش نہیں کیا جا سکتا، جنہوں نے اپنے ہم عصر شعراء کی صف میں اپنی جگہ بنائی۔ جھنجھٹؔ لکھنوی میدان طنز و ظرافت کے ایک شہسوار تھے۔ متانت و سنجیدگی کی بوجھل فضا میں مسکراہٹ بکھیرنے والے جھنجھٹؔ لکھنوی ۱۹۲۲ء؁ میں ایک متوسط تجارت پیشہ گھرانے ،محلہ احاطہ لال خاں، امین آباد، لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔جھنجھٹ کا نام مشرف علی تھا اور ان کے والد نا م شیخ رونق علی تھا، جو چکن کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کی دوکان امین آباد سبزی منڈی کے پاس تھی، ان کی دوکان میں بکنے والی چکن کی دوپلی ٹوپیوں کی اس زمانے میں بڑی شہرت تھی۔
جھنجھٹؔ بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ دوکان پر بیٹھتے تھے اور ان کاہاتھ بٹاتے تھے۔ لیکن آخر میںجھنجھٹؔ نے نعمت اللہ روڈ،امین آباد میں پلاسٹک کی چپلوں کی ایک چھوٹی سی دوکان شروع کرلی تھی، حالانکہ ان کی اس دوکان پر گاہک کم ہی نظر آتے تھے۔ لیکن شعراء اور ادباء کا ہجوم لگا رہتاتھا۔
معاشی بدحالی کی وجہ سے جھنجھٹؔ تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے نہیںکر سکے لیکن اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے وہ شمع محفل بننے میں کامیاب ہو گئے۔
ابتدا ء میں جھنجھٹؔ نے چند غزلیں کہیں لیکن بعد میں ۱۹۴۲ء؁ کے قریب طنز و مزاح کے میدان میں اس وقت قدم رکھا جب ایک سے بڑھ کر ایک معروف ہزل گو شعراء لکھنؤ کی ادبی محفلوں پر چھائے ہوئے تھے اور اس وقت کسی نووارد کے لئے اپنے قدم جمالینا مشکل ہی نہیںبلکہ ناممکن تھا۔لیکن جھنجھٹؔ کے مخصوص انداز اور ان کی شعری صلاحیتوں نے ناممکن کو ممکن بنادیااور انہیں عوامی مقبولیت کے ساتھ ارباب علم و ادب کی شفقت بھی حاصل ہونے لگی۔
جب جھنجھٹؔ غیر جاذب نظر چہرہ اسٹیج پر نمودار ہوتا تو رنگ محفل بدل جاتا تھا، مطالبات و نعرے بازی شروع ہو جاتی تھی’’جھنجھٹؔ ‘‘’’جھنجھٹ‘‘کے شور سے محفل درہم برہم ہو جایا کرتی تھی اور منتظمین کے لئے صورت پر قابو پانا مشکل ہو جاتاتھا۔نمونہ کلام ہدیہ قارئین ہیں۔
سنا نے جب ہزل اپنی کہیں جھنجھٹؔ میاں نکلے
سنبھالے سارے شاعر اپنی اپنی پگڑیاں نکلے
عشق میں اتنا جلا ،اتنا جلا،اتنا جلا
رنگ کالا،اور کالا،اور کالا ہوگیا
کوئی اپنا ہوگیا، کوئی پرایا ہوگیا
کچھ نہ ہو پایا جو دنیا میں وہ نیتا ہوگیا
جھنجھٹ ؔلکھنوی کے ہم عصر اساتذہ سخن میں مولانا آسی ،مولانا صفیؔ، عزیزؔ،آرزو، حسرتؔ،سراجؔ،منظر یگانہؔ،افقر اور سالکؔ وغیرہ تھے، چاروں طرف علم و ادب کے تذکرے تھے، یوں تو جھنجھٹ نے اپنے دور کے ہر استاد سے کسی نہ کسی صورت میں استفادہ کیا اور ان کی قربت اور شفقت بھی حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ شاگرد عمر انصاری صاحب کے ہوئے، جھنجھٹؔ نے اپنے حسن کلام سے اساتذۂ سخن کو بھی متاثر کرتے تھے۔
جھنجھٹ ایک جگہ لکھتے ہیں:
ہاں شاعر کی حیثیت سے اگر میں اپنے مقام کے تعین میں یہ عرض کروں کہ اردو ادب کی ریڑھ کی ہڈی ہوں، تو آپ بھڑکیں نہیں، کیونکہ میرے استاد کا کہنا ہے، کہ:
’’طنز و مزاح‘‘ دنیا کے ہر ادب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کی اپنی علٰیحدہ ایک افادیت ہے۔ بہت سی باتیں جو اگر سنجیدہ انداز میں کہی جائیں تو کڑوی اور نفرت انگیز معلوم ہوںاس کے ذریعے نہایت شریں اور دل نواز انداز میں کہی اور سمجھائی جا سکتی ہیں‘‘(عمر انصاری)
جھنجھٹ ؔ اپنے وقت کے مقامی اور غیر مقامی سبھی چھوٹے اور بڑے مشاعروں میں کثرت سے شریک ہوتے تھے، جب وہ اپنے مخصوص اندازسے اپنا کلام پیش کرتے تو محفل میں قہقہے گونجنے لگتے اور انہیں اپنے مداحین سے خوب داد ملتی اور فضا’’اور‘‘’’اور‘‘کی صدائوں سے گونج اٹھتی تھی۔
نمونہ کلام:-
وہ اڑاتے ہیں پتنگ اور ڈور سلجھاتا ہوں میں
مارے تعریفوں کے خود چرخی بنا جاتا ہو میں
امیروں کے گھرمیں تو ہے عید جھنجھٹؔ
میرے گھر میں ماہِ صیام آ رہاہے
مجھے گناہ کبیرہ سے باز رکھتی ہے
مرے لئے تو عبادت ہے مفلسی کیاہے
نہ دیکھو باپ دادا کے چلن کو
زمانے کی نئی رفتار دیکھو
جھنجھٹ ؔ زندہ دل،بزلہ سنج، شریف النفس، اخلاق و مروت کا پیکر ، اپنی بات کے کھرے ، وعدے کے سچے اور ایک نیک دل انسان تھے۔
جھنجھٹ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہاں ہسٹری کی بات ہو تو بس اپنی چھوڑ کر ،ایک ایک کی وہ ہسٹری بیان کر دوںکہ آپ بھی کہیں کہ ہاں۔اور سچ بات بھی یہ ہے کہ اپنے منھ سے کچھ اپنی تعریف بھلی بھی نہیں لگتی ۔ یہ تو بالکل ویسی ہی بات ہوئی کہ ؎
خاندانی ، خانداں، درخانداں بنتے گئے
مٹھو بیٹے،اپنے منھ مٹھو میاں بنتے گئے
اور اگر خدا نخواستہ کہیں میں ایسا کرنے پر تل گیا ہوتا تو یقین کیجئے کہ اب تک اپنی اگلی پچھلی سات سات پیڑھیوں کے شاعر ہونے کا تو اعلا ن کر ہی چکاہوتا۔
اپنی زندگی کے شب و روزکا بھی کچھ ایسا ہی عالم رہا کہ ؎
اک غم دوراں،اک غم جاناں
ان دونوں کے بیچ میں انساں
اور سچ بات تو یہ ہے کہ ؎
ہمارے بھی ہزاروں چاہنے والے تھے دنیا میں
مگر جب تک کہ دسترخوان پر تھیںروٹیاں باقی
اور اب تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’’تن پر لنگوٹی اور نہ بوٹی بدن پہ ہے۔ اور خود بقول اپنے ہی ؎
جتنے رنج و غم وآلام ملے دنیا میں
پوٹلی باندھ کے سب دے گئی تقدیرمجھے‘‘
جھنجھٹؔ کا مندرجہ بالا اقتباس ان کے حالات زندگی کی بھرپور عکاسی کرتاہے۔ ایک غم سے بھرا دل رکھنے کے باوجود و ہ عمر بھر اپنی مزاحیہ شاعری سے ظرافت کے موتی بکھیرتے تھے۔
۲۵ ؍جولائی ۱۹۸۹ء؁ کو رات کے قریب ۱۰؍ بجے طنز و مزاح کے پھول بکھیرنے والا جھنجھٹ ؔ اس دنیا کے سارے جھنجھٹوں سے نجات پا گیا۔ ؎
ہے نفس کی آمد و شد پر مدارِ زندگی
دیکھئے بجتا ہے کب تک یہ ستارِ زندگی
جھنجھٹ ؔلکھنؤی کا ایک مختصر مجموعۂ کلام’’جھنجھٹیات ‘‘ کے نام سے۱۹۷۵ء؁ میں اترپردیش اردو اکیڈمی کے مالی تعاون سے شائع ہواتھا، جس کی ادبی حلقوں میں خوب پزیرائی ہوئی۔ یہی ان کی واحد ادبی یادگار ہے۔
نمونہ کلام ؎
شبِ و صل کی ہم سے باتیں نہ پوچھو
بھگائے گئے ہیں سویرے سویرے
لباس عہد حاضر نے بڑا دھوکہ دیامجھ کو
زلیخابی جنھیں سمجھا میں وہ یوسف میاں نکلے
جنس کی تبدیلیاں یوں ہی اگر بڑھتی گئیں
ایک دن سالی کو سن لوگے کہ سالاہوگیا
خاندانی خانداں در خانداں بنتے گئے
ہم فلاں، ابن فلاں،ابن فلاںبنتے گئے
کچھ علاجِ دل سوچو، کچھ کرو جتن یاروں
اٹھ رہاہے دنیا سے عشق کا چلن یاروں
جنابِ شیخ کی افسوس زندگی کیاہے
بچارے یہ بھی نہ سمجھے کہ مے کشی کیاہے
ارادہ کر دیا مرنے کا بھی ترک
سنا جب سے بہت مہنگا کفن ہے
گھیرے ہیں ہمیں عشق کے شیطان وغیرہ
اللہ سنگھائو ہمیں لوبان وغیرہ
وحشت میں کسی کا نہیں ہو تو کوئی جھنجھٹؔ
کام آتے ہیں گر کچھ تو گریبان وغیرہ
پرویز شکوہ
178/44مقبرۂ جناب عالیہ گولہ گنج، لکھنؤ
موبائل نمبر:7505299219
Email : [email protected]

7505299219

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular