Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجنگ میں ہم پہل نہیں کرتے

جنگ میں ہم پہل نہیں کرتے

(2 محرم) کربلا انسان سازی کی درسگاہ

کربلا ایک انسان سازی، صلہ رحم، امن، چین، خیراور صلح و آشتی کی درسگاہ ہے۔ کربلا کی تاریخ جاننے اور ماننے والا کبھی جنگ میں پہل نہیں کرسکتا اور اگر کربلا کے صرف اس عمل کی اتباع کر لی جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں امن قائم ہو جائے گا۔
جب واقعہ کربلا کی تمہید سازی ہو رہی تھی تبھی امام حسین ؑ نے یہ درس دے دیا کہ ہم جنگ میں پہل نہیں کرتے جب ولید کے دربار میں مروان نے کہا کہ ولید حسینؑ سے ابھی بیعت لے لو اگر یہ چلے گئے تو پھر بیعت نہ لے سکوگے، یہ سننا تھا کہ امام حسین ؑ کی آواز بلند ہوئی جسے سن کر بنی ہاشم کے جانباز تلواریں کھینچ کر دربار میں آگئے عنقریب ولید کے درباریوں کے سر زمین پر خاک اور خوں میں غلطاںہوتے کہ انہیں امام حسین ؑ نے یہ کہہ کر روکا کہ ہم جنگ میں پہل نہیںکرتے۔ یہی نہیںبلکہ کربلا پہونچنے سے قبل جب حر کے لشکر نے امام حسین ؑ کا راستہ روکا اور جبراً کربلا لے جانا چاہا تو امام کیلئے بہت آسان تھا کہ حر کے پیاسے لشکر جن کے گھوڑوں کی بھی زبانیں پیاس سے باہر آگئی تھیں، سے جنگ کرلیتے، لیکن یہاں بھی انہوں نے کہا کہ ہم جنگ میںپہل نہیں کرتے اور اپنے اصحاب سے لشکر حر کے جانوروں تک کو پانی سے سیراب کرایا۔ ایسے ہی جب ابن زیاد کی فوج نے دریا کنارے سے امام کے خیمے ہٹانے کو کہا تو آسان تھا کہ جنگ کرلی جاتی کیونکہ اس وقت نہ توکوئی تین دن کا پیاسا تھا اور نہ بھوکا۔لیکن امام حسین ؑنے یہاں بھی یہی کہا کہ ہم جنگ میں پہل نہیں کرتے اور خاموشی سے اپنے خیمے دریا سے ہٹا لئے۔ یہاایک فقرہ اُن لوگوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو یہ کہتے ہیںکہ امام حسین ؑ انا پسند تھے تمام لوگوں کے سمجھانے کے باوجود وہ یزید کے مقابلے میں گئے، ہاں! لوگوں نے سمجھایا لیکن جس نے بھی مقابلے پر جانے سے روکا اس کو امام حسینؑ نے جوا ب دیا ’’کیونکر مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت کرلے، یزید کا لشکر زیادہ سے زیادہ ہمیں قتل ہی کردے گا، موت تو ایک دن سب کو آنی ہے، لیکن ہم اپنے ضمیر کا سودا کس طرح کرلیں، ہم کس طرح یزید جیسے فاسق و فاجر کے ہاتھوں پر بیعت کرلیں کیا ہم شریعت محمدی کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ہوتا ہوا دیکھتے رہیں‘‘ جس کے گھر کا دین ہو اور اس دین کو لانے والے اور تبلیغ کرنے والے خود اس کے نانا ہوں وہ اسے کیونکر مٹتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ اسی لئے امام حسینؑ نے کسی بھی قیمت پر اسلام پر آنچ نہ آنے دی اور قیامت تک اس کی حفاظت کاایسا انتظام کیا کہ پھر کوئی یزید جیسا حسین جیسے سے بیعت کا مطالبہ نہ کر سکے۔
بہت سے ناسمجھ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے سب کچھ جانتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا معاذ اللہ انکا یہ عمل خودکشی کے مانند ہے اور اسلام میں خودکشی حرام ہے۔ بچپن میں اسے خطیب اکبر مرحوم مرزا محمد اطہر صاحب نے اپنی مجلس میں ہم بچوں کومخاطب کرتے ہوئے بیحد آسان لفظوں میں سمجھایا تھا کہ جان بوجھ کر جان دینا کہاں پر خودکشی نہیں عظیم قربانی ہے، انہوں نے فرمایا کہ دو لوگ ایک ٹوٹے ہوئے پل کے پاس موجود تھے اور ہزاروں مسافروں سے بھری ٹرین اس پل سے گزرنے والی تھی۔ ٹرین کی آمد پر ان دونوں کے پاس کوئی ایسی تجویز نہیں تھی جس سے وہ ٹرین کو روک سکیں۔ان میں سے ایک نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اتنے معصوم افراد کو مرنے نہیں دے گااور اس ٹرین کو روکنے کے لئے وہ ٹرین کے آگے کود جائے گا ،جس سے اس کی جان تو ضرورچلی جائے گی مگر ہزاروں مسافروں کی زندگی بچ جائے گی۔لیکن اس شخص نے ٹرین کے آگے کودنے سے پہلے اپنے ساتھی سے کہا کہ یاد رکھناکچھ لوگ اسے خودکشی کا نام دیں گے تم ان سے کہہ دینا کہ ہاں میں نے جان بوجھ کر جان دی لیکن ہلاکت کے لئے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لئے۔ لہٰذا یہ جان دینا خودکشی نہیں بلکہ قربانی ہے۔
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular