Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجشنِ شارب جشنِ لکھنؤ

جشنِ شارب جشنِ لکھنؤ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ڈاکٹر ریشماں پروین

عزیزی قارئین جس وقت جشنِ شارب کے انعقاد کا خیال ہم سب (شاگردانِ شارب پروفیسر محمد ظفرالدین، ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر احمد امتیاز، ڈاکٹر خان فاروق، وقار ضوی، پرفیسر عباس رضانیر اور ڈاکٹر ریشماں پروین) کے دل ودماغ میں آیا تھا س وقت ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ محبانِ شارب کی شدید انسیت ومحبت جشنِ شارب کو جشنِ لکھنؤ میں تبدیل کردے گی جیسے جیسے ہماری کوششیں اس جشن کے سلسلے میں آگے بڑھتی گئیں، لکھنؤ کے تمام شیدایان ادب اور شیدایان شارب کے پیغامات نے ہمارے حوصلوں کو بلند کردیا جس سے بھی ہم نے اس پروگرام کا ذکر کیا اس کا چیرہ کھِل اٹھا، یوں بھی لکھنؤ کا نام آتے ہی ہمارے دل ودماغ میں ایک خاص کلچر، ایک خاص تہذیب کا نام گونجنے لگتا ہے۔ وہ خاص کلچر، وہ خاص تہذیب جسے اودھ اور لکھنؤ کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر بنایا ہے جس کا جادو ساری دُنیا کے سر چڑھ کر بولتا ہے جس کی عظمت ہرجگہ تسلیم کی گئی ہے۔ اسی لکھنؤ کے پروردہ ہیں شارب ردولوی، جنھوں نے ردولی میں اپنا بچپن گزارا اور طالب علمی کی منزلیں لکھنؤ میں طے کیں، شارب صاحب کا دور وہ دور تھا جب لکھنؤ کی فضا میں لٹریچر اور ادب مہکتا تھا اس وقت لکھنؤ میں بڑے بڑے ادیب وشاعر موجود تھے، سرور صاحب کے گھر کی محفلیں، علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری ، اختر حسین تلہری، آنند نرائن ملا، احتشام صاحب کی محبتیں کافی ہاؤس کی دو پہریں اور شامیں، مجازصاحب بیٹھے مسکرارہے ہیں، سلام مچھلی شہری، احمد جمال پاشا، سبطِ اختر، حسن عابد، قمر رئیس، قاضی عبدالستار، آغاسہیل، میم نسیم، رام لال، منظر سلیم، ڈاکٹر محمد حسن، ستیش بترا، عابد سہیل، اقبال مجید، عثمان غنی، رتن سنگھ، شکیب سیتاپوری، احراز نقوی، والی آسی، بشیشر پردیپ، یشپال، امرت لال ناگر، الی چندر جوشی، قیصر تمکین، مشیر علوی اور ترقی پسند تحریک کے روحِ رواں سجاد ظہیر اس زمانے میں لکھنؤ میں موجود تھے، غرض ایک کہکشاں تھی۔
لکھنؤ آج بھی اسی گنگا جمنی تہذیب کا مرکز ومحور ہے اور خود شارب ردولوی اس گنگا جمنی تہذیب کی محرک تصویر ہیں جن کی محبت بغیر کسی مذہبی ومسلکی تفریق وامتیاز کے ہردل میں موجود ہے جس کا ثبوت ہمیں عہدِ حاضر میں مِلا عزت المآب گورنر رام نائک صاحب، سریندر پرتاپ سنگھ (وائس چانسلر لکھنؤ، یونیورسٹی) ڈاکٹر عمار رضوی صاحب، پروفیسر آصفہ زمانی صاحبہ، پروفیسر روپ ریکھا ورما، پروفیسر صابرہ حبیب، پروفیسر رمیش دکشت، وندنا مشرا، پروفیسر مجاور حسین، پروفیسر فضل امام، حفیظ نعمانی صاحب، پروفیسر جمال نصرت، ڈاکٹر صبیحہ انور، انیس انصاری، سلام صدیقی، عائشہ صدیقی تمام لوگ صدقِ دل سے جشنِ شارب کے انعقاد کے لیے ہرممکن مدد کو تیار شارب صاحب کے یارِ غار عارف نقوی صاحب، عارف محمود صاحب اور شاگردانِ شارب کے جذبۂ محبت کو سلام جنھوں نے اپنے استاد محترم کے لیے ایک تاریخ لکھ دی ایسی والہانہ محبت دیکھی نہ سنی۔

پروفیسر شارب ردولوی کو ان کےشاگرد( پروفیسر ظفر الدین، ڈاکٹر ریشما پروین، ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر خان فاروق) گلدستہ پیش کرتے ۔

شاگردانِ شارب کے جذبۂ محبت کا یہ سیلاب ہمیں ہندوستان کے ہرکونے سے امڑتا نظر آیا اور یہ صرف لفظی یا کاغذی بات نہیں اس کا مدلل ثبوت ہندوستان کے ہرگوشے سے تمام یونیورسٹیوں سے اس پروگرام میں شامل ہونے والے ان کے شاگرد ہیں جو حیدرآباد، دلی، علی گڑھ، کلکتہ، امرتسر، جموں، کشمیر، گورکھپور، کانپور اور بہت سے شہروں سے آئے ہیں۔
اُن کے عزیز شاگرد ڈاکٹر حسن مثنیٰ سے میری بات ہوئی، اپنی شدید بیماری کے باوجود ان کی محبت کا عالم دیکھیے۔ کہنے لگے میں وہیل چیئر پر بیٹھ کر آؤں گا مگر آؤں گا ضرور، افسوس آج حسن مثنیٰ ہمارے درمیان نہیں ہیں 27 نومبر 2018 کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ہمارے ادبی خاندان کی روح آپا پروفیسر شمیم نکہت، شعاع، عابد سہیل صاحب اور حسن مثنیٰ آج بھلے ہی جسمانی طور سے اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ وہ اس پورے جشن میں ہمارے ساتھ موجود ہیں اور ہم سب کی طرح جشنِ شارب جشنِ لکھنؤ میں اپنی شرکت پر نازاں ہیں۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular