ثامن الائمہ حضرت علی بن موسیٰ رضاؑ

0
137

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سید بشیر حسین رضوی

ہمارے آٹھویں امام رضاؑ کی ولادت باسعادت ۱۱؍ذی القعدہ ۱۴۸؁ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی۔
آپکی والدہ گرامی نجمہ خاتون، دینی، علمی، اور عقلی لحاظ سے اپنے زمانہ کی خواتین میں سب سے افضل تھیں۔ آپکو تکتُم، خیزران،اور طاہرہ کہا جاتا تھااور آپکی کنیت ام البنین تھی۔
ولادت کے وقت آپکے والد گرامی حضرت امام موسیٰ کاظم ؑنے آپکے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور آپنے اس موقع پر فرمایا۔ یہ بیٹا زمین پر بقیۃ اللہ اور میرے بعد حجّت الٰہی ہے۔
آپکے دیگر نام۔ صابر،زکی،ولی، فاضل،صدیق،رضی،سراج اللہ،نورالہدیٰ،عین المومنین بھی تھے۔ آپکی کنیت مبارک’’ابوالحسن‘‘تھی۔
ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت،معنوی دنیا کے نظام میں اور حیات اسلام کی بقا کے لیے بالکل آفتاب،اس کے نور اور اسکی شعاعوں کے مانند ہے۔ یہ بزرگ ہستیاں،مخصوص شرائط میں،مختلف حالات میں، وقت کی گوناگوں ضرورتوں میں،آفتاب کی طرح چمکتی و دمکتی رہیں۔ اور اپنے پیروکاروں کی ہدایت و پرورش میں منہمک رہیں۔ان میں سے ہر ایک اپنے دور کے مخصوص تقاضوں کے لحاظ سے نور پھیلاتی رہیں۔ اسطرح کہ بعض نے میدان کارزار میں دلیرانہ کارنامے انجام دیئے اور خون سے ساری دنیا تک پیغام پہنچا دیا۔بعض نے منبر درس سے معارف اسلامی کے نشر واشاعت کی ذمّہ داری سنبھالی۔بعض نے ظالم و جابر بادشاہوں اور حکمرانوں کے قیدخانوں میں قید و بندکی زندگی گزاری مگر اپنی پیکار سے دست بردار نہیں ہوئے۔
یہ اشخاص ہر حال میں اور ہر جگہ آفتاب کی طرح رہے۔اور مسلمانوں کی بیداری اور پرورش میں مسلسل کو شاں رہے۔
جانشینی امامت: امام موسیٰ کاظم ؑ بخوبی جانتے تھے کہ حکومت وقت انھیں (امام رضاؑ) کو بھی اپنے مظالم کا نشانہ بنائے گی۔بس اولاد فاطمہؑ و علیؑ سے ۱۷؍ اشخاص کو منتخب کیا جو عظمت اورحیثیت کے لحاظ سے ممتاز تھے۔ انھیں جمع کرکے اپنے فرزند امام علی رضاؑ کو اپنا قائم مقام و جانشین مقرر فرمایا۔
ایک وصیت نامہ تحریر کرتے ہوئے جس پر مدینہ منوّرہ کے معزز ہستیوں کے بطور گواہ دستخط کراکے اس تحریر کو آپکے(امام علی رضاؑ) کے سپرد کر دیا اور اسی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو پیغام بھی دے دیا کہ میرے بعد امام رضاؑ ہی میرے جانشین اور لوگوں کے امام ہوں گے،نیز زمین پر یہی حجّت خدا ہوں گے۔
قید خانہ ہارون میں امام موسیٰ کاظمؑ کی شہادت کا ردِّ عمل : ۱۸۳ھ؁ امام موسیٰ کاظمؑ کی ہارون رشید کے قیدخانہ میں شہادت ہوگئی۔ یہ خبر کچھ اس قدر پردرد تھی کہ چاروں طرف جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ایسے حالات کا امام رضاؑ نے بڑے ہی صبر و استقلال کے ساتھ سامنا کیا۔ امامؑ کی شہادت کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ حکومت کے ہر صوبے میں عوامی بغاوت ایک بڑے طوفان کی شکل اختیار کرتی گئی عوام نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا شروع کر دیا جس میں یمن، خراسان، فارس، مدائن، حجاز، کریان، سیستاں، شورش کے مرکز بن چکے تھے۔
عوامی بغاوت کی وجہ سے حکومت کی راتوںکی نیند حرام ہو چکی تھی یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ جب بھی حکومت کے خلاف عوام علم بغاوت بلند کر دیتی اور عوام پر حکومت کا قابو پانا نا ممکن ہو جاتا تھا۔اس وقت حکومت وقت کو آل رسولؐ کے سوا کوئی مددگار نظر نہیں آتا تھا ایسے حالات میں آل محمدؐ سے مدد طلب کرنا انکی مجبوری ہوتی تھی۔
حضرت امام علی رضاؑ کی ولی عہدی: حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل ہو سکے اس کے لیے مامون رشید عباسی کی نظر نے ایسے چہرے تلاش کرنا شروع کئے۔تو اسے بنی عباس سے کوئی بھی فرد اور کوئی بھی شخصیت ایسی نظر نہ آئی جو امام رضاؑ کے مقابلہ زہد و تقویٰ،فضیلت و عظمت اور علم و عمل میں مامون رشید کی نظروں میں ٹھہرتا جسے وہ خلافت کے شایان شان سمجھتا آخر کار مجبور ہو کر حضرت امام علی رضاؑ کے ہاتھوں میں زمامِ حکومت دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔
حالانکہ مامون کے اس فیصلہ اور اعلان پر لوگوں میں اختلاف شروع ہو گیا مگر مامون نے یہ کہکر سبکو خاموش کر دیا اور کہا کہ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے اور اس پر عمل ضرور ہوگا۔
مامون نے ۴؍ہزار لوگوں کے کاغذ پر دستخط لیکر ’’بیعت نامہ‘‘تیار کرایا اور اسے سلیمان کو دیکر امام کی خدمت میں مدینہ منوّرہ روانہ کر دیا۔ سلیمان مدینہ پہونچا اور مامون کا تحریر کر دہ فرمان امامؑ کی خدمت میں پیش کیا۔
تقریباً ۲؍ مہینہ تک مامون رشید ’’ ولی عہدی‘‘ قبول کرنے کے لیے اصرار کرتا رہا اور امام رضاؑ برابر انکار کرتے رہے آخر کار مامون کا دبائو کچھ ظالمانہ انداز میں اس قدر بڑھا کہ بدرجۂ مجبوری مصلحتاً امامؑ کو اپنی شرطوں کے ساتھ’’ عہدہ ولی عہدی ‘‘قبول کرنا پڑا مامون کو ظاہر بہ ظاہر امام نے ہر شرط کو منظور کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مامون نے شرطیں تو بڑ ی چالاکی سے منظور کی تھیں(جسے امامؑ بہ اعجاز اچھی طرح سمجھتے تھے) اسکے بعد امامؑ نے جانب آسمان اپنا چہرہ مبارک اٹھا کر بارگاہ رب العزت میں عرض کیا کہ خدایا! تو خوب جانتا ہے کہ عہدہ ’’ولی عہدی‘‘ پر مجھے کس قدر مجبور کیا گیا وقت کی ضرورت کے تحت اسے میں نے منظور کر لیا جس طرح اس سے قبل دو پیغمبر،حضرت دانیالؑ اور جناب یوسفؑ نے اپنے زمانے کے بادشاہوں کی جانب سے پیش کی گئی ولی عہدی کو قبول کیا تھا(وسیلۃ النجات ص ۹۷۳)
امامؑ کو اپنے اہل و عیال اور چاہنے والوں کو مدینہ منوّرہ میں مجبوراً چھوڑ کر خراسان کا سفر اختیار کرنا پڑا۔(المختصر) حضرت کی یہ عزت و شان تھی کہ جب مامون نے ’’ولی عہدی‘‘ کے لئے آپکو مدینۂ منوّرہ سے شہر خراسان کے لیے بلایا۔ جب حضرتؑ کی سواری ’’نیشاپور‘‘پہونچی تو زائرین کے اژدھام سے چلنا دشوار تھا۔ بازار کے سارے راستے بند ہو گئے تھے ۔
امامؑ کے بہت ہی نزدیکی صحابی’’اماصلت ہروی‘‘ کا بیان ہے کہ: میں امامؑ کے ہمراہ تھا آپ ایک خاکستری رنگ کے خچّر پر سوار تھے،محمد بن رافع،احمد بن الحرث،اور یحییٰ بن یحییٰ امامؑ کے گرد جمع تھے۔اور امامؑ کی سواری کی لگام اپنے ہاتھوں میں لیے ہوئے تھے اور امامؑ سے عرض کر رہے تھے کہ آپکو اپنے پاک و پاکیزہ آبائو اجداد کی قسم ہمارے درمیان ایک ایسی حدیث بیان فرمائیے جسے آپ نے اپنے والد ماجد سے سنا ہو۔
تاریخ کی دوسری کتابوں میں ہے کہ جس وقت مجمع کثیر کے سامنے امامؑ حدیث’’سلسلۃ الذہب‘‘ بیان فرما رہے تھے مشتاقان امامؑ کی (جو امامؑ کی زیارت کے لئے بے چین تھے) گریہ کی آواز اتنی بلند تھی کہ ایک مدّت تک کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ علماء اور قاضیان شہر جو اس مجمع میں موجود تھے لوگوں کو خاموش کرنے کے لیے چیخ رہے تھے کہ پیغمبر ؐخدا کی ذریت کو اذیت نہ دو خاموش ہو جائو۔خاموش ہو جائو۔
آخر کار امامؑ نے اس شور و ہنگامے میں حدیث(حدیث سلسلۃ الذہب) بیان فرمائی۔ اس وقت ۲۴؍ ہزار افراد قلم و کاغذ لیے ہوئے امامؑ کے الفاظ کو لکھنے کے لئے آمادہ تھے۔(المختصر)
امام ؑ کے چند اقوال
تبرک کے لیے امامؑ کے بے پناہ علم و دانش سے استفادہ کرنے کی خاطر امامؑ کے چند اقوال ذیل کی سطروں میں نقل کر رہے ہیں:
۱۔ انسان کی شخصیت اس کی زبان میں پوشیدہ ہے جب وہ گفتگو کرتا ہے اس وقت اسکی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔
۲۔ جو اپنے دینی بھائی کی غیبت کرے وہ ملعون ہے۔
۳۔ مومن غصے کے عالم میں بھی خود سے تجاوز نہیں کرتا۔
۴۔ مردم دوستی نصف عقل ہے۔
۵۔ قرآن خدا وند عالم کا کلام ہے اس سے گریز مت کرو، کہیں اور ہدایت تلاش نہ کرو ورنہ گمراہ ہو جائو گے۔
۶۔ جو شخص اپنی قدر و منزلت کو پہچانتا ہے وہ ہر گز گمراہ نہیں ہو گا۔
۷۔ بندگان خدا سے دشمنی بدترین توشۂ آخرت ہے۔
۸۔ تحفہ دلوں سے کینہ ختم کرتاہے۔
۹۔ جو مسلمان کے حق میں خیانت کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔ (المختصر)
مقیم حال لکھنؤ۔7897591893

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here