Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim World’’ تین کردار‘‘

’’ تین کردار‘‘

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

صابر شبیربڈگامی

نیلے آ سماں اور گھنے جنگلوںکو دیکھ کر انورسجاد کے دماغ میں متواتر خیالات کی ندی گنگنا رہی تھی۔پہاڑوں سے گرتے ہوئے جھرنوںاور آبشاروں کے مترنم شور سے روح میں تازگی کااحساس بیدار ہونے لگا تھا۔اُسے بچپن سے ہی Driving کا شوق تھا۔سیر و تفریح کی غرض سے وہ گلمرگ،کھِلن مرگ میں اپنی آرزو کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے کیونکہ آج اس نے خود گاڑی چلانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔زندگی جینے کے لئے کبھی کبھار بے خود ہونا بھی بے حد ضروری معلوم ہوتا ہے۔دورانِ سفر انورسجاد کا شاکرمشکور نامی ایک دوست مدہوشی کے عالم میں کچھ ایسے عجیب سوالات پوچھ رہا تھا جس کی بنا پر سجاد صاحب ذہنی اُلجھن میںمبتلاہوجاتاکیوں کہ قدرت کے حسین نظارے اُسے اپنی طرف بلانے کی سعی کر رہے تھے اور وہ ان کی آغوش میں مسلسل ڈوبتا چلا جارہا تھا۔مشکور کہنے لگا:
’’دیکھو یار ہم Boota pathri بھی ضرور جائیں گے۔وہاں سے مظفر آباد بھی قریب سے دیکھنے کو ملے گا۔دوسری بات یہ کہ وہاں سے پاکستان بھی جاسکتے ہیں۔‘‘
انورسجاد ہاتھ میں قلم لئے گہری سوچ میں ڈوب گیا اور اپنے دوست کی باتوں کو نظر انداز کرنے لگا۔
شاکرمشکورکار(Car)میںبیٹھے اپنے ایک اور عزیز ساتھی انیس اشفاق کی طرف منہ موڑتے ہوئے نغمہ سرا ہوا:
’’ میں پاکستان ہوں،میں پاکستان ہوں۔
میں شاہیں ہوں اقبالؒ کا،میں گھر حیدرؓ کی آل کا، میں قائد کا فرمان
میرے سینے میں قرآں، میں خیبر، میں پنجاب ،میں سند بلوچستان
میں پاکستان ہوں،میں پاکستان ہوں۔
انیس اشفاق مست مولابندہ تھا۔اسے قومی ترانے سننے کا کوئی شوق نہ تھا لیکن دوست کو خوش رکھنے کے لئے ان کی ہاں میں ہاں ملا لیا کرتا۔وہ پڑھا لکھا نہ تھا اس لئے دماغ بھی اندر سے بالکل کورا تھااور اسے امانت کے طور پر خدا کو واپس لوٹانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔حقیقت ہے کہ اُسے اگر کسی سے محبت تھی تو وہ اپنے دوستوں سے ۔بیچارا دن بھر ان کی خدمت کرتا رہا۔دریا دل آدمی تھا۔اکثر اس کا موبائیل فون بجتا رہتا۔صحیح کہتے ہیں:
؎ جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نہ بھاری لگے
نہ ہوئے اُسے جگ میں قرار
جسے عشق کی بے قراری لگے
انیس اشفاق کو جب بھی ویڈیو کالvedio call آجاتی اسے بہت زیادہ گھبراہٹ محسوس ہوتی۔ایک تو دوستوں کے طنزیہ کلام کو برداشت کرنا پڑتا دوسرا گرل فرینڈGirl friend کی فرمائشوں کے انبار کو بھی دوش پر اُٹھانا پڑتا۔محبوبہ کے لئے تبرک لانے بابا پیام الدین رشیؒ کے آستانِ عالیہ تک بھی پہنچا جو بہت زیادہ اونچائی پر واقع ہے۔باوجود اتنی تگ ودو کے اس کے کاموں کو کبھی بھی سراہا نہ گیا۔
شاکر مشکور مسلسل پاکستان،مظفرآباد،کراچی،لاہور کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔اسے اپنے اندازِ گفتگو پر بہت ناز تھا کیونکہ انیس اشفاق اس کے سامنے کچھ نہیں کہہ پاتاتھا ۔
انور سجاددکوان کی باتیں سن کر گُھٹن سی محسوس ہونے لگی۔انہوں نے جٹ سے دونوں کو ٹوکااور غصیلے لہجے میں کہا:
’’ارے یار تمہیں کیا ہوگیا ہے چھوڑو یہ فضول بحث۔میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن پتا نہیں کیوں لکھ نہیں پاتا!‘‘
مشکور نے آنا فاناً جواب دیا۔مجھے پتہ ہے کہ تم کیا لکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔غزل لکھنی ہے کیا؟ تم اُردو والے بھی نا!روز وہی پرانی داستانیں سنایا کرتے ہو۔ارے تم لوگوں میں کچھ Practicality بھی موجود ہے۔محض باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔عملی و اطلاقی طور پر میدان میں آنے سے ہی بات بنتی ہے۔
اپنے جگری دوست کی اس تلخ کلامی سے انور سجاد کے دل کو گہری چوٹ پہنچی اورلب خاموش ہوئے۔لیکن شاکرمشکور نے جلدی معافی مانگی اور سجاد سے غزل سننے پر اصرار کیا۔
انورسجاد اپنے الفاظ کو خلق کرنے میں اُلجھ رہا تھا۔اس کے بلند خیالات پر وزن،بحر،ردیف ،قافیہ پہرہ بٹھائے ہوئے تھے۔وہ دراصل تخلیقی آزادی کو پروان چڑھانا چاہتا تھا لیکن کامیاب نہیں ہوپاتا۔آخر کار انہوں نے دوستوں سے کہا کہ غزل تو نہیں ہوپائی لیکن ایک آزاد نظم جس کا عنوان’’میں اور کشمیر‘‘ ہے،ضرور سناؤں گا۔انور سجاد پُر اثر لہجے میں بظاہر آزاد نظم سنانے لگا لیکن خود اُسے محسو س ہونے لگا کہ شایدوہ نثری نظم سنا رہا ہے۔بہرحال انور سجاد نظم سنانے لگا:

؎ میں پہاڑوں کی چادر سے ڈھکا تھا یاربّ
میری فطرت کی گود میں آبشار رواں تھے تب
جب تو نے میری تخلیق پروان چڑھائی
میری سرحد پر پہلے ہی پہرے کیوں نہ بٹھائے
اب کہ جو جابر قوم میرے سر بفلک پہاڑوں پر دوش گزار ہوئی
میرے وجود کے اندر زہر آلود نظم پھر سے رقص کرنے لگی
اب تو میری تخلیقی تحریر روبہ زوال ہوئی
میرے اشکوں کے چراغ لہو بن کر برسنے لگے
بہتے پانی کا شور ہزاروں سال کے دردناک افسانے سنانے لگا
جو لوگ مجھے جنت سمجھتے ہیں انہیں کیا پتہ کہ
مجھ میں جہنم بھی پنہاں ہے
خزاں کی گرم سانسوں سے چناروں کے
جُھلستے پتے جو نہ دیکھیں!
انہیں عذابوں کی بستی کی کیا خبر!
ہاں جنت جلتی ہے روز یہاں اور دوزخ مہکتا ہے
شاکرمشکور اورانیس اشفاق نے ابھی نظم پوری سمجھی بھی نہ تھی کہ طنزاً زوروں سے واہ،واہ،سبحان اللہ ،ماشااللہ کہتے ہوئے ہنسنے لگے۔ جس کی وجہ سے سجاد ایک بار پھر مغموم ہوا۔
انورسجاد دوستوں سے ناراض ہو کر بہت تیز گاڑی چلانے لگا گویا خودکشی کرنے جا رہا ہو۔شاکرمشکور دھیمے لہجے میں انور سجاد سے کہہ رہا تھا کہ آگے Boota pathri آنے والا ہے۔وہاں ایک فوجی کیمپ ہے جہاں سے ہمیں گزرنا ہے،تم اسی طرح سے گاڑی تیز چلاتے رہنا تاکہ ہم بھاگنے میں کامیاب ہوجائیں،نہیں تو وہ جانے نہیں دیں گے۔جوں ہی انور سجاد فوجی چھاونی کے نزدیک پہنچا۔اندر سے بڑی بڑی مونچھے رکھنے والا ایک فوجی باہر نکلا اور انہیں بوٹا پتھری جانے سے منع کیا،ساتھ میں یہ بھی کہا کہ وہاں سے راستہ ٹھیک نہیں ہے اس لئے تم لوگوںکوجب بھی دوسری بار یہاں آنے کی فرصت ملے ہم بلا کسی روک ٹوک کے اس وقت تمہیں جانے دیں گے۔لیکن سجاد کے سر پر جنوں سوار تھا۔اس کے ذہن میں ابھی بھی اپنے دوستوں کی باتیں گونج رہی تھی۔آج وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا اور اس نے تیزی سے بوٹا پتھری کی جانب Car کو موڑا۔پیچھے سے مسلسل زور دارآوازیں فضا میںتحلیل ہو رہی تھیں۔ ان کے تعاقب میں آرمی فوجی کا اک اک استخواں کڑک رہا تھا اور وہ انہیں سلواتیںسنا رہا تھا، ’’جلدی سے واپس آجاؤ نہیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘لیکن انہوں کسی کی ایک نہ سنی اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔تینوں دوست اپنی کامیابی پر خوش تھے کہ وہ آرمی Armyکو چکما دینے میں کامیاب ہوگئے۔جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے انہیںسفر کرنا خوشگوار معلوم ہو رہا تھا۔جب قدرت کے حسیں اور دلکش نظارے قبضے میں ہوں تو کسی دوسرے کا سننا اچھا نہیں لگتا۔ویسے بھی اس خوبصورتی پر کس کا پتھر دل پگھل نہ جائے ۔چناروں،آبشاروں،گہری جھیلوں کے نیلگوں پانی کو دیکھ کربے سبب دل ڈھڑکنے لگتا ہے ۔ہر چند کہ انور سجاد نے کار Car ایک پارک کے قریب ٹھہرائی اور انگڑائیاں لینے لگا ۔پارک میں عجیب قسم کی بد بُو آرہی تھی ۔تند و تیز ہوا سے زہریلے شرارے ٹپک رہے تھے ۔لرزہ خیز وحشی چیخوں سے جنگل اور اس کے مضافات دہشت ناک دکھائی دے رہے تھے ۔یکایک تینوں دوست سہم گئے اور جی گھبرانے لگا۔شام کے چھ بج رہے تھے اور سورج پہاڑیوں کے عقب میںغائب ہوگیا تھا۔انور سجاد کی نظر ایک درخت پرپڑی تو تین بندر دکھائی دیے جو بُری طرح سہمے ہوئے اور بالکل بے حس و حرکت بیٹھے تھے ۔بندروں کا یوں دہشت زدہ ہو کر بیٹھنا خالی از علت نہ تھا۔ تینوں دوست Car میں ایک دوسرے کو تکنے لگے تھے کہ اچانک اس میں سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور تینوں کے جھلستے ہوئے جسم زمیں پر گر پڑے۔سوشل میڈیا پر یہ خبر ویرلViral ہوئی کہ کشمیر میںاس وقت ایک المناک حادثہ رونما ہوا جب ایک بم دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے تاہم اس بات کی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ یہ بم آیاان لڑکوں کی کار میں موجود تھا یا یہ پارک میںپہلے سے ہی بچھا دیا گیاتھا ۔وہاں جو لاشیںپڑیںتھیں ان میںاب ہڑیاں زیادہ اورگوشت کم بچا تھا۔آخر کار فی الفورہڑتال کی کال دی گئی اور خون ِناحق بہنے پر شدید مذمت بھی ہوئی۔دو تین دنوں تک لگاتار ہڑتال رہی اور بعد میں حالات پھر سے اپنی ڈگر پر واپس آگئے۔۔۔۔۔۔۔

ریسریچ اسکالرشعبۂ اُردو کشمیر یونیورسٹی
Email:[email protected]
فون نمبر:9596101499

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular