Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldتین مختصر کہانیاں: یَہَوُ بھی سچ وہو وَہَوُ بھی سچ

تین مختصر کہانیاں: یَہَوُ بھی سچ وہو وَہَوُ بھی سچ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ایچ ایم یٰسین

مجمع والا اپنا مجمع لگانے کے لئے زور زور سے چلا ّ رہا تھا۔ ’’مہربان، قددان‘‘ ’’آیئے دیکھئے‘‘۔ میں آپ کو بتاتا ہوں بلکہ دکھلاتا ہوں۔ ’’دنیا کی جڑ‘‘۔
اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی گول گیند کی شکل کی کوئی چیز تھی۔ جسے وہ بار بار گھما رہا تھا ارو یہی الفاظ یا جملے ہر بار دہرا رہا تھا۔ مجمع جمع ہوتا جارہا تھا۔ ’’بچہ لوگ آگے آجائو۔ بیٹھ جائو۔ لوگ اپنی جگہ سیدھے ’’کھڑے رہیں‘‘۔ ہاتھ نہ باندھیں۔‘‘ اس کے حکم نامے جاری تھے۔
بھیڑ کافی ہوگئی۔ وہ بولا ’’شریمان، مہربان، قدردان۔‘‘ بوڑھوں کو دیکھ کر اس نے کہا ’’ابا جان‘‘ پھر مجھ سے مخاطب ہوا اور بولا ’’آپ میرے مہمان۔ میں آپ کے لئے انجان، لیکن بھائی جان‘‘ میرے ہاتھ میں یہ جو ہے یہ ہے ہم سب کی ’’جان‘‘ وہ گولا گھما رہا تھا اور اس کی پرتیں کھولتا جاتا تھا ایک پرت اُتری۔ ’’یہ ہے دنیا کی جڑ‘‘ اس نے کہا۔ لوگوں کا تجسس بڑھا۔ نہ معلوم کیا ہے۔ پھر دوسری پرت اُتری۔ گولے کے کاغذ پر کاغذ اُتر رہے تھے۔ گیند کا حجم، سائز چھوٹا ہوتا جارہا تھا۔ وہ اب بڑی گیند سے ربڑ کی چھوٹی سی گیند جتنی ہوگئی تھی۔ وہ اسی طرح گولے کی پرتیں کھول رہا تھا اور اس کا سائز کم ہوتا جارہا تھا۔ مجمع والے کا جوش اور آواز دونوں بلند ہورہی تھیں۔ ’’بھائیو دیکھو، سمجھ لو، جان لو، یقین کرلو‘‘ اس کے ہاتھ بدستور چل رہے تھے اور سب کی نگاہیں اس کے گولے کے پرت کھولتے ہاتھوں کی طرف لگی تھیں، تب ہی آخری پرت کھلی اور آواز آئی۔ ’’دیکھئے مہربان و قدردان، دیکھئے، یہی ہے دنیا کی جڑ‘‘۔
سب لو دیکھتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ دیکھا آپ نے یہ ہے ’’دنیا کی جڑ‘‘ اس دنیا کی ساری چہل پہل، جدوجہد، رونق، قتل، جھگڑا ٹنٹا، ظلم، جبر سب کچھ اسی سے ہے۔‘‘
سب کا منھ کھلا رہ جاتا ہے۔ کچھ مجمع والے کو پاگل سڑی کہتے ہیں لیکن اکثر کہتے ہیں یہو ہی سچ ہے۔ واقعی روٹی نہ ہو تو نہ بندہ ہلے نہ دنیا چلے۔

٭٭٭

سب سچ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ لیکن ہم کو اکثر آدھا سچ ہی دکھلائی دیتا ہے۔ کیونکہ جیسے ہی کوئی گمان کرتا ہے کہ ہاں یہی سچ لگتا ہے۔ فوراً ہی دوسرا سچ سامنے آجاتا ہے۔
آپ نے اکثر گلاس میں پانی بھرا دیکھا ہوگا جو کبھی صرف نصف گلاس ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ سے معلوم کرے بتلایئے یہ کیا ہے؟ آپ میں سے اکثر کہیں گے۔ ’’آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے‘‘ لیکن یقین جانئے اسی وقت کہیں سے آپ کے کان میں یہ آواز بھی آسکتی ہے ’’آدھا گلاس پانی سے خالی ہے‘‘ ہوا نہ آدھا سچ۔ کیا کہا نہیں! اچھا۔
مان لیجئے آپ کے پڑوس میں ایک فیملی رہتی ہے جس میں ایک ماں، بیٹا اور بہو رہتے ہیں۔ ساس بہو بہت جھگڑالو ہیں۔ روز کسی نہ کسی بات پر چیخ و پکار، لڑائی جھگڑا، کہاسنی ہوتی ہے۔ محلے والے عاجز ہیں۔ لیکن کچھ کرسنہیں سکتے بس برداشت کرتے ہیں۔ البتہ ان میں سے اکثر کو یہ کہتے سنا جاتا ہے۔ ’’یار یہ بڑھیا کم بخت بہت ہی بدزبان، جھگڑالو اور بدبخت ہے۔ اس نے بیٹا بہو کی زندگی پاپ بنا رکھی ہے۔ اُسے کیا چاہئے۔ بس سکون سے دو روٹی کھائے اور چین سے خود بھی رہے اور دوسروں کو بھی رہنے دے، اب باقی ہی کتنے دن رہ گئے ہیں۔
’’یہاں ساری غلطی بڑھیا کی بتائی جاتی ہے۔ ابھی یہ بات ختم بھی نہیںہوئی ہوتی کہ ایک اور بیان سامنے آتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’یار۔ یہ کم بخت بیٹا بہت ہی بے شرم، بدزبان اور ذلیل قسم کا ہے۔ جس ماں نے اس کو پال پوس کر اتنا بڑا کیا، ضعیفی میں اس چار دن کی مہمان کو برداشت نہیں کرسکتا، بیوی کو کچھ کہتا ہی نہیں بہو کا غلام ہے اور یہ بہو کم بخت بہت ہی بدتمیز۔ اکل خوری اور جھگڑالو قسم کی ہے۔ ارے بڑھیا اور کتنے دن کی ہے، آج مرے کل دوسرا دن، دونوں ذرا صبر کرلیں، اس کی خدمت کریں تو کیا بگڑ جائے گا۔ یہاں خطا بیٹا بہو کی بتائی جاتی ہے۔‘‘
دیکھا آپ نے ہے نہ یہو بھی سچ وہو بھی سچ۔

٭٭٭

ایک موٹا چور کسی بیرسٹر کے گھر میں چوری کی نیت سے گھس گیا۔ بیرسٹر صاحب ذرا فلوسفر ٹائپ اور سنکی تھی۔ مقدمہ کی فائل دیکھ کر ابیھ آنکھ لگی ہی تھی کہ انہیں احساس ہوا چور داخل ہوا۔ وہ جب ان کے پاس سے ہوکر الماری کی طرف جارہا تھا ان کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور زور سے چلا ّنا شروع کیا ’’چور، چور‘‘ چور بھی بڑا قابل تھا۔ فوراً پلٹا اور جواب دیا ’’آپ نے مجھے چور کیسے کہا۔ میں چور نہیں ہوں۔ میں آپ پر ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا۔ ابھی میں نے چوری کہاں کی ہے جو آپ نے چور کہا۔ آپ زیادہ سے زیادہ مجھے ٹریس پاسر (مداخلت بیجا کا قصوروار) (Tresspasser) کہہ سکتے تھے۔ چور کیسے کہا؟ اتنا قابل وکیل اور ایسی فاش غلطی!!! بیرسٹر صاحب گھبراگئے کہ واقعی جب تک چوری کا ارتکاب نہ ہوجائے چوری کہاں۔ انہوں نے چور کو چھوڑ دیا۔ اسی دن دوسری مرتبہ وہ چور ایک بھوکے ننگے شاعر کے گھر میںگھس گیا۔ وہ بھی جاگ رہا تھا جب چور کو کچھ نہ ملا اور وہ جانے لگا تو شاعر صاحب نے اس کر پکڑلیا اور بیٹھنے کو کہا۔ اور چور کو اپنی غزل سنانا شروع کی۔ لیکن چور نے غزل سننے کے بجائے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ چور کو بھاگتا دیکھ کر شاعر نے بھی ’’چور چور‘‘ کا شور بلند کیا۔ چور اندھیرے میں بھاگ رہا تھا اور شاعر ’’چور چور‘‘ چلا ّ رہا تھا کہ ایک کمزور سے لڑکے نے اس طاقتور چور کو کس کے پکڑلیا اور اس کی ہزار کوشش کے بعد بھی نہ چھوڑا اور اس سے چمٹا رہا۔ تب ہی بہت سے لوگ شور سن کر جمع ہوگئے اور اس کو پولیس کے حوالے کردیا۔ چور نے جب پکڑنے والے کو دیکھا تو اس کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ منحنی سا لونڈا مجھے تھامے رہا۔ یقین کرنے کے لئے اس نے داروغہ سے درخواست کی کہ صاحب مجھے پکڑا کس نے؟ اس کو دکھلا دیجئے۔ داروغہ نے جب وہ لڑکا اس کے سامنے پیش کیا تو وہ بہت تعجب سے بولا ’’یا اللہ یہو بھی سچ ہے کہ کبھی چھپکلی کی موت جھینگر کے ہاتھ بھی ہوت ہے۔‘‘

٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular