Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldتمام دہشت گردیوں کی ماں :کرپشن !

تمام دہشت گردیوں کی ماں :کرپشن !

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

(عالم نقوی)

جی ہاں ،ہر طرح کی دہشت گردی، بدعنوانی (کرپشن ) ہی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔اور بد عنوانی ظلم ہے اس طرح فی الواقع ظلم ہی دنیا کا بنیادی مسئلہ ہے ۔یہ ظلم ،بے انصافی اور کرپشن جن مسائل کو جنم دیتے ہیں دہشت گردی محض ان میں سے ایک ہے ۔
ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب بھگوان کی مرضی ان کے چرنوں میں دان دے کے خریدی جا سکتی ہے تو پھر دنیا میںاپنا کام نکالنے اور دوسروں کاکام کرنے کے لیے بھی ’’ لین دین‘‘ میں کوئی برائی نہیں ۔ اس لیے یوپی کے ایک کابینی وزیر ’اوم پرکاش راج بھر‘ کے اس حالیہ بیان میں ہمیں تو کوئی مبالغہ نظر نہیں آتا کہ’’ کرپشن تو سو کروڑ بھارتیوں کے خون میں ہے اور اس بیماری کا علاج آسان نہیں ۔‘‘یو پی کے ایک پسماندہ طبقے(او بی سی )سے تعلق رکھنے والے یہ منتری جی وہی ہیں جن کی گاڑیوں کے قافلے سے چند ماہ قبل ایک بچہ کچل کر ہلاک ہو گیا تھا ۔وہ پچھلے کچھ دنوں سے خود اپنی یوگی اور مودی حکومتوں کی بعض پالیسیوں پر تنقید کے لیے سرخیوں میں ہیں ۔ لیکن ،نہ انہوں نے استعفیٰ دیا ہے نہ ان سے یوگی نے استعفیٰ مانگا ہے !
ہندستان نہ صرف دنیا کے سب سے زیادہ بد عنوان ملکوں کے’ٹاپ ٹِن‘ میں شامل ہے بلکہ پاکستان ،بنگلہ دیش ،برازیل اور میکسیکو سے زیادہ بد عنوان ہے !۱۹۸۳ میں مرکزی وزارت غذا کی سکریٹری الکا سروہی نے اپنے تحریری بیان کے ذریعے سپریم کورٹ میں یہ اعتراف کیا تھا’’ ملک میں لاکھوں ٹن گیہوں اس لیے سڑ گیا کہ پچھلے تین برسوں میں پیداوار اچھی ہوئی جس کی وجہ سے سرکاری مراکز پر اناج کی وصولی بھی پہلے سے زیادہ ہوئی لیکن اس اضافی اناج کو محفوظ رکھنے کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا ۔‘‘اس بیان پر سپریم کورٹ نے جو کہا مرکزی حکومت نے اس کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ’’پھر حکومت کو چاہیے تھا کہ فاضل اناج غریبوں میں مفت تقسیم کر دیا جاتا اور عوامی تقسیم نظام (پی ڈی ایس )کے تحت سستے غلے کی سرکاری دوکانوں سے اناج کی تقسیم کا کوٹہ بڑھا دیا جاتا۔‘‘اس ایپیسوڈ کے چھتیس سال بعد آج بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے حکومت کے گوداموں میں اناج سڑ رہا ہے اور کسان خود کشی کر رہیے ہیں !
لازمی روزگار گارنٹی اسکیم ،سرکاری اسکولوں میںبچوں کو دوپہر کا کھانا فراہم کرنے (مِڈ ڈے میل اسکیم) اور غریبوں میں دودھ دینے والے مویشیوں کی تقسیم وغیرہ کی سرکاری فلاحی اسکیموں کی ناکامی سب اسی کرپشن کا نتیجہ ہیں ۔
ہمارے طبقہ امرا ء،تاجروں اور صنعت کاروںکی اکثریت بھی اتنی ہی بے حس ،خود غرض اور بدعنوان ہے جتنی ہمارے سیاستدانوں ،حکمرانوں ،بیورو کریسی اور سرکاری ملازموں کی غالب اکثریت بے ضمیر، بے غیرت ،لالچی ،خود غرض ،بے ایمان ،بد دیانت اور بد عنوان ہے ۔
ہٹلر کے جرمنی موجودہ بھارت تک ایک ہی کہانی ہے ۔نازی جرمنی کا پورطبقہ اعلیٰ اور تمام بڑے صنعتکار ہٹلر کے ساتھ تھے ۔اور آج ملک کے سارے امبانی و اڈانی سنگھ پریوار کے حامی و مددگار ہی نہیں ، اُن کی عملی مدد سے پچھلے پانچ برسوں کے دوران با لخصوص، رافیل جیسی بدعنوانیوںکے ہمالے کھڑے کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
یہ محض اتفاق نہیں کہ آنجہانی پروفیسر سیمویل پی ہن ٹنگٹن جیسے مغربی صہیونی دانشور جو اپنے ’تہذیبوں کے تصادم (Clash of Civilization)والے مفسدانہ فلسفے کی وجہ سے مشہور ہوئے تھے وہ بھی کرپشن کے حامی تھے !اُن کے نزدیک ’’سخت گیر اور ایماندار بیو رو کریسی معاشی ترقی میں حارج ہے‘‘۔
مطلب یہ کہ جس نام نہاد معاشی ترقی کاآج چار دانگ ِعالَم میں ڈنکا بج رہا ہے وہ ایک بے حس ،غریب دشمن ،خود غرض اور بد عنوان بیورو کریسی کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔پروفیسرہَن ٹِنگ ٹَن کے افکار و نظریات بشمول ان کی بدنام زمانہ کتاب ’تہذیبوں کا تصادم‘ملک کی آئی اے ایس اکاڈمی (دہرہ دون )کے نصاب میں شامل ہیں ! ستر بہتر سال کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ ہماری سیکیورٹی اور انٹلیجنس(معدودے چند مستثنیات کو چھوڑ کر )بہ حیثیت مجموعی نکمی ،رشوت خور اور ظالم ہے ۔بے گناہوں کو پھنسانے ،جھوٹے مقدمات بنانے ،پیشہ ورانہ مہارت سے کام لینے کے بجائے ٹارچر اور فرضی انکاؤنٹروں پر تکیہ کرنے والوں سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ کشمیر سے کنیا کماری اور آسام سے گجرات تک پھیلی ہوئی بد امنی اور بھیڑ کی دہشت گردی پر قابو پا سکیں گے !
اسی طرح بد عنوان ،بے ایمان ،بے حس ،خود غرض ،لالچی ،مغرور،گھمنڈی، راشی ،مجرم اور مُسرِف (اسراف اور تبذیر میں مبتلا ) سیاست دانوں سے بھی ہمیں امید نہیں کہ وہ موجودہ نظام اور جاری طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے ملک میں پائدار امن قائم رکھنے میں کامیاب ہو سکیں گے ۔
چند سال قبل تہلکہ میگزین میں سابق وزیر قانون شانتی بھوشن کے بیٹے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کا ایک انٹر ویو شایع ہوا جس میں انہوں نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’ہمارے عدالتی نظام میں بھی کرپشن سرایت کر چکا ہے ۔عدلیہ نے ملک میں پھیلی ہوئی اعلیٰ سطحی بدعنوانیوں کے خاتمے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ یہ رویہ اختیار کر کے اسے ایک طرح سے بڑھاوا ہی دیا کہ اس طرح کے الزامات سے عدلیہ کی امیج خراب ہوگی اور ملک کے نظام عدل کو نقصان پہنچے گا ۔‘‘
سپریم کورٹ نے اس مضمون کا از خود نوٹس لیتے ہوئے پرشانت بھوشن پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم کردیا تھا جس کا فیصلہ ابھی تک ہماری نظر سے نہیں گزرا ۔ شانتی بھوشن نے اس مقدمے میں اپنے بیٹے پرشانت بھوشن کا دفاع کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں ایک درخواست دی جس میں انہوں نے نام بنام الزام لگایا تھا کہ سپریم کورٹ کے آٹھ سابق چیف جسٹس بد عنوان تھے ۔ انہوں نے اپنی اس درخواست کا ایک حصہ میڈیا کے حوالے بھی کر دیا تھا جو متعدد اخبارات و جرائد میں شایع ہوا اور آٹھ سال قبل کئی الکٹرانک نیوز چینلوں نے بھی دکھایا۔ سپریم میں داخل کی گئی اپنی اس درخواست میں شانتی بھوشن نے سپریم کورٹ کے سولہ سابق ججوں کے نام گناتے ہوئے لکھا تھا کہ ان میں سے آٹھ بد عنوان تھے اور چھے نہایت ایماندار ،البتہ بقیہ دو کے بارے میں وثوق سے کوئی حکم لگانا مشکل ہے ۔
۸ ستمبر دو ہزار دس کے ہندستان ٹائمز میں شایع اپنے مضمون میں سی این این آئی بی این کی ڈپٹی ایڈیٹر سگاریکا گھوش نے میچ فکسنگ واقعات کے ذیل میں لکھا تھا کہ’’اس بدعنوانی کا منبع تو خود انڈیا ہے اور صرف کرکٹ میں کرپشن کوئی الگ تھلگ یا نئی چیز نہیں ۔یہ تو ہندستانی سماج کے مجموعی اخلاقی بگاڑ کا حصہ ہے۔کرپشن کی دیمک تو(بلا استثنیٰ ) پورے ہندستانی سماج کوکھوکلا کیے ہوئے ہے ۔ملک کے سبھی قیمتی وسائل اُن ارب پتیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو اپنے سرمائے کو غلط اور غیر قانونی طریقوں سے بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں اور عملاً یہی وہ لوگ ہیں جو سماج پر حاوی ہیں اور حکومت بھی ان کے سامنے بے بس ہے ‘‘۔
آٹھ نو سال قبل سگاریکا گھوش نے جو کچھ لکھا تھا وہ آج دو ہزار انیس میں امبانیوں، اڈانیوں کے تیل اور رافیل گھوٹالوں ، لاکھوں کروڑ روپئے کے بینک قرضوں کی عدم وصولی اسکینڈلوں، اربوں روپئے کا کالا دھن سؤس بینکوں سے واپس لانے کے بجائے مزید لاکھوں کروڑ روپئوں کی ملکی دولت غیر ملکی بینکوں میں ’قانوناً ‘ لے جانے کی ’آزادی اور سیاسی پارٹیوں کو غیر ملکی کرنسی میں ملنے والے اربوں روپئے کے چندوں کو غیر محسوب بنادیے جانے وغیرہ کے حالیہ سرکاری فیصلوں سے ایک بار پھر صد فی صد درست ثابت ہو چکا ہے !
لیکن ہندستان سمیت کم و بیش پوری دنیا ’کرپشن کنٹرول‘ کے بجائے ‘برتھ کنٹرول‘کے چکر میں پڑی ہوئی ہے ۔بھارت اور چین دونوں ملکوں میں فیملی پلاننگ اور ’کوکھ میںمادہ جنین کے قتل‘ کے نتیجے میں لڑکیوں کی تعداد غیر معمولی حد تک کم ہو چکی ہے ‘ وطن عزیز کے پنجاب اور ہریانہ سمیت متعدد نسبتاً خوشحال صوبوں میں یہی صورت حال ہے ۔
برطانیہ کی دو یونیورسٹیوں کے آبادی پر ریسرچ کرنے والے دو اسکالر ’ولیری ہُڈسن اور ایندریا دی بوئیر ‘کی تحقیق کے حوالے سے روندر کور نے ٹائمز آف انڈیا میں شایع اپنے ایک مضمون ’’ہندستان کی گم شدہ عورت ‘‘میں لکھا تھا کہ ’’ہندستان اور چین میں غیر شادی شدہ نوجوان لڑکوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کرہ ارض کے تحفظ کے لیے خطرہ ہے ۔۔ایڈز اور دہشت گردی کے بعد یہی کنوارے دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بننے والے ہیں۔۔‘‘
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ برطانیہ کے پادری رابرٹ مالتھس کے گمراہ کن نظریہ آبادی کے زیر اثر گزشتہ سو سوا سو برسوں کے دوران ترقی یافتہ دنیا میں فیملی پلاننگ کا جو طوفان آیا اُس کے نتیجے میں آج نہ صرف ان ملکوں کی آبادی کم ہو گئی ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ان ترقی یافتہ ملکوں کی آبادی میں مزید دس بیس فی صد کمی ہوجانے کاخطرہ ہے دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں افرادی وسائل (ہیو من ریسورس) کی غیر معمولی کمی ہو جائے گی ۔محنت کشوں اور ہنر مندوںکی کمی، وہاں ایک ایسا بحران پیدا کرے گی جس کا علاج اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کہ وہاں فیملی پلاننگ کے پہیے کو الٹا گھمادیا جائے!
دہلی کے ایک معاصر نے بالکل ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ ’’آج ملک و قوم کو درپیش سب سے بڑا عذاب کرپشن (بد عنوانی ،بے ایمانی ،رشوت خوری وغیرہ ) ہے آج برتھ کنٹرول کی نہیں کرپشن کنٹرول کی ضرورت ہے ۔‘‘قرائن بتاتے ہیں کہ ہم ہندستان کو بھی یورپ اور امریکہ بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم تو اپنے ملک کو چین بنا سکنے کے لائق بھی نہیں کہ وہ صنفی عدم توازن کے باوجود عام،آدمی کی فلاح و صلاح کے اعتبار سے یورپ اور امریکہ سے کہیں بہتر ہے ۔در اصل وطن عزیز سمیت پوری دنیا کا بھلااب صرف اور صر ف د ین فطرت کی طرف واپسی میں ہے جو نہ صرف خالق کائنات کی تمام مخلوقات کی ہر طرح کی ضرورتوںکے لیے کافی ہے بلکہ آج دنیا کے تمام کرپشن زدہ ، بد عنوانی گزیدہ اور ظلم و بے انصافی کی دیمک خوردہ نظاموں کا شافی علاج بھی ہے ۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular