Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim World(بچپن کی یاد)

(بچپن کی یاد)

[email protected] 

9807694588

 

 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عرفان عابدی غازیپوری

یادیں اگر سنبھال کے رکھوں تو خوب ہے
ماضی تری دوکان میں جھانکوں تو خوب ہے
پلکیں بھیگا کے لب کو ہنسی دوں تو خوب ہے
بحرِ حسیں مقام میں ڈوبوں تو خوب ہے
ممکن نہیں میں سارے فسانہ رقم کروں
آزاد زمانے کے ترانہ رقم کروں

سوچا تھا اپنے آپ سے باتیں کروں گا میں
پچپن کی یاد دل میں بسائے جیوں گا میں
تنہا ہوا تو آس کے آنسو پیوں گا میں
روتے ہوئے سرور کے لمحہ لکھوں گا میں
بچپن پلٹ کے آئو کہ کچھ گفتگو کریں
ہم نے کہاں پہ کھوئی خوشی جستجو کریں

ہم چل رہے تھے پائوں کے تلوے پہ جس گھڑی
گرتے کبھی، تو لوگ کہیں چیونٹیاں مری
پھر اس خوشی کی بات سے میری خوشی ملی
رونے کی جا پہ لوٹ کے مسکان آ گئی
بہنوں نے بڑھ کے گود میں فوراََ اٹھا لیا
بھائی نے اپنے دوش پہ ہم کو بٹھا لیا

پرچھائیوں کو دیکھ کے ڈرنے لگے تھے ہم
نادانیوں میں سائے کچلنے لگے تھے ہم
تنہا ہوئے تو چینخ کے رونے لگے تھے ہم
ماں آگئ تو زور سے ہنسنے لگے تھے ہم
جب تک بدن میں روح رہی،جاں رہی مری
پرچھائی بن کے ساتھ میرے ماں رہی مری

مالش کے وقت پائوں پہ ماں کے جو آ گیا
رونے لگا تو بھائی بھی جھنجھن تھما گیا
بپھرا تو منھ میں تیل کا قطرہ چلا گیا
کھانا سمجھ کے تیل کا ڈھکن چبا گیا
پوتے سے پیار ہوتا تھا دادی کو بے حدود
ہم بھی انہیں کے ساتھ کئے تھے کبھی سجود

کاجل لگی تو آنکھ سے آنسو چھلک گئے
بندی جبیں پہ جیسے لگی کہ چمک گئے
پوتی گئی کریم تو ہم بھی مہک گئے
پہنے نئے لباس تو فوراََ چہک گئے
خوشیوں کے ہر مقام پہ ساری خوشی ملی
بیمار ہوگئے تو میری ماں دکھی ملی

ابّا کے ساتھ گائوں کے بازار میں گیا
ہفتہ میں ایک دن وہی اتوار میں گیا
لینا تھا آم اس لئے رفتار میں گیا
وہ آم گھر کو آتے ہی اچار میں گیا
کچھ آم کو بچا دیا ماں نے میرے لئے
چھانٹا جو اسمیں آم تو میں نے بڑے لئے

وہ آم تھا تو آم کی حالت نہ پوچھئے
اس کو مزہ سے کھانے کی چاہت نہ پوچھئے
کتنے مزے کے تھے کہ حلاوت نہ پوچھئے
کپڑوں پہ پھر گرانے کی عادت نہ پوچھئے
منھ پہ ہمارے آم کے ذرے لگے رہے
ڈانٹے کوئی تو غیض میں نیچے پڑے رہے

سورج ڈھلا کہ خواب کے بستر پہ آ گئے
میں سو گیا تو سوتے ہی سناٹے چھا گئے
کھائے بنا تھے سوئے تو چا چا جگا گئے
آنکھیں تو بند تھیں مگر لقمہ چبا گئے
اکثر بتایا ماں نے ہماری مجھے یہی
سوتے نہیں ہیں رات کو کھائے بنا کبھی

تھوڑا بڑا ہوا تھا وہی پانچ سال کا
ہونے لگا صفایا میرے کھال و بال کا
ہم پھر شکار ہو گئے مکتب کے جال کا
ہر روز میرا رنگ بدلتا ہے گال کا
مکتب میں اپنے دوست کا کالر پکڑ لیا
بستہ کے قید خانہ میں مکھی جکڑ لیا

ٹی وی لگی ہے پاس کے گھر میں خبر ہوئی
اتنی خوشی ملی کہ لگا اب سحر ہو ئی
ٹولی بھی میرے ساتھ برای سفر ہوئی
بجلی گئی تو ہائے رے قسمت زہر ہوئی
کیا خوب دن تھے ساتھ میں ٹی وی کو دیکھتے
ابا چلے ہیں گھر سے سبھی ساتھ بھاگتے

لیکن خوشی کی بات تھی بچنے لگا تھا میں
کر کے بہانے بعد میں ہنسے لگا تھا میں
ماں کو خبر جو ہوئی تو ڈرنے لگا تھا میں
چپل دبا کے روم میں جانے لگا تھا میں
آہٹ کی جب صدا مری ماں تک پہونچ گئی
بیلن کی تیز مار سے بدھی ہری ہوئی

میں جب بڑا ہوا تو شرارت بڑی ہوئی
دیکھا زمیں پہ کوئی بھی اشیاء پڑی ہوئی
تادیر یہ نگاہ ، میری تھی گڑی ہوئی
پھر تو لڑائی دوست سے حق کی،بڑی ہوئی
دو انگلیاں ملا کے بغاوت مسل دیئے
جھگڑے ہوئے ملاپ سے نفرت کچل دیئے

امی نے مجھ سے جب کہا چلنا ہے صبح کو
نانی کے گھر کو جانا ہے اٹھنا ہے صبح کو
بَس چھ بجے کی ہے تو نکلنا ہے صبح کو
سو جائو جلدی کیونکہ نہانا ہے صبح کو
نانی کے پاس جانے کے ارماں لئے ہوئے
صبح کو اٹھے تو چل دئے ساماں لئے ہوئے

بَس میں ہوا سوار تو کھڑکی سے دیکھتا
کیا میرے ساتھ پیڑ بھی چلتا ہے،سوچتا
دکھ جائے بس میں مونگ پھلی والا جو بیچتا
حسرت بھری نگاہ سے امی سے بولتا
امی مجھے دلائیے انکل سے مونگ پھلی
لے بھی نہ پائے تھے کہ میری بس نکل پڑی

ماں نے سکھایا مجھ کو ادب اور احترام
نانا سے جب ملو تو کروگے انہیں سلام
گر گفتگو جو ہوئی تو کرنا صحیح کلام
اور ہاں رہے خیال کہ کھاناصحیح سے عام
کچھ بھی کہو سکون سے ننھیال میں رہے
اتنے سکوں سے ہم کہاں ددھیال میں رہے

رمضاں میں بیقرار تھے سورج غروب ہو
پھولکی،خجور کم لگے تب دل مرعوب ہو
سجدے کے حال،صف میں لڑائی بھی خوب ہو
پھر ہم ہوئے وا ساتھ میں چاچا کی چوب ہو
کچھ سوچ کے غروب سے پہلے گئے تھے ہم
گھر کو گئے تو جیب میں پھولکی دھرے تھے ہم

چلتی ہوا جو گائوں میں پنّی اڑا دیئے
چپل کو کاٹ کاٹ کے پہیہ بنا دیئے
ہاتھوں کو موڑ موڑ کے جادو دکھا دیئے
جادو دکھا کے جیب میں سکّے چھپا دئے
المختصر! حیات کے لمحہ حسیں رہے
خوشیاں تھیں میرے ساتھ بھلے ہم کہیں رہے

عرفان دور طفل کو کیسے بھلائے گا
اب کون میرے ہاتھ میں منہدی لگائے گا
اب کون میرے بال کو کنگھی کرائے گا
اب کون اضطراب کے لمحے مٹائے گا
تو پوچھتا ہے پھر سے میں بچہ دکھوں گا کیا
ان سب کا ایک جواب ہے ماں کے قریب جا
ضضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular