Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبچوں کی داستانیں، حکا یتیں اور قصے

بچوں کی داستانیں، حکا یتیں اور قصے

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

اسلم جمشید پوری
ادب اور بچوں کا ادب؟
 دو نوں باتیں ایک ہیں یا الگ۔الگ ہیں تو ان میں کیا تفریق ہے۔ ادب زندگی کا لفظوں میں بیان ہے۔ادب زندگی کا تر جمان ہے۔ ادب انسا نی زندگی کا نشیب و فراز ہے،تو کیا داستا نیں ادب کا حصہ نہیں؟ جہاں زندگی کا گذر کم کم ہو تا ہے۔ تصور، تخیل اور خیال آفرینی نئے نئے جہان تشکیل کرتی رہتی ہے۔ کیا اس طرح خلق ہونے والے جہان،زندگی کا حصہ ہیں یا نہیں؟ کیا ہم انہیں یکسر زندگی سے خا رج قرار دے سکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں نہیں؟ مانا ان میں صد فی صد زندگی کے عنا صر موجود نہیں ہیں لیکن ان میں بالکل زندگی نہ ہو، یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح ہم داستانوں کو زندگی سے خا رج نہیں کر سکتے۔ خیر یہ بحث پھر کبھی۔ بچوں کا ادب کیا اور کیسا؟ بچوں کی عمر، نفسیات اور دلچسپی کے پیش نظر کیا جانے والا ادب، بچوں کے ادب کے زمرے میں آ تا ہے۔مثلاً بہت چھوٹے بچے یعنی چھ ماہ سے سال اور دو سال تک کے بچوں کو ماں کی لو ری اور گیت اچھے لگتے ہیں۔ اسکول جانے والے بچوں(جن کی عمر پانچ سال سے10سال تک ہو) کو حیرت انگیز کار نامے زیا دہ اچھے لگتے ہیں۔ ما فوق فطرت عنا صر عظیم الجثہ دیوجن،    خوبصورت پریاں، عجیب و غریب جانور یہ سبھی بچوں کی دلچسپی اور حیرت کا سا مان ہو تے ہیں۔ گذشتہ صدی کے اواخر یعنی1990ء سے2015ء تک یعنی گذشتہ پچیس برسوں میں بچوں کی دلچسپی کے معیار بدل گئے ہیں۔ پہلے جن چیزوں میں بچے دلچسپی رکھتے تھے وہ اب پرا نے زمانے کی باتیں ہو گئی ہیں۔دس سے سو لہ سترہ سال کے بچوں کی مصروفیات بدل گئی ہیں۔ان کی دلچسپی کے سامان بدل گئے۔ پہلے بچے بھوت اور جن سے بہت زیا دہ خوف زدہ ہو جاتے تھے لیکن اب کے بچے ڈر نے کے بجائے ان کو جاننا چاہتے ہیں۔ یعنی انفارمیشن ٹیکنا لوجی اور میڈیا نے دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اب دوری کا قدیم تصور ختم ہو رہا ہےExplosion of knowledge نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ نے بچوں کی دلچسپی کے نئے نئے دور وا کیے ہیں۔جہاں تک داستانوں خصوصاً بچوں کی داستانوں کا سوال ہے تو اردو میں کوئی داستان بچوں کے مزاج، عمر اور نفسیات کے اعتبار سے تحریر نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہماری سبھی داستانیں بچوں کی دلچسپی کے عنا صر سے مملو ہیں۔ مثلاً سبھی داستانیں دس سے پندرہ سال کے بچوں کے لیے حیرت انگیز کارناموں، ما فوق فطرت عناصر اور دیو ہیکل کرداروں سے بھری پڑی ہیں۔ داستان میں مافوق فطرت عناصر کی اہمیت و افادیت پر ڈا کٹر ابن کنول اپنی کتاب داستان سے ناول تک میں لکھتے ہیں:
’’داستان کو طول دینے کے لیے اس میں ما فوق فطرت عناصر کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر داستانوں میں سے مافوق فطرت عناصر کو نکال دیں تو داستان کی عمارت ہی ڈھ جائے گی۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح ہے۔ فوق فطرت عناصر کی موجودگی داستان کا حجم بڑھا نے کے لیے ہی نہیں ہوتی بلکہ حیرت و استعجاب کی فضا پیدا کرتی ہے۔ اجنبی مخلوق کے بارے میں بیان کر کے سامعین کا اشتیاق بڑھایا جاتا ہے۔‘‘
(داستان سے ناول تک، ڈا کٹر ابن کنول، ص18مطبو عہ موڈرن پبلشنگ ہائوس، دہلی2001ء)
ڈا کٹر ابن کنول نے داستان کے اوصاف میں ما فوق فطرت عناصر کا ذکر بخو بی کیا ہے کہ اس کے بغیر داستان کی عمارت ڈھہ جانے کا خدشہ ہے۔ بچوں کی نفسیات کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کو داستان کا یہ وصف اپنی جانب زیادہ مبذول کرتا ہے۔ بچے ایسے کرداروں کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ دلچسپی پانچ سال سے پندرہ سال تک کے بچوں کے اندر بخو بی پا ئی جاتی ہے اور ہماری داستانوں میں ما فوق فطرت عنا صر کی بھر مار ہے۔ داستان امیر حمزہ کا ایک اقتباس ملا حظہ کریں:
’’امیر ایک درخت کے سائے کے نیچے بیٹھ کر صحرا کی فضا دیکھنے لگے۔ ایک ساعت نہ گزری تھی کہ ایک درخت سے شور و غل پیدا ہوا۔ امیر اس درخت کے نیچے جا کر غور سے دیکھنے لگے۔ معلوم ہوا کہ سیمرغ کے بچے شورو غل کر تے ہیں۔ سیمرغ کے بچوں کو جو دیکھا تو با وجود گوشت کے لوتھڑے ہونے کے ہر ایک ہاتھی سے زیا دہ قد آ ور ہے،جسم ہر ایک کا کوہ کے برا بر ہے اور بے تحا شہ چیختے ہیں۔ امیر اِدھر ُادھر دیکھنے لگے کہ انہوں نے کس چیز کو دیکھا ہے کہ جس کے خوف سے بھڑکتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے نگاہ امیر کی ایک اژدہے پر پڑی کہ اس درخت پر چڑھا چلا جاتا ہے کہ جس کے منہ کی پھونک سے سبزۂ بیابان جلا جاتا ہے۔ امیر نے تیروں سے اس اژدہے کو مارا اور ٹکڑے کر کے بر چھی کی نوک سے سیمرغ کے بچوں کو کھلایا۔ ان کو اس اژدہے سے بچایا۔ ان بچوں کا جو پیٹ بھرا،آشیانے میں گھس کر سو رہے۔‘‘
ہماری زیا دہ تر داستانیں، سب رس، طلسم ہوش رُبا، باغ و بہار، فسانۂ عجائب، دا ستان امیر حمزہ، بوستان خیال، نوطرزِ مرصع، قصہ مہر افروز دلبر، عجائب القصص وغیرہ میں مافوق فطرت عناصر کی بہتات ہے۔ان میں دلچسپی کا سامان بھی ہے،تجسس و تحیر کے نشیب و فراز بھی ہیں ،عجیب و غریب اور ذہین مرکزی کردار بھی۔یہ سب بچوں کی دلچسپی کا سبب ہے۔ بچے ان داستانوں کو شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن ان داستانوں کی زبان بچوں کی ذہنی سطح سے با لکل میل نہیں کھاتی اور یہ بات بچوں کے تعلق سے خاصی منفی ہے۔ ان داستانوں میں بڑی ثقیل اور فارسی آ میز زبان کا استعمال ہے۔ باغ وبہار کی زبان دیگر داستانوں سے ذرا آسان اور عام فہم ہے یہی سبب ہے کہ بچے چہار درویش کے قصے دلچسپی اور تجسس سے سنتے ہیں۔ زبان کے تعلق سے دو اقتباسات ملاحظہ کریں۔پہلا بو ستان خیال سے ایک اقتباس:
’’راویان سخن آفریں و مور خان گفتار شیریں نے اس طرح بیان کیا کہ تین سو برس بعد حضرت خیر البشر کی ہجرت باسعادت سے المنصور بقوت اللہ بن احمد بن محمد سلطان اسمعیل ملک مغرب کا بادشاہ ہوا اور اس خاص شہر افریقہ اپنا دار الخلافہ مقرر کیا۔ منور خاں صادق البیان نے یہ حال لکھا ہے سلطان اسماعیل ایسا با دشاہ عادل و با انصاف تھا کہ رعا یا و سپاہ اس کی عدل و داد سے محظوظ اور شکر گذار تھی۔‘‘
   (بوستانِ خیال،بحوالہ داستان سے ناول تک، ابن کنول، ص 150 ،مطبو عہ موڈرن پبلشنگ ہائوس، دہلی2001ء)
ایک اقتباس باغ و بہار سے ملا حظہ کریں  :
’’ غرض جب شہر کے دروا زے پر گیا، بہت رات جا چکی تھی۔دربان اور نگاہ بانوں نے دروازہ بند کیا تھا۔ میں نے بہت منت کی کہ مسافر ہوں، دور سے دھا وا مارے آ تا ہوں اگر کواڑ کھول دو، شہر میں جا کر دا نے گھاس کا آرام پائوں۔ اندر سے گھڑک کر بو لے، اس وقت دروا زہ کھولنے کا حکم نہیں۔کیوں اتنی رات گئے تم آ ئے؟جب میں نے جواب صاف ان سے سنا، شہر پناہ کی دیوار کے تلے گھوڑے پر سے اتر،زین پوش بچھا کر بیٹھا،جاگنے کی خا طر ادھر اُدھر ٹہلنے لگا جس وقت آدھی رات ادھر اور آدھی رات اُ دھر ہوئی، سنسان ہو گیا،دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار پر سے نیچے چلا آتاہے۔۔۔۔۔‘‘
(سیر پہلے درویش کی، باغ و بہار، میںامین،ص36)
مذکورہ بالا دو نوں اقتباسات میں زبان کا خاصا فرق ہے۔جب زبان آسان ہو تی ہے تو پھر داستان کے واقعات،قصے،حیرت، تجسس جیسے عنا صر سامع کو باندھ پاتے ہیں۔ باغ و بہار میں بچوں کی دلچسپی اسی باعث ہے کہ وہاں زبان کی ترسیل کوئی مسئلہ نہیں ہے اور جب زبان واقعے کا اتار چڑھا ئو اور حیر ت و استعجاب کو آسانی سے سامعین تک پہنچا دیتی ہے تو دلچسپی میں شدت کاآنا یقینی ہے۔
حکایات کا معاملہ ذرا الگ ہے۔ اس کا باعث ان کا اختصار اور دلچسپ ہو نا ہے۔ حکایات کے پس پردہ، سچائی، اخلاق و کردار، ایثار، انسان دوستی ، وغیرہ کا درس ہو تا ہے۔ یہ واقعات ہمیں زندگی گذارنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔ حکایات شیخ سعدی اور حکایات مولانا روم اس سلسلے میں خاصی مشہور ہیں۔ حضرت شیخ سعدی کی دو فارسی کتب گلستاں اور بوستاں کی حکایتیں ہوں یا بزرگوں کے قصے۔ان سب میں اخلا قی درس کو اولیت حاصل ہے۔ چھوٹے چھوٹے دلچسپ واقعات سے بچوں کو بعض بڑی بڑی باتوں کی تعلیم بہ آسانی دے دی جاتی ہے، یہ کہنا بھی درست نہیں کہ گلستاں اور بوستاں کی حکا یتیں بچوں کے لیے تحریر ہوئی ہیں۔ لیکن ان میں نیکی اور خیر کی جس طرح عام فہم لفظوں میں مثالوں کے ساتھ تعلیم دی گئی ہے، وہ بچوں کے لیے بہت پر اثر ہے۔تین حکایتیں ملا حظہ فر مائیں:
’جو ملے اس پر صبرو شکر کرو‘
’’میں نے کبھی زمانہ کے نا موافق حالات کی شکا یت نہیں کی۔ نہ کبھی تکلیفوں پر اظہارِ ناگواری کیا جس حال میں رہا خوش رہا اور خدا کا شکر ادا کرتا رہا کہ کہیں اس سے بھی زیا دہ پریشا نی میں نہ مبتلا ہو جائوں۔ خدا نے جس حال میں رکھا،اس پر صبر و شکر کیا۔ لیکن جس وقت میرے پائوں ننگے تھے،جو تا بھی میسر نہ تھا۔میں بہت پریشان اور ننگے پائوں دمشق کی جامع مسجد پہنچا۔وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پیر ہی نہیں تھے۔اس کو دیکھ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ننگے پیروں پر صبر کیا!
جس شخص کا پیٹ بھرا ہوا ہو تا ہے اس کو بھنا ہوا مرغ بھی ساگ پات کے برا بر معلوم ہو تا ہے اور جس شخص کو اچھا کھانا میسر نہیں ہے اس کے لیے اُبلا شلجم بھی بھنے ہو ئے مرغ کے برا بر ہے۔‘‘
(گلستاں کی کہانیاں)
’کتا اور فقیر‘
’’فقیر کا ایک گروہ کسی جنگل سے گذر رہا تھا،ان میں سے ایک بو ڑھے فقیر کو ایک کتے نے اتنے غصے سے کاٹا کہ اس کے دانت سے خون ٹپکنے لگا۔اس تکلیف سے وہ رات بھرسو نہ سکا۔ فقیروں کے گروہ میں ایک چھوٹی لڑ کی بھی تھی جب اس نے بوڑھے فقیر کا یہ حال دیکھا تو غصہ ہو کر بو لی:
’’ بابا آخر تم نے اس کتے کو کیوں نہیں کاٹا۔کیا تمہارے دانت نہیں تھے۔‘‘
’’ دانت تو تھے بیٹی!‘‘بوڑھا فقیر اس کی بات پر ہنس کر بولا:
’’ لیکن میں نے اپنے دانت اور حلق کو محفوظ رکھا،کیو نکہ آدمی کبھی کتا نہیں بن سکتا۔‘‘
(بوستاں کی کہانیاں)
غرور کا سر نیچا
’’دو اصیل مرغ اپنے رہنے کی جگہ کے لیے لڑ رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو بھگا دیا۔ ہارا ہوا مرغ ایک کونے میں اپنا سر چھپا کر دبک گیا۔ جیتنے وا لا مرغ ایک دیوار پر جا بیٹھا۔ اس نے اپنے پروں کو پھڑ پھڑا یا،پھر فتح مندی کے جذبے میں زور سے بانگ دی۔ایک عُقاب ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ اس پر جھپٹا اور اپنے پنجے میں پکڑ کر لے گیا۔ہارا ہوا مرغ کونے سے نکلا اور جھگڑے کی جگہ پر قبضہ کرلیا۔ سچ ہے غرور کا سر نیچا۔‘‘
مذکورہ با لا تینوں حکا یتیں، در اصل چھوٹے چھوٹے واقعات کا بیان ہے۔ ان میں کسی نہ کسی وا قعے سے برائی کا برا انجام اور نیکی کا بدلہ نیکی کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کچھ بھی ملے، اسے قبول کرتے ہوئے ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چا ہئے۔ اپنے پاس جو کچھ نہیں ہے اس کے لیے افسوس نہ کرو، بلکہ دوسروں سے زیا دہ جو کچھ ہے اس پر صبر اور شکر ادا کرنا چاہئے۔ اسی طرح دوسروں کے ظلم وستم کا جواب ظلم و ستم کبھی نہیں ہوتا۔ وہ اس کا عمل یہ آپ کا عمل ہے۔ اسی طرح غرور کر نے وا لا ہمیشہ ذلیل ہوتا ہے کیوںکہ غرور تو بس خدا کو زیب دیتا ہے ،کسی اور کو غرور نہیں کرنا چاہئے۔
قصے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ در اصل قصے میں واقعات کا ایسا بیان ہو تا ہے جو سننے وا لے کو باندھ دیتا ہے۔ قصوں میں بھی تحیر و تجسس کا عنصر اہم ہو تا ہے۔ یہاں قصے لطف و انبساط کے لیے بھی ہو تے ہیں اور قصے ہمیں سبق بھی دیتے ہیں۔ قصوں میں کوئی نہ کوئی سبق ہو تا ہے۔ اس لحاظ سے قصوں میں بچوں کی دلچسپی بھی ہمیشہ بنی رہتی ہے۔
قصے داستان کی ہی طرح ہوتے ہیں۔ یہاں داستان کی طرح طوا لت نہیں ہو تی۔ با قی بہت سے اوصاف داستان جیسے ہی ہو تے ہیں۔ قر آ ن میں بھی بہت سارے قصے موجود ہیں۔ ان قصوں میں سب سے زیا دہ دلچسپ، حیرت انگیز،تحیر و تجسس سے پُر قصہ یو سف علیہ السلام کا ہے، پل پل نشیب و فراز سے گذرنے وا لا یہ قصہ بچے، بڑے سب کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ اسی طرح سورہ کہف میں اہلِ کہف کا بیان بھی دلچسپ قصہ ہے،یہی نہیں مو سیٰ علیہ السلام کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں۔یہاں جادو گر بھی ہیں، جادو گری کا مقا بلہ بھی۔ ایسا ہی قصہ ابرا ہیم علیہ السلام کا بھی ہے،سورہ کہف میں قصہ یوں شروع ہوتا ہے:
                                         نحن نقص علیک نباھم بالحق۔
’’ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں۔ وہ چند نو جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے‘‘
( سورہ کہف، آیت نمبر ۱۳)
انبیاء کرام کے قصوں کو بچے بھی شوق سے پڑھ اور سن سکتے ہیں۔ انبیاء کرام کے قصوں کو’’ قصص الانبیاء‘‘ (مولوی غلام نبی ابن عنایت اللہ) میں1376ھ میں تحریر کیا گیا۔ ان واقعات میں بھی بچوں کی دلچسپی کے عناصر موجود ہیں۔
   موجودہ عہد میں ادب ِ اطفال کا تقا ضا
ہمارا داستانوی سر ما یہ اور موجودہ عہد میں ادب ِ اطفال کا تقا ضا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ آئیے پہلے اپنے سرمائے پر ایک نظر ڈا لیں۔جہاں تک داستانوں کا سوال ہے ہمارا داستانوی سر مایہ خاصا ضخیم ہے۔ متعدد شاندار داستانیں تحریری شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ ان داستانوں میں دلچسپی کے تمام عوا مل بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ مافوق فطرت عناصر مثلاً دیو، پری، جن، راکھشس،پرستان، کوہِ قاف، اچا نک غا ئب ہو جانا، کسی اور شکل میں دو بارہ نمو دار ہونا، بہت اچھے دلچسپ، طاقتور، ذہین ،تیز طرار کردار مثلاً امیر حمزہ، عمر و عیار، بہرام ،معزالدین، افرا سیاب، اسد غازی، مہر افروز، دلبر،عقل، دل،حسن کی موجود گی، واقعہ در واقعہ تحیر و تجسس کا بیان__غرض ہماری داستانوں میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی بچوں کو ضرورت ہے۔ بچوں کی دلچسپی مزاحیہ قصہ کہانیوں میں بھی ہو تی ہے۔ ہماری داستانوں میں عمر وعیار، خوجی، وغیرہ موجود ہیں۔بعد کی کہانیوں اور ناولوں میں چچا چھکن بھی اپنا دم خم ثا بت کررہے ہیں۔ سراج انور،اظہار اثر، غلام حیدر، وکیل نجیب، سلطان سبحانی، آ باد شاہ پوری، ابن فرید، اطہر پرویز وغیرہ کے بچوں کے لیے تحریر کردہ ناول اور کہانیاں آج عام طور پر مل جاتی ہیں۔قومی کونسل، اردو اکادمی ،دہلی، اردو اکادمی ، اتر پردیش ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ اور مرکزی اسلامی مکتبہ الحسنات جیسے ادارے بچوں کی دنیا،امنگ،گل بوٹے، بچوں کا ساتھی، پیام تعلیم، ساتھی وغیرہ رسائل__اردو میں بچوں کا ادب فروغ دینے کے لیے ہمہ تن مصروف ہیں۔ہمارے بچے کہا نیوں سے استفادہ کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے اسباب پر غور و فکر لا زمی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب تو اردو سے نا واقفیت ہی ہے۔ لیکن اردو پڑھنے وا لے بچے بھی اگر اس ادبِ اطفال کی طرف را غب نہیں ہو رہے ہیں تو پھر ہمیں غورو فکر کرنی ہی چاہیے۔ آج کمپیوٹر، انٹر نیٹ، فلم وغیرہ کا دور ہے۔ بچے ہوش سنبھالتے ہی اپنے ذہن میں اپنے ہیرو کی ایک شبیہ بنا لیتے ہیں۔ وہ گوست پوست کے لحیم شحیم طا قت ور شخص کی طرف لپکتے ہیں جو حیرت انگیز کار نامے انجام دیتا ہے۔ جو اپنی طاقت، دماغ اور حاضر جوا بی سے دشمنوں کو چت کردیتا ہے۔ بچے ایسے کرداروں کو پسند کرتے ہیں۔ کیا ہم انہیں ایسے کردار دے پائے، ہیری پوٹر، اسپائڈر مین، ڈوری مون، پوکی مان،ششی مان، ننجا ہتھو ڑی، ٹام اینڈ جیری، بین ٹین، ہیر مائنی، ویسلیِ ڈمبل ڈور، چاچا چو دھری، چھو ٹا بھیم، چھو ٹا چیتن، سابو، ناگ راج، راخت جیسے کردار آج نئی نسل کے بچوں کی پسند بنے ہو ئے ہیں۔ یہی نہیں ریسلنگ کی دنیا کے، کھلی،جان سینا، بروک لیسنر، انڈر ٹیکر، سیتھ رولنس، ٹریپل ایچ جیسے لحیم شحیم ،طاقت ور پھرتیلے، دشمن کو زیر کرنے وا لے ہیرو آج بچوں کی پسند بنے ہوئے ہیں۔ اب بچے بھوت پریت سے ڈرتے نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ بھوت ناتھ کا چھو ٹا بچہ ایک آدھ بار ڈرتا بھی ہے لیکن بھوت ناتھ ریٹن کے بچے بھوت سے بالکل نہیں ڈرتے۔ ہیری پوٹر، اسپائڈر مین، کرش کا ریتک روشن، دھوم تھری کا عامر خان، راون کا شاہ رخ خان، رو بوٹ کا رجنی کانت اپنے حیرت انگیز کارناموں سے بچوں کا دل جیتنے کے ساتھ ساتھBusniess trendبھی سیٹ کررہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہیری پوٹر، چھوٹا چیتن یا اسپائڈر مین صرف سلور اسکرین پر ہی دھوم مچاتے ہیں بلکہ یہ کتابی شکل میں بھی خوب پڑھے جاتے ہیں۔ یہی حال ہندی، انگریزی کی کامکس کا بھی ہے۔ اب ایسے میں ہمیں غور کرنا ہو گا کہ اردو میں بچوں کی داستانیں، بچوں کے ناول، قصے، کہا نیاں کہاں ٹھہرتی ہیں۔میرا جواب منفی قطعی نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس مواد کی کمی ہے، ہمارے پاس لکھنے وا لوں کی کمی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن اس طرز پر سوچنے اور چیزیں تیار کر نے وا لے افراد نہیں ہیں۔ عمرو عیار، امیر حمزہ خوجی جیسے کرداروں کو از سر نو بچوں کے مطابق پیش کرنے کی ضرورت۔ داستانوں کو سہل زبان میں منتقل کرنا وقت کا تقا ضا ہے۔ پرنٹ کے ساتھ ساتھ الیکٹرا نک میڈیا پر بھی بچوں کے لیے سبق آ موز، دلچسپ اور حیرت انگیز فلمیں بنانے کی ضرورت ہے۔ داستا نوں، حکایتوں، قصے کہانیوں کو نئے سرے سے بچوں کی عمر، نفسیات اور دلچسپی کے ساتھ پیش کر کے،ہم بچوں کو اس طرف مائل کر سکتے ہیں۔
٭٭٭
Bachchon Ki Daastanen,Hikayaten aur Qisse
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular