Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبنیادی اور ثانوی اسکولی تعلیم کے معیار میں پستی؟

بنیادی اور ثانوی اسکولی تعلیم کے معیار میں پستی؟

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر مشتاق احمد

جمہوری نظامِ حکومت میں اعداد وشمار کی غیر معمولی اہمیت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنے تمام محکمہ جات کی سالانہ رپورٹ شائع کرتی ہے اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ حکومت ترقیاتی نشانے کو پورا کرنے میں کس قدر مستعد ہے ۔غرض کہ حکومت کا سارا کاروبار اعداد وشمار پر ہی منحصر ہوتاہے ۔لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ اعداد وشمار حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ ہر محکمہ یہ کوشش کرتا ہے کہ حکومت کی نگاہ میں اپنے محکمہ کو اولیت حاصل کرانے کا ہر وہ حربہ اختیار کیا جائے جس کی بدولت اس محکمہ کے افسران اپنے اعلیٰ حکام کی نگاہ میں فعّال ومتحرک ثابت ہوں ۔نتیجہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مقابلے زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی خود مختار رضا کار تنظیم سرکاری محکموں کا احتسابی جائزہ پیش کرتی ہے تو سرکاری دعویٰ ہوائی قلعہ ثابت ہو کر رہ جاتاہے ۔ حال ہی میں ’پرتھم‘نام کی رضا کار تنظیم نے اپناسالانہ تعلیمی جائزہ پیش کیا ہے ۔ واضح ہو کہ یہ تنظیم ملک میں بنیادی اور ثانوی اسکولی تعلیم پر کام کرتی ہے اور ہر سال ایک رپورٹ یعنی Annual Status of Education Reportجاری کرتی ہے جسے عام طورپر’’ اثر ‘‘کہا جاتاہے ۔ اس سال بھی یہ رپورٹ گذشتہ 14جنوری کو جاری کی گئی ہے اور قومی سطح پر بنیادی اور ثانوی اسکولوں کی تعلیم میں جو پستی آرہی ہے اس پر فکر مندی ظاہر کی گئی ہے ۔ واضح ہو کہ ’پرتھم‘ ہر سال حکومت کو یہ رپورٹ دیتی ہے کہ بنیادی اور ثانوی تعلیم میں کس طرح پستی واقع ہورہی ہے ۔ لیکن حکومت اپنی روش سے ہٹ کر کام کرنے کو تیار نہیں ہے ۔خواہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو وہ تو بیروکریٹس کے ذریعہ ہی چلتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ تعلیم جیسے فلاحی وبہبودی محکمے میں بھی سیاسی مفاد کو مد نظر رکھ کر کام کیا جاتاہے جب کہ انسانی وسائل کی ترقیاتی رفتار کے معاملے میں حکومت کو سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر کام کرنا چاہئے۔اس سال کی رپورٹ ’اثر‘2018میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ درجہ پانچ کے بچے تیسری چوتھی جماعت کی کتابوں کو نہیں پڑھ پاتے تو درجہ تین کے بچے درجہ دو کی کتابوں کو پڑھنے میں ناکام ہیں اور ایسے طلبا کا فیصد قومی سطح پر 76.5ہے ۔ اسی طرح درجہ آٹھ کے 28.8فی صد بچے درجہ دو کی کتاب پڑھنے میں ناکام ہیں۔ جہاں تک بہار کا سوال ہے تو 71.2فی صد آٹھویں درجہ کے بچے دوسرے درجہ کی کتابوں کو ٹھیک سے نہیں پڑھ پا رہے ہیں ۔جہاں تک اسکول میں بچوں کے اندراج کا سوال ہے تو اس معاملے میں بھی حکومت جس طرح کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے حقیقت ویسی نہیں ہے ۔ کیوں کہ بہار میں سال 2010میں اسکول میں داخلے کی شرح 56.1فی صد تھی جب کہ 2018میں 56.5فی صد ہے ۔اب سوال اٹھتا ہے کہ آٹھ سالوں میں اسکولوں میں داخلے کا اندراج جس سست روی کا شکار ہے اس کے لئے ذمہ دار کون ہے ؟سرکاری اسکولوں کے مقابلے پرائیوٹ اسکولوں میں داخلے کی شرح تیز ہوئی ہے مثلاً 2010میں 5.2فی صد بچوں کا داخلہ ہوتا تھا جب کہ 2018کی رپورٹ میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں میں اندراج کی شرح 16.9ہے ، آخر کیوں؟دراصل قومی سطح پر بھی اور خصوصی طورپر بہار میں اسکولی تعلیم کا ڈھانچہ متزلزل ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نتیش کمار کی حکومت نے پرائمری اور مڈل اسکولوں کے ساتھ ہائی اسکول کی عمارتوں کی تعمیر میں دلچسپی دکھائی ہے اور گذشتہ حکومت کے مقابلے اس حکومت میں اسکولوں کی صورت بدلی ہے لیکن ٹھوس سچائی یہ ہے کہ تعلیمی ماحول بالکل ہی ناقص ہو کر رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہا’’اثر‘‘ کی رپورٹ میں جو ڈاٹا سامنے آیا ہے وہ باعثِ فکر مندی ہے ۔ اگرچہ ایک خوش آئند بات یہ ضرور ہے کہ قومی مقابلے میں ریاستِ بہار کے بچوں کی دلچسپی حساب میں قدر ے زیادہ ہے اور لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے شرح اندراج میں اضافہ بھی ہواہے ۔ اس رپورٹ میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں 11سے 14سال کی عمر کے بچوں کے داخلہ کی شرح میںلڑکیوں کا فی صد 84.3ہے جب کہ لڑکوں کا 76.3ہے۔بلا شبہ اس حکومت نے لڑکیوں کے لئے اسکولی سطح پر پوشاک اور سائیکل اسکیم کے نفاذ کی وجہ سے لڑکیوں کے اندراج میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ کیو ں کہ اگر دس سال قبل کے شرح داخلہ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ دس سالوں میں 30فی صد کا اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن داخلے کی شرح میں اضافہ اور معیارِ تعلیم میں پستی نے تعلیم کے بنیادی مقاصد کو فوت کردیا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ آج میٹرک پاس کرنے کے بعد بھی طلبا وطالبات اپنے ما فی الضمیر کو تحریری صورت میں پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اعلیٰ تعلیم پر بھی اس کے مضراثرات مرتب ہوں گے ۔ کیوں کہ حالیہ دنوںمیں اعلیٰ تعلیم کے معیار میں بھی جس قدر پستی آئی ہے اس کے لئے کہیں نہ کہیں ہماری بنیادی اور ثانوی تعلیم بھی ذمہ دار ہے ۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ بنیادی اور ثانوی تعلیم کے معیار کی بلندی کے لئے انقلابی قدم کون اٹھائے؟کیا یہ کام صرف حکومت کا ہے ؟میرے خیال میں تعلیم جیسے شعبے میں جب تک عوامی بیداری نہیں آئے گی اس وقت تک کامیابی نہیں مل سکتی ۔ کیوں کہ حکومت اور سرکاری محکمے کے افسران فنڈ فراہم کر سکتے ہیں ، اساتذہ کی بحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں لیکن تعلیمی ماحول کی سازگاری تو اساتذہ کے ذمہ ہی ہے ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ حالیہ دہائی میں اساتذہ کی بحالی کا جو پیمانہ طے ہوا وہ بھی غیر فطری تھا۔ اکثر جگہوں پر نمبر کی بنیاد پر بحالی ہوئی ۔ اگرچہ اب حکومت کو اس کا احساس ہو گیا ہے کہ نمبر کی بنیاد پر اساتذہ کی بحالی کا عمل غلط تھا اس لئے اب ٹیٹ اور سی ٹیٹ یعنی اساتذہ اہلیت امتحان میں پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ لیکن جن کی بحالی ہو چکی ہے اسے تو اب ہٹایا نہیں جا سکتا اور ان کے سلسلے میں جس طرح کی خبریں ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں اور حقیقتاً بھی کچھ ایسا ہی ہے وہ بہت ہی تشویشناک ہے ۔ کیوں کہ یہ مَثل مشہور ہے کہ ایک استاد اگر نااہل ہے تو وہ اپنے مدتِ فرائض میں اپنے جیسے ہزاروں نااہل پیدا کردیں گے اور ایک باصلاحیت استاد ہے تو وہ لاکھوں آفتاب ومہتاب پیدا کریں گے۔ حکومت تو اپنے نشانے کے مطابق کام کرتی ہے لیکن عوام الناس کو تعلیم جیسے حسّاس شعبے کے تئیں بیدا ر ہونا ہوگاکیوں کہ تعلیمی معیار کی بلندی پر ہی انسانی وسائل کی ترقی کا انحصار ہے ۔جہاں تک بنیاد ی اور ثانوی اسکولوں میں اساتذہ کی شرح کا سوال ہے تو بہار میں آج بھی 35فی صد اسامیاں خالی ہیں۔چوں کہ اب انتخابی موسم کا آغاز ہو رہاہے تو ممکن ہے کہ ان اسامیوں کو بھرا جا سکے ۔ مختصر یہ کہ حکومت کو تعلیمی شعبے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور معیارِ تعلیم کے سلسلے میں سنجیدگی سے ٹھوس اقدام اٹھانے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ معیارِ تعلیم کی پستی تمام تر ترقیاتی رفتار کو متاثر کرتی ہے ۔٭٭٭
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular