Tuesday, April 30, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ڈاکٹر عمار رضوی جیسے ایک آدھ لیڈروں کو اگر چھوڑ دیا جائے جو اپنی پارٹی کے تقریباً 30 سال سے اقتدار سے باہر ہونے کے باوجود کئی بار دوسری برسراقتدار پارٹی کے حصہ دار ہونے کے مواقع کو ٹھکراکر ابھی تک اُس پارٹی میں بنے ہوئے ہیں جس کا مستقبل ابھی بھی مکمل تاریکی میں ہے۔ زندگی میں لیڈروں کی تبدیلیٔ قلب ایک عام بات ہوگئی ہے۔ اقتدار سے دور نہ رہنے والے تمام لیڈر اقتدار تبدیلی کے ساتھ ہی اپنی جگری تبدیلی کرکے برسر اقتدار پارٹی کے ساتھ آجاتے ہیں اور ایسے ہی نہیں آجاتے ہیں جب وہ آتے ہیں تو ان کے بزرگ جو کل تک مسلمان تھے وہ ہندو ہوجاتے ہیں، وہ مندر میں گھنٹہ بھی بجانے لگتے ہیں اور آرتی اتارنے میںبھی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔ یہی نہیں اقتدار کی قربت حاصل کرنے کی چاہ یہاں تک لے آتی ہے کہ انہیں مسجد کی جگہ مندر بنوانا زیادہ فائدے مند لگتا ہے، انہیں مدرسے دہشت گرد بنانے کے ادارے لگنے لگتے ہیں، حسینی ٹائیگر اقتدار تبدیلی کے ساتھ گئورکشک بن جاتے ہیں، سڑکوں پر مظاہرے سے جانے والے تمام رہبر 8 محرم کے جلوس کے راستے کو بھی خاموشی سے بدل لیتے ہیں، رمضان کے آخری جمعہ کو ہونے والے احتجاج کو خاموشی سے مسجد کے اندر ہی کرلیتے ہیں، اب نہ وقف بورڈ کے چیئرمین کو ہٹانے کے لئے کوئی مظاہرہ نہ اب دہلی میں شاہِ مرداں کی کوئی فکر۔ایسے میں اچانک سلمان خورشید کا بیان کہ میرے دامن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں کتنی اہمیت رکھتا ہے یہ آپ سب جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے اسے سمجھنے میں اتنی دیر لگادی کہ مسلمان اب کہیں کا نہیں رہا، جب تک وہ اقتدار نشین رہے تب تک یہ نہ سمجھ سکے، اترپردیش کانگریس کمیٹی کے سپریمو رہے تب بھی نہ سمجھ سکے، سمجھ میں آیا تب جب خود یا ان کی پارٹی چاہ کر بھی مسلمانوں کے لئے کچھ کرنہیں سکتی۔
زندہ رہتے ہوئے تبدیلیٔ قلب تو اب عام بات ہوگئی ہے لیکن کمال ہے بی جے پی کا! جو مرنے کے بعد بھی تبدیلیٔ قلب کروارہی ہے اس کا سب سے تازہ نمونہ ہیم وتی نندن بہوگنا ہیں جن کا تبدیلیٔ قلب اپنی 100 ویں برسی پر ہوا۔ پہلی بار ان پر اشتہار بھی جاری ہوا، ان پر ڈاک ٹکٹ بھی جاری ہوا، وہ اپنے 100 سال پر پھر سے ایسے زندہ ہوئے جیسے وہ اپنی زندگی میں کبھی زندہ ہوں گے۔ کانگریس اپنے موجودہ لیڈروں کو ہی نہیں کانگریس تو اب اپنے مرحوم لیڈروں کو بھی بی جے پی میں جانے سے نہیں روک پارہی ہے۔ سب سے پہلے بی جے پی نے سردار پٹیل پر قبضہ کیا پھر لال بہادر شاستری پر اور کانگریس کہتی رہی کہ وہ تو ہمارے تھے پھر ڈاکٹر بھیم امبیڈکر کو بھی لے لیا اب پہاڑی ووٹ کو حاصل کرنے کے لئے ہیم وتی بہوگنا کو بھی اپنی پارٹی میں شامل کرلیا اور کانگریس خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔ ایسا نہ ہو کسی دن جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی پر بھی ڈاک ٹکٹ جاری کرتی یہی پارٹی نظر آئے اور رائے بریلی اور امیٹھی کی سیٹ بھی بچانا مشکل ہوجائے۔ وجہ صاف ہے کانگریس سپریمو کے قریب رہنے کے لئے بس ’’یس مین‘‘ کی ضرورت ہے جس نے اپنی مقبولیت بنائی وہ پارٹی میں نظر انداز کیا جانے لگا۔ پروفیسر ریتا بہوگنا جتنے دن ریاست کی صدر رہیں انہوں نے کانگریس کو ہمیشہ سرخیوں میں رکھا، وہ اکیلی تھیں جو ہمیشہ عوام سے رابطے میں رہیں ان کے سکھ دکھ میں شامل رہیں، شاید یہی بات اعلیٰ کمان کو ہضم نہیں ہوئی اور انہیں سائڈ لائن کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا وہ بھی پارٹی سے گئیں اور اب ان کے مرحوم والد بھی چلے گئے۔
اقتدار کی قربت حاصل کرنے والوںکی ایک لمبی جماعت ہے ہر چھوٹا بڑا اپنے ضمیر کو گروی رکھ کر کسی بھی قیمت پر اقتدار کے قریب پہونچنے کی ہوڑ میں ایک دوسرے کو مات دینے میں مصروف ہے۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا تھا کہ
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

9415018288

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular