Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاے ایم یو کا اینٹی نیشنل یا ری پبلک ٹی وی کی...

اے ایم یو کا اینٹی نیشنل یا ری پبلک ٹی وی کی شرارت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالر
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان دنوں پھر سرخیوں میں ہے۔مٹھی بھرشر پسند عناصر کے ذریعہ یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جب سے مرکز اور صوبے میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے تب سے تعلیم گاہوں کو بھی سیاست کے لیے استعمال کرنے کا کام زور وشور سے چل رہا ہے۔آج سے تین سال قبل ایسے ہی الیکشن کے قریب جے این یومیں بھی نفرت پھیلانے کا کام انجام دیا گیا تھا۔ان لڑکوں پربھی ملک مخالف نعرہ لگا نے کے بے بنیاد الزام میںاینٹی نیشنل کا مقدمہ درج کرایا گیا تھاجو ابھی تک زیر سماعت ہے۔اسی پرقصہ غم تمام نہیں۔دہلی یو نیورسٹی میںطلبہ کو پریشان کیا گیا۔بنارس ہندو یونیورسٹی میں بھی لڑکیوں کو مارا پیٹا گیا اور احتجاج کرنے پردیش دروہ کا کارڈکھیلا گیا۔اب جب سے یو پی میں یوگی کی سرکار آئی ہے تب سے کچھ لوگ اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لیے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کو لے کر آئے دن نئے نئے سیاسی شگوفے چھوڑرہے ہیں۔تاکہ 2019کے لوک سبھا الیکشن کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔مگر ان سب بے بنیاد اور نفرت انگیزباتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔کیوں کہ پورے دیش کویہ معلوم ہو چکا ہے کہ موجودہ حکومت ہر طرح سے ہر محاز پر نا کام ہو چکی ہے۔چوکیدار چور ہے کے نعرے ہر جگہ لگائے جارہے ہیں۔حقیقت بھی یہی ہے کہ اس حکومت نے سوائے جملہ پھینکنے کے اور کوئی کام نہیں کیا ہے ۔مگر بے چارے کریں تو کیا کریں؟اپنی پرانی عادت سے مجبور ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے بابری مسجد اور رام مندر کا ایشو اٹھایا گیا کہ ہندتوا کے ایجنڈے کے تحت ہندو مسلم کی سیاست کرکے کچھ مدد حاصل کی جائے۔مگر عوام نے نظرغائر بھی نہیں ڈالا،جس کے نتیجے میں پوری سبھا بری طرح فیل ہو گئی اور منہ کی کھانی پڑی۔اپوزیشن بھی اپنا رول عمدہ طریقے سے نبھا رہی ہے۔اس پر مستزادیہ کہ پانچ ریاستوں میں ہار کا جانکاہ صدمہ،جو ایسی اندرونی چوٹ ہے،جس کو دیکھا یا بھی نہیں جا سکتا  اور اس کا زخم بھر بھی نہیں رہا ہے۔اتر پردیش کی سیاست دیکھیں تو یہاں بھی ان کے کامیابی کی راہیں مسدود ہو تی جارہی ہیں۔ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد کے بعد سے ان کو کچھ سوجھ نہیں رہا ہے کہ کیا کریںاورکس کو 2019کے لیے سیاست کا اکھاڑا بنائیں۔ ایسے حالات میں جب کہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے تو کبھی ان کو جناح کا جن مل جاتا ہے، کبھی ترنگا یاترا کے نام پر کچھ منچلوں کا ساتھ اور بدنام زمانہ صحافی ارنب گوسوامی کے ٹی وی چینل ریپبلک کے نفرت انگیزبیانات، جس پرمودی میڈیااپنا مسکا لگا کرعوام کے سامنے نفرت کاسامان تیار کر کے ٹی آر پی حاصل کر نے کا کام کرتا ہے۔۔طلبہ کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد ہر منصف مزاج آدمی بے باکی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ متذکرہ چینل وہاں رپورٹنگ کر نے نہیں آیا تھا بلکہ میڈیا کی آزادی کے نام پر چند لوگوں کی شہ پرچمنستان سر سید کے تئیںلوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے آیا تھا اوریونیورسٹی کے فلیٹ فارم سے سیا سی میدان کو ہموار کرکے ٹی آر پی کمانے آیا تھا۔کیوں کہ کسی بھی یو نیورسٹی میں جاکر بغیر اجازت کے براہ راست خبرچلانا یہ تو گنڈہ گردی اور میڈیا کے اصولوں کے خلاف ہے۔اگر طلبہ یونین نے اسد الدین اویسی سمیت کچھ اورلیڈروں کو یونیورسٹی میں مدعو کیا تھاتو اس میں غلط کیا تھا۔کیا یہ اتنا بڑا ایشو تھا کہ اس کو دہلی سے آکر براہ راست دیکھا یا جائے۔اس محترمہ رپورٹر کی ڈھٹائی اوراے ایم ایو کے متعلق ان کی نفرت تو دیکھئے کہ انہوں نے ان نفرت انگیز الفاظ سے خبر شروع کی ۔’’ابھی ہم اس وقت آتنک وادیوںکے اڈہ علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی میں کھڑے ہیں‘‘۔کیا یہ جملہ ہندوستانی صحافت کے لیے خطرناک نہیںہے؟اس پر جب اے ایم ایو انتظامیہ نے رو کنے کی کوشش کی تو محترمہ رپورٹرنے دھمکی دی کہ ہم تمہارے اوپر ہراسمنٹ کا کیس کرا دیں گے۔بہر حال ہمارے ملک میں سب سے چھوٹا کیس ہے اینٹی نیشنل۔ یہ ہر اس انسان کے لیے ہے جو موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو لوگوں کے سامنے اجاگر کرے گا۔چاہے اس کا تعلق جے این یو سے ہو یا پھر علی گڑھ مسلم یویورسٹی یا کہیں اور سے۔
میڈیا یقینا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔اس کو آزادی ہے کہ وہ ملک اور عوام کے ایشوز کو کہیں جاکر اٹھائے مگریہ آزادی جب جمہوری اقدار کے دائرے میں ہے تو ٹھیک ہے۔مگر حد اس وقت ہوجاتی ہے جب یہ تمام ٖصحافتی قدروں اور اخلاقی بندشوں کو توڑ کر یک طرفہ خبر چلاتے ہیں۔یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا عوام کا نہیں بلکہ حکومت کا نمائندہ ہو تی ہے۔انہیں کے راگ الاپنے میں اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے واقعہ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو وہاں کے ماحول کوخراب کرنے میں ایک
 اہم رول متذکرہ ٹی وی چینل کا ہے۔سوال یہ ہے کہ کب تک نیوز چینلوں کی شرارت سے کی وجہ سے ملک میں ماحول کو خراب کیا جائے گا؟ کیا یہی ہے چوتھے ستون کا مقصد؟
لوک سبھا الیکشن کے تناظر میں دیکھیں تو اس کے تار کہیں نہ کہیں جے این یو سے مل رہے ہیں۔اے ایم یو کو بھی جے این یو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک بات اور سامنے آرہی ہے کہ ابھی دو دن قبل یونیورسٹی کے اقلیتی کردارکے معاملے کی سماعت ہوئی،جس کو سپریم کورٹ نے سات رکنی بنچ کے سپرد کر دیا ۔یہ فیصلہ بھی موجودہ حکومت کو راس نہیں آرہا ہے۔اس لیے انہوں نے یہ سازش رچی اوراپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے گودی میڈیا کا سہارا لیا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے بغیر پرمیشن لیے ہوئے کیمپس میں یک طرفہ رپورٹنگ کی اور یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے لیے طلبہ پر ملک مخالف نعرے بازی کر نے کے بے بنیاد الزام میں 14طلبہ پر غداری کا مقدمہ بھی درج کرانے کا کام کیا ۔وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے۔بہر کیف! ابتدائی جانچ میں ان کے خلاف کو ئی ثبوت نہیں ملا۔غداری کا مقدمہ تو اس پر لگنا چاہئے جس کی شرارت سے یہ ماحول خراب ہوا۔مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔جو جیتا وہی سکندر۔جس کی لاتھی اس کی بھینس،خدا خیر کرے!
جامعہ النور الاسلامیہ جگدیش پور امیٹھی
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular