عالم نقوی
صاف ستھری ،آسان ،سلیس اور عام فہم زبان میں شعر کہنے والے کم سہی لیکن اور بھی ہیں ، مگر ، انور جمال انور کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اتنے ہی سیدھے ،سچے اور مخلص انسان بھی ہیں جتنے سچے شاعر ہیں ۔ اُن کے یہاں نہ کسی طرح کا ابہام ہے نہ تشکیک ۔ بس یقین ہی یقین ہے اور اس یقین کاسیدھا ،سچا ،بے باک اور صاف ستھرا اِظہار ۔اُن کی شاعری اور شخصیت کا یہی حَسِین اِمتزاج ،اُنہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ۔ ۔یہ ہر ایک سمت دہشت ،یہ ہے کس کے شر کا منظر ۔۔نہ یہ قہر ہے زمینی ،نہ بلا یہ آسمانی
تھی جو حق گوئی کبھی جنس گراں انور جمال
اس کی تو بازار میں اب کوئی قیمت ہی نہیں
بچوں میں نظر آتے ہیں انداز ِ جوانی
اب سُنتے نہیں نانی سے پریوں کی کہانی !
اُن کی ایک خصوصیت جو بہت جلد قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتی ہے وہ اُن کی گرد و پیش کے حالات سے باخبری اور اُس پر اُن کا فوری رد عمل ہے :
ہمیں اندھے عقیدے تا ابد اندھا ہی رکھیں گے
عجب تاریک راہوں پر ہے انور قافلہ اپنا
عجب انداز ہے طوفاں کا انور
کہ رنگ اُڑنے لگا ہے ساحلوں کا
ادب کمزور پڑتا جارہا ہے
ہوا ہے زرد چہرہ محفلوں کا
فقط تنقید ہی کرتے رہوگے ؟
کوئی رستہ نکالو مشکلوں کا !
ہمارے سامنے اس وقت ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’پرواز ِ حیات ‘‘ ہے ۔ جو ابھی گزشتہ مہینے (اکتوبر ۲۰۱۷ ) میں شایع ہوا ہے ۔سادگی ،روانی ،عصری آگہی اور بے باکی غزلوں کی طرح ان کی نظموں پر بھی حاوی ہے ۔ زر خرید اور بکاؤ عصری میڈیا ، جسے این ڈی ٹی وی کے شہرت یافتہ ’حق گو ‘ اَینکر رَویش کمار بجا طور پر ہانکے پکارے ’گودی میڈیا ‘ کہتے ہیں ،اور خود غرض ،فرقہ پرست ،متعصب اور غیر روادارعصری سیاست کے خلاف کم شاعروں نے اِتنی جلدی اِس طرح اَپنے قلم کو تلوار بنایا ہوگا ،جس طرح انور جمال انور نے اپنی نظم ’’عصری میڈیا ‘‘ میں ذرائع ابلاغ اور سیاست کو نشانہ بنایا ہے :
ہم جو چاہیں گے وہ بولی بولیں گے ۔۔اپنی سوچ سے ہم دنیا کو تولیں گے ۔۔
سب کی جھولی بولی خوب ٹٹولیں گے
دَل بدلو جتنے ہیں سارے اپنے ہیں
سارے چینل ہم نے مول خریدے ہیں
دیش میں اب منمانی ہم کو کرنا ہے
ہم کوتو بس اپنی جھولی بھرنا ہے
کیسی جنتا ؟ جنتا سے کیا ڈرنا ہے !
ہم وہ کب ہیں ،جنتا سے جو ڈرتے ہیں
سارے چینل ہم نے مول خریدے ہیں
سامپردائک ہم کو کون بتائے گا
جو بولے گا ،کاراگار میں جائے گا
جانچ کمیشن ان کو دوشی پائے گا
جو پچھڑے کچلوں کی باتیں کرتے ہیں
سارے چینل ہم نے مول خریدے ہیں
بھارت کا اتہاس مٹانا چاہے وہ
بھائی بھائی کو لڑوانا چاہے وہ
دیش کو پھر کھنڈت کروانا چاہے وہ
کھلے ہوئے اس کے ناپاک ارادے ہیں
سارے چینل اس نے مول خریدے ہیں
مسلم کا اک نام فضا میں چھوڑ دیا
پوری قوم کو آتنک واد سے جوڑ دیا
بھائی چارے کا ہر بندھن توڑ دیا
بھارت واسی لاچاری سے تکتے ہیں
سارے چینل اس نے مول خریدے ہیں
انور ان حالات کا تم غم مت کرنا
کوئی دَشا ہو ،ظالم کا دَم مت بھرنا
ظلم کے آگے سر اپنا خم مت کرنا
سب سے کہدو ہم اللہ کے بندے ہیں
کیا ڈر چینل اس نے مول خریدے ہیں !
اس مجموعے میں اُن کی پانچ حمد ،گیارہ نعتیں ،چار منقبتیں ،تین سلام ،پچاس غزلیں ،پندرہ نظمیں اور آٹھ قطعات شامل ہیں۔
غزلوں میں نصف سے زیادہ ایسی ہیں جن کے بارے بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُن میں کوئی شعر محض برائے بیت ،یا بھرتی کا نہیں ہے ۔ ’برسات ‘اور ’دھوپ‘ اُن کے محبوب موضوعات ہیں جن کا اپنی غزلوں میں اُنہوں نے بطور ایک حسین مظہرِ فطرت بھی استعمال کیا ہے اور بطور استعارہ بھی :
صبح کچھ ،شام اس کی ہے کچھ اور
سر خوشی ہے ،کبھی اُداسی دھوپ
جانے کس مِہرِ ضَو فِشاں کی ہے
ذِہنِ اَنور پہ اِک شعوری دھوپ
بات پھولوں کی کیا ہے کلیوں کو
مسکرانا سکھا رہی ہے دھوپ
صبح جب مل گئی ہے سردی کی
کس قدر مسکرا رہی ہے دھوپ
دن کی سب رونقیں سمیٹے ہوئے
میرے آنگن سے جا رہی ہے دھوپ
دل میں غم مت پالیے برسات میں
میرے گھر آجائیے برسات میں
پھر انہیں سمجھائیے برسات میں
ہیں غزل کے زاویے برسات میں
ردیف ’بارشوں کے موسم میں ‘ ان کی پوری غزل فطرت کے حسین مظہر کا دلکش بیانیہ ہے ۔
انور صاحب نے حسرت موہانی کی مشہور غزل ’فسانہ یاد ہے ‘ اور ’منانا یاد ہے ‘ کی طرز پر اسی رنگ میں ردیف اور بحر میں ذرا سی تبدیلی کر کے ،’زمانہ یاد آتا ہے ‘ اور ’منانا یاد آتا ہے ‘ ،نو اشعار کی جو غزل کہی ہے وہ اُن کی سادہ مزاجی اور شعری لطافت دونوں کا ثبوت ہے ۔اُس کے آٹھ اشعار (ص۶۶۔۶۷) تو بلا شبہ، ’ایک ڈال ‘ہیں !
ہمیں بچپن کا اب تک وہ زمانہ یاد آتا ہے
کسی کا روٹھ جانا پھر منانا یاد آتا ہے
کبھی پنگھٹ ،کبھی پگڈنڈیوں پر جھومنا گانا
کبھی کچھ کہہ کے شرمانا لجانا یاد آتا ہے
وہ روتے روتے ہنس دینا کسی کا بے سبب انور
وہ ہنستے ہنستے اشکوں کا بہانا یاد آتا ہے
انور صاحب نے ( بہ حیثیت انجینئر ،تیل اور قدرتی گیس کمیشن ONGCمیں )اپنے زمانہ ملازمت کا بڑا حصہ آسام اور گجرات میں گزارا ۔ سن دو ہزار دو عیسوی کے پر آشوب زمانے میں وہ گجرات ہی میں تھے ۔اُن کی نظمیں ’ سنسکاری نگری گجرات ‘ ’باپو کی نگری میں ‘ اور گجرات کا اَتیت ‘ اُسی زمانے کی یادگار ہیں ۔ سنسکاری نگری میں وہ لکھتے ہیں :
گجرات ایک مرکزِ اَمن و امان تھا ۔۔ہر فرد کامیاب تھا اور کامران تھا ۔۔بس ایک شب میں بدلے تھے حالات اس طرح ۔۔خطرے میں ہر علاقے کا پیر و جوان تھا ۔۔سب جل گئے فساد کے شعلوں میں مرد و زن ۔۔ بیٹی جوان تھی کوئی بیٹا جوان تھا ۔۔ظلم و ستم کی آگ سے میں بھی نہ بچ سکا ۔۔جو جل گیا فساد میں میرا مکان تھا ۔۔انور کوئی ٹھکانہ نہیں حادثات کا ۔۔جب بجلیاں گری تھیں ،کھلا آسمان تھا !
اسی طرح نظم ’گجرات کا اِتیت ‘ میں وہ لکھتے ہیں : دیش کا گرو تھا مرا گجرات ۔۔پریم اہنسا کی تھی یہاں برسات ۔۔کوئی اس کا اَتیت لَوٹَا دے ۔۔اس کو بییتے یُگوں میں پہنچا دے ۔۔ کوئی ظالم نہ حکمراں ہوں یہاں ۔۔سب مذاہب کے پاسباں ہوں یہاں ۔۔یا الٰہی یہ التجا سُن لے ۔۔اپنے انور کی یہ دعا سن لے ۔!
چونکہ او این جی سی کی سرکاری ملازمت کے دوران وہ زیادہ تر آسام اور گجرات میں رہے اور انہی کے لفظوں میں ’’افسروں نے جب ان میں شعر و شاعری سے محبت دیکھی تو اُنہیں ’راج بھاشا ‘کی نشر و اشاعت کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی ، یہ کام انہوں نے کس طرح انجام دیا ،یہ تو انہوں نے نہیں بتایا لیکن ان کی بعض نظموں (اور کچھ غزلوں )میں ایسے اشعار ضرور ہیں جن میں’ لوک بھاشا ‘ کے بجائے ’ راج بھاشا ‘ کے ثقیل ،اور کم از کم اردو والوں کے لیے کسی قدر نامانوس الفاظ بلا ضرورت در آئے ہیں جن کی جگہ نہایت آسانی سے غالب کی ’ سَبکِ ہندی‘ ،اورآرزو لکھنوی کی ’سریلی بانسری ‘والے آسان اور عام فہم ہندی الفاظ بھی لائے جا سکتے تھے ۔
مجموعی طور پر حبیب ِمعظم انور جمال انور ایک سچے اور معتدل مزاج انسان ہیں اور اُن کی شاعری اُن کی اعتدال پسند شخصیت کا پَرتَو ہے ۔
عظیم افسانہ نگار اور چالیس سال سے بلا ناغہ شایع ہونے والے ،اپنی نوعیت کے اکلوتے ادبی جریدے ’گلبن ‘ کے مدیر شہیر سید ظفر ہاشمی نے، اپنے بارے میں مدیر ’اُردو بُک ریویو ‘عارف اقبال کے ایک سوال کے جواب میں جو بات کہی ہے وہی انور صاحب پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے کہ ’’ ان کی زندگی صاف ستھری میدانی ندیا میں تیرتی ہوئی ایک چھوٹی سی کشتی کے مانند ہے ،جو ،سرد و گرم ِ زمانہ سے بے نیاز ، ٹھنڈی پُر وَیّا کے سہارے چلی جارہی ہے ! ‘‘
انور صاحب کے مزاج کی نرمی اور کردار کی سچائی ،اُن کی سیدھی سادی شاعری میں صاف جھلکتی ہے ۔ ہم ان کی صحت اور طول عمری کے لیے دست بدعا ہیں ۔ آپ بھی آمین کہیں ۔
کتاب ’’پرواز ِ حیات ‘‘کے ناشر تو انور صاحب خود ہیں لیکن طباعت اور بائنڈنگ وغیرہ کی ذمہ داریاںنعمانی پرنٹنگ پریس گولہ گنج لکھنو کے عزیزم اُویس سنبھلی نے بہ حسن و خوبی نبھائی ہیں ۔کتاب دانش محل امین آباد لکھنو اور کتب خانہ انجمن ترقی اردو ہند ،اردو بازار ،جامع مسجد دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو کتابوں اور بالخصوص شعری مجموعوں کی روایت کے برخلاف ’پرواز حیات‘ کے لیے ISBN No بھی حاصل کر لیا گیا ہے ! ٭