Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاکیسویں صدی میں اردو زبان کی عالمگیر مقبولیت

اکیسویں صدی میں اردو زبان کی عالمگیر مقبولیت

ڈاکٹر امام اعظم
اردو زبان دنیا کی چند بڑی اور ترقی یافتہ زبانوں میں ایک ہے۔ اس میں دوسری زبانوں اور تہذیبوں کو جذب کرنے کی صلاحیت اور روایت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسی مزاج نے اسے عوامی زبان بنایا اور برصغیر ہندو پاک میں ایک عرصہ تک دفاتر کی واحد زبان بنی رہی اور فی زمانہ دنیا کے تقریباً ہر بڑے شہر میں انگریزی کے بعد اردو رابطے کی زبان بن گئی ہے۔ ڈاکٹر اجے مالوی کے خیالات یہاں بڑے ہی کارآمد ہیں ۔ انھوں نے لکھا ہے کہ :
’’قید دید‘‘ (Philosphia) کے برخلاف ’’آزادیٔ دید ‘‘(Philosia) کے زاویۂ نگاہ سے اردو نسوانی توانائی کے بہاؤ اور مردانہ ٹھہراؤ کی حسین و زرّیں علامت ہے ۔ یہ بہاؤ میں ٹھہراؤ کا وحدتِ وجودی تصور ہے ، جس کو احدِ اولیٰ اور نورِ اولیٰ کے بیکراں حسنِ جلوہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے اندر حسنِ نظارہ بے اختیار جذب و پیوست ہوجاتا ہے ۔ یہ وحدت سے آگے کی منزل احدیت ہے ۔ اُردیا (Cosmos) آفاقی نورِ اولیٰ (Ultimate Braha) کا نگار خانۂ رقصاں ہے ۔ جیسے جیسے برہم پھیلتے جاتے ہیں ، ویسے ویسے آفاق (برہمانڈ)بھی ہر ثانیہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے ۔ ‘‘      (’’ویدک ادب اور اردو ‘‘  ص:۹۰)
آج دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں اردو ایک اہم زبان کی حیثیت سے پڑھائی جارہی ہے۔ برطانیہ تو اردو کے سوادِ اعظم سے باہر اردو کا تیسرا سب سے بڑا مرکز ہے اور وہاں کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ اردو کے متعدد اخبارات اور رسائل بھی شائع ہوتے ہیں اور درجنوں انجمنیں کام کررہی ہیں۔ اسکول آف اورینٹل افریقن اسٹڈیز اردو کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیقات کا مرکز ہے۔امریکہ سے بھی اردو کے متعدد اخبارات و رسائل اور کتابیں شائع ہوتی ہیں اور وہاں کی اکثر یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کینیڈا کی کئی یونیورسٹیوں میں بھی اردو کی تعلیم کا بندوبست ہے جہاں سے کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں ۔اخبارا ت و رسائل بھی نکلتے ہیں اور ٹورنٹو یونیورسٹی کے علاوہ دیگر یونیورسٹیوں میں اردو تعلیم کا نظم ہے۔ یہاں کی مونٹریل یونیورسٹی میں اقبال چیئر قائم ہے ۔ جاپان، چین ، جنوبی افریقہ ، ناروے، پراگ، برلن اور سابقہ سویت یونین ممالک میں بھی اردو زبان پڑھائی جاتی ہے اوراردو بولنے والوں کی اچھی تعداد موجود ہے۔ ماریشس میں اردو تیسری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں باضابطہ اردو کا شعبہ ہے اور یہاں اکثر اردو کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنگون، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی رابطے کی زبان کے طور سے اردو رائج ہے اور وہاں سے اردو اخبارات و رسائل بھی شائع ہورہے ہیں۔ عرب ممالک بشمول مصر اور خلیج کے بہت سے علاقے نیز ایران کی متعدد یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔
برصغیر ہند و پاک ، بنگلہ دیش اور نیپال کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان اردو ہے۔ سرکاری سطح پر دیکھا جائے توپاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ ہندوستان میں اردو کو ریاست جموں و کشمیر میں پہلی سرکاری زبان جب کہ بہار، اترپردیش ، تلنگانہ ، مغربی بنگال اور دہلی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔مہاراشٹر، کرناٹک اور آندھرا پردیش وغیرہ ریاستوں میں اردو داں طبقہ کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہے۔چنانچہ برصغیر میں اردو رابطے کی سب سے بڑی اور موثر زبان کی حیثیت رکھتی ہے نیز مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں عربی کے علاوہ اگر کسی زبان نے اہم رول ادا کیا ہے تو وہ اردو ہی ہے۔ اس زبان میں اسلامی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ تفسیر، شرع حدیث، فقہ و سیرت کے علاوہ دیگر تمام علوم و فنون میں بھی اردو زبان میں بہترین کتابیں موجود ہیں۔ایک دوسری اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک اچھی تعداد روزگار کے سلسلے میں عرب کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی ہے جن کی مادری زبان اردو ہے۔ عرب اقوام جواس وقت بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اور دنیا کی تیسری طاقت بلکہ موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر دوسری بڑی طاقت کے طور پر دیکھی جارہی ہیں، ان کے لئے اردو جیسی اہم اور ترقی یافتہ زبان سے گہری دلچسپی اور واقفیت وقت کی ضرورت ہے۔
لسانی اعتبار سے بھی اردو زبان کا سیکھنا اہلِ عرب کیلئے مفید ہے۔ اس سے وہ اسلامی اخوت کا پیغام گہرائی و گیرائی کے ساتھ عرب کی سرحدوں سے باہر پہنچا سکتے ہیں۔اردو اپنے رسم الخط میں اور اپنی قواعد اور لغت میں عربی سے قریبی اشتراک رکھتی ہے۔ اور اردو بولنے والے مسلمان عربی زبان رغبت سے سیکھتے ہیں کیوں کہ یہ قرآن پاک اور حدیث کی زبان ہے۔ ساتھ ہی وہ ملکِ عرب اور وہاں کے باشندوں کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا داعیٔ اسلام اور پاسبانِ حرم کی حیثیت سے عربوں کو چاہئے کہ وہ اردو زبان کو ایک غیر ملکی زبان کی حیثیت سے سیکھیں اور پڑھیں جس طرح وہ انگریزی اور فرینچ وغیرہ سیکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عربوں اور اردو جاننے والے مسلمانوں کے درمیان رابطہ قوی ہوگا اور عالمی اسلامی اتحاد کی راہ میں یہ ایک مفید اور اہم قدم ہوگا اور اردو داں آبادی کے درمیان اسلامی عقیدہ اور دین کی اشاعت کا کام اہل عرب براہ راست کرسکیں گے ۔
چونکہ زبانیں معاشرتی تہذیب کی ورثہ دار ہوتی ہیں۔ اس لئے بھی مربوط اور بہتر تعلقات کے استوار کرنے میں زبان کی مہارت اور واقفیت عالمی پیمانے پر مانی جاتی ہے۔مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اردو زبان کی بین الاقوامی حیثیت مسلم ہوجاتی ہے۔ جدید بین الملّی، سیاسی ، ثقافتی، تجارتی اور اقتصادی تحولات کی روشنی میں اور اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کے دنیا سے تجارتی تعلقات کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر ایشیا میں پائیدار، پرامن اور ترقی پذیر ماحول قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ایشیائی ممالک کے درمیان ان کی مقبول عام زبانوں کی واقفیت کا منصوبہ بند لین دین ہوتا رہے۔ اس لئے زبان عالمی برادری اور بھائی چارہ قائم کرنے میں ایک قوی محرک ہوسکتا ہے۔ اسے بھی ایک اہم جواز کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔
اردو کی عالمگیریت میں ایک بڑا کردار اطلاعاتی تکنالوجی بھی ادا کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ کے وسیلے سے کمپیوٹر اور موبائل فون نے ایک انقلاب لادیا ہے۔ دنیا دن بہ دن سمٹتی جارہی ہے۔ چند سطور کا ایس ایم ایس ہو ، یا آڈیو /ویڈیو سے مزین ایم ایم ایس یا بھاری بھرکم فائلوں پر مشتمل ای میل سکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جانا اب ایک عام سی بات ہے ۔زبان کے ہجے اور قواعد کی پابندیوں سے آزاد جملوں کی بھرمار اور مختصر سے پیرائے میں اپنی بات کو سموتے ہوئے ایک نئی زبان ایجاد ہورہی ہے اور اسے پسند کیا جارہا ہے۔ اس لئے زبان پر جتنی زیادہ قدرت حاصل ہوگی اتنی زیادہ مہارت سے اظہار کا وسیلہ بہتر طریقہ سے سامنے آئے گا اس لئے اکیسویں صدی میں زبان کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
انٹرنیٹ پر نثر اور شاعری کے بے شمار نمونے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر زبان کی اہمیت اکیسویں صدی میں کم ہوجاتی تو ابن انشاء کی طرح اردو کی آخری کتاب کے جیسا نسخہ لکھنا پڑتا لیکن اوراق اگر اسکرین بن جائیں اور Fontاگر ٹائپنگ میں قلم کا رول ادا کریں تو اس سے یہ سمجھ لینا کہ اکیسویں صدی میں کتابوں رسالوں اور زبانوں کی اہمیت گھٹ گئی ہے تنگ نظری ہے۔ کیونکہ زمانہ کی تبدیلی شعبۂ حیات کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتی ہے اور جدید تر ٹکنالوجی کے بڑھتے سیلاب نے اس بھرم کو دور کردیا ہے کہ زبان اور اس کے ادب کا مطالعہ ہر لمحہ کیا جاسکتا ہے۔ اب تو روز کا تازہ اخبار ایک کی جگہ چار بہ آسانی انٹرنیٹ کے اسکرین پر پڑھا جاتا ہے۔ ان میںہر پل ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی ہوتی ہے ۔ اردو یونی کوڈ فانٹ کی ایجاد نے اردو میں ویب سائٹس اور ایپس کی تیاری میں بڑی مدد کی ہے۔ اب ماؤس کی ایک کلک سے یا موبائل کے ایک بٹن کو دبا کر اپنی زبان میں بھی معلومات کا ذخیرہ حاصل کیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل پر اردو میں تلاش کرنے کے بہت سے متبادل دیگر بین اقوامی زبانوں کی طرح ہی دستیاب ہیں۔ اسی طرح مشہور آن لائن انسائیکلوپیڈیا’’وکی پیڈیا‘‘ پر اردو میں بھی مطلوبہ مواد مل جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس میں ترمیم و اضافہ کی گنجائش بھی موجود ہے۔ سی این این اور بی بی سی جیسی دنیا کی بڑی خبررساں ایجنسیوں کے اردو ویب سائٹس معتبر اور مستند خبروں سے ہمہ وقت بھرے رہتے ہیں۔فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹاگرام اور دیگر مقبول عام سوشل میڈیاپلیٹ فارمس پر اسی یونی کوڈ تکنالوجی نے اردو لکھنے میں مدد پہنچائی ہے۔یوٹیوب پر اردو سیکھنے سکھانے کے متعلق بہت سے ویڈیو روزانہ اپ لوڈ کئے جاتے ہیں۔
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد یہ رفتار اور تیز ہوگئی ہے لیکن روایت پسند حضرات اسے دوسرے زاویوں سے دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اردو جاننے والے ،پڑھنے والے ، لکھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ اب ترسیل و ابلاغ کے نئے ذرائع کی سہولت کے بعد زبان میں اور بھی ترقی ہوئی ہے۔ نئے نئے الفاظ کا اضافہ ہوا ہے۔ نئے نئے طریقہ اظہار کے تجربے ہورہے ہیں۔ اردو زبان میں یہ مکالمے ، یہ خبریں یہ سیریل ، یہ کہانیاں ، ٹی وی اور کمپیوٹر کے ذریعہ ہم لوگوں تک پہنچ رہے ہیں ۔ یہ زبان کا عروج نہیں تو اور کیا ہے؟ مارکونی نے ریڈیو ویب کے ذریعہ زبان کو مالا مال کیا تھا اور کچھ عرصہ قبل تک دور دراز علاقوں میں جہاں بجلی اور دیگر سہولیات نہیں تھیں اور رابطے کٹے ہوئے تھے وہاں ابلاغ کا زبردست ذریعہ ٹرانزسٹر ہوا کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے اخبار کی اہمیت گھٹ گئی تھی یا پرنٹ میڈیا ختم ہوگیا تھا۔ ڈرامے، شاعری، افسانے ، سب ریڈیو سے براڈ کاسٹ ہونے لگے تھے اور اردو زبان وہاں تک پہنچنے لگی تھی جہاں تصور کام نہیں کرتا تھا۔ ریڈیو سے اس کا دائرہ وسیع ہوا۔ سیلو لائڈ نے بھی ارد وکے فروغ میں اہم رول ادا کیا اور اکیسویں صدی میں ٹی وی اور انٹرنیٹ نے اردو کو اور بھی مزین کرنے کا کام کیا۔
ہندوستانی فلموں نے اردو زبان کے فروغ میں جو کردار ادا کیا ، اس کی اہمیت و افادیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس موضوع پر اب تک بے شمار سیمینار منعقدہوچکے ہیں اور کئی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے بھی قلم بند کئے جاچکے ہیں۔ راقم الحروف کی کنوینرشپ میں مارچ ۲۰۱۱ء میں دربھنگہ (بہار) میں یکروزہ’’ہندوستانی فلمیں اور اردو ‘‘ کا کامیاب انعقاد قومی اردو کونسل کے تعاون سے ہوا تھا جس کی ادبی حلقوںمیں بے حد پذیرائی ہوئی تھی۔ اس سیمینار میں پیش کئے گئے مقالوں پر مبنی ایک ضخیم اور وقیع کتاب ۲۰۱۲ء میں منظرِ عام پر آچکی ہے جس سے ریسرچ اسکالروں اور طالب علموں کو اس موضوع پر کام کرنے میں بہت سہولت ہوگئی ہے۔ٹیلی ویژن پر اردو کیبل چینلز بھی اب عام ہوتے جارہے ہیں جن پر ۲۴؍گھنٹے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں میں فلمیں ، سیریل ، مشاعرے، اہم ادباء و شعراء پر دستاویزی فلمیں ، ڈرامے اور اردو تہذیب و ثقافت سے متعلق پروگرام شامل ہیں۔ ای ۔ٹی۔وی ۔ اردو چینل کا ۱۵؍اگست ۲۰۰۱ء میں آغاز ہوا جو ہندوستان میں غالباً پہلا غیر سرکاری اردو چینل ہے جس کے روحِ رواں جناب رامو جی راؤ ہیں۔اردو زبان کے فروغ و اشاعت میں موصوف اور ان کے ٹی وی چینل کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ۲۰۰۸ء تک اس چینل پر ’’آؤ اردو سیکھیں‘‘ نامی ایک پروگرام نشر کیا جاتا تھا جس کے میزبان پروفیسر مظفر شہ میری ہوا کرتے تھے۔ اس پروگرام کے ذریعہ عالمی سطح پر لاکھوں افراد نے اردو لکھنا ، پڑھنا سیکھا۔
 اکیسویں صدی میں زبان کے عروج کے بہت سارے اسباب ہیں۔ پہلے زبان کے لئے ادبی کاوشیں ہی موثرذریعہ تھیں جن سے لوگ اپنے آپ کو اظہار کے قابل سمجھتے تھے لیکن اب تو ہر شعبۂ حیات میں زبان کی ضرورت ہے۔ اگر کھیل کا میدان ہے تو اس کی رننگ کامنٹری کے لئے بھی زبان کا سہارا لینا ہے۔ زبان کی ضرورت بڑھی اور اس کا دائرہ بھی بڑھا اور لوگ زبان کو مزید چست درست بنانے میں لگے رہے اور دنیا کی زبانوں سے اختلاط کا موقع اردو زبان کو اور زیادہ ملا اور اس کے ذخیرہ الفاظ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ زبان ایسی اہل ہوگئی کہ یہ اپنے تقاضوں کو اور ضرورتوں کو پیش کرنے میں کہیں بھی اور کسی صورت بھی کم نہیں رہی۔ اس لئے اکیسویں صدی زبان کے عروج کی اہم وجہ ہے ۔

بیسویں صدی میں بالخصوص ہندوستان میں پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی کوششوں سے بہت ساری اکیڈمیز کا قیام عمل میں آیا اور ہندوستان کے مختلف فنون لطیفہ کو مزید زندگی بخشی اور ان کے تحفظ کے لئے اس طرح کے ادارے قائم کئے۔ ساہتیہ اکیڈمی نے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں ادبی کاوشوں کو محفوظ کرنے کا کام کیا اور بیسویں صدی کی آخری دہائی اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں عمدہ ادب کا ذخیرہ دیا۔ اس ذخیرہ میں اردو زبان کا بھی ایک بڑا حصہ ہے۔ بیسویں صدی میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اردو اکاڈمیاں قائم کی گئیں ۔ یہ اکاڈمیاں بیسویں صدی میں بہت زیادہ فعال نہیں تھیں لیکن اکیسویں صدی میں ان کی فعالیت میں اضافہ ہوا ہے اور اپنی حدود میں رہ کر یہ اکادمیاں قلم کاروں کو کتابوں کی اشاعت کے لئے مالی تعاون، کتابوں پر انعامات ، نادار اور بزرگ قلم کاروں کو وظائف وغیرہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غیرسرکاری اداروں میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور غالب اکاڈمی جیسے ادارے فعال ہیں ۔ان اکادمیوں کے علاوہ انجمن ترقی اردو ہند اور اس کی بعض ریاستی شاخوں نے بھی اپنے کام کو رفتار دی ہے اور اس کے زیرِ نگرانی اشاعتی کام تیزی سے ہوئے ہیں۔ درمیان میں فنڈ اور حالات کی ناسازگاری کے سبب انجمن کی سرگرمیاں کچھ تعطل کا شکار ہوگئی تھیں مگر اب انجمن اپنی اشاعتی سرگرمیوں اور خوبصورت ویب سائٹ کے ساتھ پھر سے اردو کی ترویج و اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے بھی دور دراز علاقوں تک اردو کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کونسل تقریباً دو دہائیوں سے مختلف اسکولوں ، کالجوں اور اردو اداروں میں کمپیوٹر کی فراہمی کرکے اردو زبان میں کمپیوٹر ٹریننگ کورس کا اہتمام کرتی آرہی ہے جس کے ذریعہ آج لاکھوں اردو داں طالب علم اپنی مادری زبان میں کمپیوٹر سیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کونسل نے دوسری زبانوں کی اہم کتابوں کے ترجمے بھی بحسن و خوبی کرائے ہیں۔ گاڑی پر کتابوں کی فروخت کا سلسلہ قائم کر کے اردو کتابوں کو کونسل نے ایسی دوردراز اردو بستیوں تک پہنچایا ہے جہاں کے لوگوں کے لئے کتابوں کی خرید آسان نہیں تھی۔ اردو قلم کاروں کی کتابوں کی تھوک خریداری اور کتابوں کی اشاعت پر مالی تعاون کے ذریعہ کونسل نے بڑا کام کیا ہے۔ کونسل کے موجودہ ڈائریکٹر کی میعادِ کار کے دوران تیسری عالمی اردو کانفرنس بھی ہوئی جس کا شاندار انعقاد پچھلی دوکانفرنسوں کی کامیابی کی دلیل ہے۔ قومی اردو کونسل کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ ای-کتاب جو دنیا کا پہلا مفت ای-پب ہے جسے ڈائون لوڈ کرکے کونسل کی مطبوعہ کتابوں کا مطالعہ کوئی بھی کرسکتا ہے ۔ یہ ایپ اردو کے مقبول ترین خط ’نستعلیق‘ میں اینڈروائڈ موبائل نیز کمپیوٹرس و لیپ ٹاپ پر اردو برقی کتابیں پڑھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس ایپ کا اجراء ۲۴؍مارچ ۲۰۱۸ء کو پانچویں عالمی اردو کانفرنس کے دوران دہلی کے ہوٹل دی اشوک میں ہوا۔ہندوستان میں لسانی ادارے اور اردو میڈیم سے تعلیم دینے کے لئے جس شد و مد کے ساتھ اکیسویں صدی میں کام ہوا ہے اس سے پہلے ایسی کاوش دیکھنے کو نہیں ملتی۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے قیام سے اردو زبان کے گیسو سنوارنے کا ہی کام نہیں کیا گیا بلکہ ادب کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی اردو میں کتابیں فراہم کرکے ایک بڑا کام انجام دیا گیا اس سے اردو آبادی اکیسویں صدی میں فیضیاب ہورہی ہے۔ یونیورسٹی کے موجودہ شیخ الجامعہ کی قیادت میں یونیورسٹی ترقی کے نئے مدارج طے کر رہی ہے۔ اردو ذریعہ تعلیم کے درجنوں روایتی اور فاصلاتی کورسز کے ذریعہ یونیورسٹی اردو داں طبقے کی اپنی مادری زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر رہی ہے۔
سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے علاوہ بہت سی ویب سائٹس بھی اردو زبان و ادب کے فروغ کا کام بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں جن میں ریختہ ڈاٹ او آر جی سرفہرست ہے۔ ایک محب اردو جناب سنجیو صراف کی قیادت میں ریختہ کی ویب سائٹ پر ہزاروں اردو کتابوں کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے جس سے دنیا بھر کی بڑی لائبریریوں میں موجود نادر و نایاب اردو کتابیں ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ پر ویب سائٹ اور موبائل میں ایپ کے ذریعہ قارئین کو دستیاب ہو گئی ہیں ، جن سے خصوصی طورپر ریسرچ اسکالرز بھرپور فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ غیر اردو داں طبقہ کو اس زبان کی شیرینیت کا احساس دلانے کے لیے ہر سال اس ویب سائٹ کے زیرِ اہتمام ’’جشنِ ریختہ‘‘ کا انعقاد بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ ایم قمر علیگ نے اپنی تحریر بعنوان ’’اردو زبان کی زبوں حالی کا المیہ‘‘ مطبوعہ روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ کولکاتا مرقومہ ۱۶؍فروری ۲۰۱۸ء میں اس پیاری زبان کی بقا پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’… خاموشی کے ساتھ جو لوگ اردو کی ارتقا کے لئے کام کررہے ہیں، وہ قابل مبارک باد ہیں، لہٰذا امید کی جاسکتی ہے اردو کی نشاۃ ثانیہ اب بہت زیادہ دور نہیں ہے اور وہ اپنی روایتی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہونے والی ہے۔ غیر مسلم ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ذریعہ اردو کی ترقی و ترویج کے لئے جو کارہائے نمایاں انجام دئے جارہے ہیں وہ بھی اردو کے تابناک مستقبل کی عکاسی کرتے ہیں۔ ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر کوئی بھی زبان کسی دوسری زبان سے کمتر نہیں ہوتی ہے۔ یہ صرف کچھ لوگوں کے سوچنے کا غیر مناسب نظریہ ہے۔ سوشل میڈیا کے توسط سے آج اردو کو جس طرح سے فروغ مل رہا ہے وہی اس بات کی ضمانت ہے کہ زبانیں خود نہیں مرتیں بلکہ انہیں مارا جاتا ہے اور ہم میں سے ہی کچھ لوگ ان کو برقرار رکھنے کے لئے سامنے آجاتے ہیں…۔‘‘
مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ اردواپنی شیرینی، لطافت اور پرزور انداز میں متاثر کرنے کی صلاحیت کی بناپر اکیسویں صدی میں یقینی طور پر مزید وسعت اختیار کرے گی اور دلوں کو جوڑنے میں پر جوش عمل دکھلائے گی۔ اردو نے قومی یکجہتی اور اتحاد سے بھی اپنی شناخت کو منور کیا ہے۔ یہ ایک زندہ زبان کی علامت ہے جس سے افادیت اور مقصدیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اردو زبان اظہار کا بہترین مرقع ہے جس میں معنی و مفہوم کی گیرائی و گہرائی ملتی ہے۔ اکیسویں صدی میں معاشرہ کے بطون میں داخل ہوکر اردو جذبہ کی تسکین کاذریعہ بنے گی اور پیوستگی کے چہرے کو صحت مند کرے گی۔ اپنی بات کا اختتام اپنے ہی ان دو قطعات پر کرتا ہوں :
پھیل جاتی ہے جو وہ خوشبو ہے

دل کے اندر بسی ہوئی تو ہے
تجھ پہ لاکھوں نے دل نثار کئے

تو ہماری زبان اردو ہے
………
دلوں پہ اِس کا ہے راج اب تک

مخالفوں سے نہ ڈر سکے گی
زمانہ چاہے ہزار بدلے

زبانِ اردو نہ مر سکے گی
٭٭٭
٭ ریجنل ڈائریکٹر (مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ) ، کولکاتا ریجنل سینٹر
۷۱؍جی، تلجلا روڈ ، کولکاتا-۷۰۰۰۴۶ ؛ موبائل : 08902496545 / 9431085816
ای میل : [email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular