Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldآصف اظہار علی کا فن تخلیق ’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘...

آصف اظہار علی کا فن تخلیق ’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ کی روشنی میں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محمد عادل فرازؔ

آصف اظہارعلی عصرِحاضر میںاردو ادب کے نئے فکشن نگاروں میں ممتازحیثیت رکھتی ہیں۔انھوں نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں تربیت پائی۔ان کے دادا حافظ عبدالمجیدصاحب ایک صوفی شاعر اور عالم فاضل شخص تھے۔والد صاحب سید شوکت علی بھی شعر و ادب میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ان کی تربیت اور بزرگوں سے ملے علمی ورثے نے آصف اظہار کے علمی ذوق کو مزید پروان چڑھایا۔دوران تعلیم انھوں نے بہت سے نامور ادباء اور شعراء سے اکتسابِ فن کیا اور اپنی تخلیقات کو آب و تاب بخشی۔
آصف اظہار علی نے نو عمری سے ہی کہانیاں لکھنے کا سلیقہ حاصل کیا۔ابتداء میں انھوں نے بچوں کے لئے مختصر کہانیاں تحریر کیں جو ادبِ اطفال میں ممتاز ہوئیں۔رفتہ رفتہ ان کے یہاں افسانہ نگاری کا شعور بیدار ہواانھوں نے افسانہ نگاری کے میدان میں نہایت مستعدی کے ساتھ قدم رکھا۔ان کی تخلیقات ہندوستان کے مختلف رسائل و جرائد میں شامل ہو کر مقبول خاص و عام ہوئیں۔ان کے افسانے کا پہلا مجموعہ’’سہارا‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس کو ادبی حلقوں میںداد و تحسین سے نوازا گیا۔ان کادوسرا افسانوی مجموعہ’’پھر مجھے دیدۂ تر یادآیا‘‘بھی شائع ہوکر اہلِ نقد و نظر میں شرفِ قبولیت حاصل کر چکا ہے۔اس افسانوی مجموعے کا مطالعہ کرنے کے بعد آصف اظہار علی کی تخلیقی کائنات کی نئی نئی منزلیں قاری کی آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں۔آصف اظہار علی کا یہ مجموعہ ۲۶ افسانوں پر مشتمل ہے۔ہر افسانہ ایک مختلف موضوع اور منفرد اندازِ تحریر رکھتاہے۔وہ اپنے اس افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میںاپنے افسانوں کے حوالے سے اس طرح گفتگو کرتی ہیں:
’’میں۔۔۔کہ ایک حساس انسان ہوں جو محسوس کرتی ہوں اس کے لئے قلم اٹھانا اپنا فرض سمجھتی ہوں۔افسانے لکھتی رہتی ہوں۔افسانے جو میرے اردگرد بکھرے پڑے ہیں کہ اگر قلم چل پڑے تو رکنے کا نام ہی نہ لے۔آج کے اس پر آشوب دور میں مجھے تو ہر چہرے پر ایک کہانی لکھی نظر آتی ہے۔ہر شخص کی نظر یں کچھ کہتی ہوئی لگتی ہیں۔ہر طرف درد ہے،افلاس ہے،بھوک ہے تشدد ہے ۔۔۔ظلم و ستم عام ہے۔۔۔سکون کہاں ہے،کہیں بھی نظر نہیں آتا اور یہی بے چینی حساس طبیعت کو لکھنے کے لئے اکساتی ہے۔‘‘
گویا کہ آصف اظہار علی نے اپنے گرد و پیش اور جیتی جاگتی دنیا سے افسانوںکا تانا بانا بنا ہے اور وہ تمام موضوعات اخذ کئے ہیںجن سے معاشرے کی بہتر منظر کشی ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں جو کردار ہمیں نظر آتے ہیں وہ ہمارے لئے اجنبی نہیںبلکہ ہم ان سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان کے کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ کرنے کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ان کی حرکات و سکنات کا چشم دید گواہ ہے۔ان کے افسانوں کے کردار کی ایک واضح خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ مشرقی تہذیب کے پروردہ ہیں ۔ہندوستانی کلچر اور معاشرے میں سانس لیتے ہوئے یہ کردار قاری کو قلبی سکون بھی فراہم کرتے ہیں اور اسے یہ سوچنے پر بھی مجبور کر دیتے ہیں کہ انسان نے انسان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔سماج کے دبے کچلے اور استحصال شدہ افراد جو درحقیقت ہمارے چاروں طرف پائے جاتے ہیں وہ ان کے افسانوں میں اپنی موجودگی کا اس طرح احساس کراتے ہیں کہ معلو م ہوتا ہے کہ ہمارا کردار بھی انھیں میں سے کوئی ایک نبھا رہا ہے۔ان کے یہاں کردار فرشتہ صفت نہیںبلکہ عقل و شعور کے ساتھ ساتھ جزبات کی متحرک اور سرگرداں تصاویر کا ایک مرقع بھی ہیں۔ان کے یہاں عشق بھی پایا جاتا اور حسد اور بغض بھی، وہ ہمدرد بھی ہیں اور ظالم و جفا کار بھی،وہ غربت زدہ بھی ہیں اور اونچے طبقوں کے نمائندہ بھی،وہ عیار بھی ہیں اور سادہ لوح بھی ہیں جس سے قاری بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آصف اظہار علی کا فن کس بلندی پر ہے اوراس کی جاذبیت کا پیمانہ کس قدر لبریز ہے۔
ان کے افسانوں کے کردار کے حوالے سے ایک بات یہ بھی بلا کسی تردد کہی جا سکتی ہے کہ وہ عورتوں کی نفسیات اور ان کی فکر ی مد و جزرکی عکاسی اور بیان پر بھر پور عبور رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں ایسے نسوانی کردار رونما ہوتے ہیں جو اپنے مافی الضمیرکو کہیں اشارو ں اور کنایوں میں بیان کرتے ہیں تو کہیں کھلے عام اپنی دلی خواہشات کا اظہار کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔
مذکورہ مجموعے میں شامل افسانہ’’ہم خواب‘‘ ہندوستانی تہذیب و تمدن کے مٹ جانے اور گنگا جمنی تہذیب کے زوال اور اس کے اجڑ جانے کا عکاس معلوم ہوتاہے۔اس افسانے کے کرداروں کے ذریعے مصنفہ نے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا شیرازہ دور حاضر میں بکھرتا جارہا ہے۔صدیوں سے مختلف مذہب کے ماننے والے افراد آپس میں بھائی چارے کے ساتھ رہ رہے تھے ایک دوسرے کے غم اورخوشی میں شریک ہوتے تھے۔مگر آج مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہانے پر آمادہ ہیں ۔ افسانے کے کردار’’ نصیر‘‘ اور ’’ رام اوتار‘‘اس پس منظر کے تناظر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔افسانے کی ابتدائی سطر پڑھنے کے بعدہی افسانے کے موضوع اور پس منظرسے آگاہی ہو جاتی ہے اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مصنفہ کا قلم کس طرف رواں دواں ہے اور کس تاثر کے تحت افسانہ تخلیق کیا گیا ہے۔ افسانے کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے:
’’نصیر‘‘ اور’’ رام اوتار‘‘ کی دکانیں پھول چوراہے سبزی منڈی کے پاس تھیں کبھی ان کے باپ دادا آپس میں گہرے دوست رہے تھے،لیکن وہ تو ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے تھے، پچھلے کئی فرقہ وارانہ فسادات نے سب سے بڑا ستم ہندوستانی عوام پر یہ ڈھایا تھا کہ ان کے دل و دماغ مذہب کے نام پر تقسیم ہونے لگے تھے۔ان کے محلے الگ ہوگئے تھے۔بازار الگ ہو گئے تھے۔ان کے ذہن بٹ گئے تھے۔شاید وقت نے ہی رام اوتار اور نصیر کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تھا۔‘‘
افسانے کا مکمل جائزہ لینے کے بعدقاری پر موصوفہ کی صلاحیتوں کے رموز و نکات مزیدواضح ہوجاتے ہیں۔یہاں’’نصیر‘‘ اور’’ رام اوتار‘‘ دو ایسے کردار ہیںجو دو مختلف مذاہب کے ترجمان ہیں۔دونوں کی دوکانیں آس پاس ہیں،نصیر کی دکان آتش بازی کی دکان ہے اور رام اوتار کی لکھنوی چکن کے کپڑوں کی۔عید کے موقع پر رام اوتارکی دکان پر بھیڑ لگ جاتی ہے تو دشہرے اور دیوالی پر نصیرکی دکان چمک اٹھتی ہے۔یعنی مصنفہ اس موقع پر سماج کے اس پہلو کو دکھانا چاہتی ہیںکہ جس میں انسان مختلف عقائد و مذاہب کے باوجوداور سماج کے دیگر افراد سے اختلاف رکھنے پر بھی زندگی تنہا یعنی بغیر کسی سہارے کے نہیں گزار سکتا ۔قدرت نے انسان کو ایسے خلق کیا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے دوسروں پر مشتمل ہے۔یہاںبھی’’رام اوتار‘‘ اور’’ نصیر‘‘ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ان کی زندگی کا سلسلہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔
افسانہ اس وقت دلچسپ موڑ لے لیتا ہے جب نصیر کی آتش بازی کی دکان میں آگ لگنے سے رام اوتار کی دکان بھی جل جاتی ہے۔یہاں مصنفہ اس نکتے کی وضاحت کر رہی ہیں کہ ظلم و ستم کی آگ میں کسی ایک مذہب کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ اس سے پوری انسانیت کا خون ہوجاتا ہے۔کیوںکہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ پوری انسانیت کے لئے پریشان کن ثابت ہوتی ہے۔یہاں مصنفہ اس بات کی بھی ترجمانی کرتی ہیںکہ چاہے آگ کسی کے گھر میں لگے،چاہے نقصان کسی کا بھی ہو لیکن اس کی زد میں آکر انسانیت کا ہی نقصان ہوتا ہے۔آگ لگ جانے سے’’ رام اوتار‘‘ اور’’ نصیر‘‘ دونوں کی جلی ہوئی لاشوں کی شناخت مٹ جانے سے بھی مصنفہ کا اشارہ اس جانب ہے کہ تمام نسلِ انسانیت ایک ہی آئینے کی مختلف جھلکیوں اور منظروں کا نام ہے جب ظلم و تشدد کے شعلے بھڑکتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی زد میں کون ہے اور کس مذہب اور فکر کا پیرو کار ہے۔اصل میں ’’رام اوتار‘‘ اور’’ نصیر‘‘کی لاشیں صرف ان کی لاشیں نہیں بلکہ ساری انسانیت کی لاشیں ہیں اور انسان کا انسان سے مذہب کی بنا پر مختلف ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
افسانے کے آخر میں جب ان لاشوں کی شناخت ممکن نہیں ہو پاتی تو ان لاشوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔جس میں آدھے حصے جلا دئے جاتے ہیں اور آدھے دفن کر دئے جاتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ’’ نصیر ‘‘کے جسم کے حصوں کو بھی آگ میں جلا دیا گیا ہو اور ’’رام اوتار‘‘ کے جسم کے حصوں کو بھی دفن کردیا گیا ہو۔یعنی اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ’’ہم خواب‘‘ ہو جاتے ہیں۔
آصف اظہار علی کا ایک دوسر افسانہ’’بڑا شہر‘‘شہری زندگی کے ان پہلوئوں پر روشنی ڈالتا ہے ہوا نظر آتا ہے جہاں انسانیت زوال پزیر ہے۔یعنی ایک شہری انسان شہر میں تمام راحتوں اور آسائشوں کے ساتھ ساتھ بھی تنہائی کا شکار ہے جو اس کومضطرب کرنے میں ہمہ وقت سرگرمِ عمل ہے۔اس افسانے میں مصنفہ نے ایک اجنبی شخص کی لاش کا ذکر کیا ہے جو تیز رفتار ٹرین سے گر کر مر گیا ہے کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں ہے۔اس افسانے کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ لاش صرف ایک اجنبی آدمی کی نہیںبلکہ یہ آدمیت اور انسانیت کی لاش ہے جس نے شہری زندگی کی بھیڑ میںاپنی شناخت کھو دی ہے۔یہ انساینت کی ایسی لاش ہے جس کو لالچی لوگوں نے لوٹ لیا ہے اور اس کی پہچان کو ہی مٹا کر رکھ دیاہے۔
مصنفہ کا ایک اور شاہکار افسانہ’’اپنے گھر کا سورج‘‘ رضیہ اور طارق کی محبت کی کہانی ہے۔’’رضیہ‘‘ ایک متوسط طبقے سے وابستہ ہے ۔’’طارق‘‘ اس پر فریفتہ ہے۔لیکن ’’رضیہ‘‘ اپنے گھر کی ضروریات اور اپنے بھائی بہن کی تربیت اور تعلیم کے لئے اپنی خواہشات کو قربان کر دیتی ہے۔ایثار و قربانی کی جو مثال مصنفہ نے’’ رضیہ ‘‘کے مرکزی کردار کے ذریعہ پیش کی ہے وہ قاری کے ذہن و دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔مصنفہ کے مطابق ’’رضیہ‘‘ ایک سورج کی مانندہے جو خود جلتا ہے اور دوسرے کے زندگی میں روشنی بکھیردیتا ہے۔
آصف اظہار علی کا ایک اور افسانہ ’’سچائی‘‘بھی’’ سمیرہ ‘‘اور’’ عامر‘‘کی عشق کی داستان ہے۔جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں لیکن تقدیر انھیں ملنے نہیں دیتی ہے۔’’سمیرہ‘‘ کی شادی ایک ایسے شخص سے کردی جاتی ہے جو خود بھی کسی اور سے عشق کرتا ہے۔اس نے شادی کے بعد خود کو کاروبار میں مصروف کر لیا ہے۔اس طرح ان دونوں کے درمیان ایک خلا پیدا ہو گئی ہے۔یہ صرف ایک رسمی رشتہ بن کر رہ گیا ہے ۔پھر افسانے میں اس وقت نیا موڑ آتا ہے جب’’ سمیرہ‘‘ کی ملاقات ایک شادی میں’’عامر‘‘ کی بیوی بچوں سے ہوتی ہے تو اس کے دل کے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔وہ ’’عامر‘‘ کی ایک جھلک دیکھنا چاہتی ہے پر اس سے نہیں مل پاتی ہے اسی رنج و غم کے عالم میںوہ بیمار ہو جاتی ہے۔لیکن کہانی کے آخر میں اس کا شوہر ’’اقبال رضا‘‘اس کی خدمت میں دن رات ایک کر دیتا ہے۔یعنی اب وہ بدل چکا ہے ۔آخر کار یہ رسمی رشتہ ایک محبت کی فضا میں سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے اور اس طرح دونوں کی زندگی پھولوں کی طرح مہکنے لگتی ہے۔
الغرض مصنفہ کا افسانوی مجموعہ ’’پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا‘‘ بہترین افسانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ایک مختصر سے مضمون میں قلم بند نہیں کیا جاسکتا ہے۔آخر میں بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
’’سفینہ چاہئے اس بحر بے کراں کے لئے‘‘
سکریٹری انجمن اردوئے معلی
شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
موبائل:9358856606

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular