Wednesday, May 8, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldالوداعیہ تقریب ایک تاثر

الوداعیہ تقریب ایک تاثر

محمد انوار رضا ارشد

ہماری یونیورسٹی خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی میں بی اے سال دوم اور ایم اے سال اول کے طلباء نےبی اے سال آخر اور ایم اے سال آخر کے لیئے ایک الوداعی تقریب مورخہ ۲۶ُٓٓاپریل ۲۰۱۸ کو انعقاد کیا ۔جس میں صدر شعبئہ اردو پروفیسر ڈاکٹر سید شفیق اشرف نے اپنے صدارتی خطبے سے ہمارے اندر روح پھونک دی ہمیں انھوں نے اس کائنات میں آگے بڑھ کر کچھ کرنے کا حوصلہ دیا صدر شعبہ نے ہم طلباء کرام کو استقلال ثبات قدمی اور صبر وقناعت جیسے الفاظ کے رو سے صحیح معنوں میں روشناش کرایا ۔ جب میں نے اس یونیورسٹی میں قدم رکھا تھا توچاروں طرف اجنبیت کی فضا ہموار تھی یہاں کے درودیوار مجھ میں غیریت کا احساس پیدا کر رہے تھے پر اس اجنبیت کو ،ڈاکٹر ثوبان سعید جیسے اصول پسند انسان ا، ڈاکٹر فخر عالم جیسے ماہر لسانیات، ڈاکٹر سبط حسن نقوی جیسے نرم دل نقاد، ڈکٹر اکمل شاداب جیسی بے باک شخصیت ، ڈاکٹر اعظم ج انصاری جیسے قائد اور گوہر شناش ،، ڈاکٹر مرتضی علی اطہر جیسے مخلص استاد، اور ڈاکٹر عبدالحق ڈاکٹر رضوان جیسے سادہ مزاج اور نثری صلاحیت کے مالک ا ن سبھی ساتذہ نے میری اس اجنبیت کوپتہ ہی نہیں کب ختم کردیا اس کا احساس بھی نہ ہو سکا اور اپنائیت کا اسیر کردیا انھوں نے ہماری ہر ممکن مدد اور ہماری حوصلہ افزائی کی انھوں نے تعلیمی فرائض کے علاوہ ہم سے برادرانہ روش کی وہ شمع جلائی جو ہمارے تمام تاریکیوں کو ایک لمحے میں ڈنس گئی ۔لغزشیں تو ہمارا مقدر ہے مگر ان لغزشوں پر اس خوش اسلوبی سے باز پرس کی گئی کہ نہ تو اسکی تلخی کا احساس ہو اور نہ سختی کا بلکہ یہ ایک شیریں کھونٹ بن گیا کہ جس سے ہوش ٹھکانے آگئے ۔اساتذہ نے ہمیں ہماری غلطیوں پر اصلاح دیتے ہوئے ہمیں پیار سے سمجھایا ہمیںزندگی جینے کے اصول سکھائے ہمیں خدا کی اس کائنات میںآگے بڑھ کر کچھ کرنے کا جزبہ دیا اور کیوں نہ دیںاساتذہ پدر ثانی کے مثل ہوتے ہیں جس کے اندر تھوڑی سختی ہے تو تھوڑی نرمی یہ اساتذہ ہی ہیں جو باپ بھائی دوست جیسے مختلف کرداروں میں آکر ہماری مدد کرتے ہیں ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ ہم ماں باپ بھائی بہن جیسے عزیز لوگوں سے دور ہیں اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ خصلتیںپوری دنیا میں صرف اور صرف اساتذوں کے اندر ہوتی ہے ۔بقول اقبال استاذ ایک صنعت گر ہے جو انسانی روح کی صنعت گری کرتا ہے وہ کھوٹے سکے کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ سکہ رائج الوقت میں شمار ہو سکے وہ سمندر کی اتھاگہرائیوں میں جا کر سیپ سے موتی نکالنے کا کام کرتا ہے .
اساتذہ جہاں ان کمالات کے حامل ہوتے ہیں وہ ہماری زندگی کے روحانی ،مادی ، عقلی اورجزباتی پہلئوں کی تربیت بھی کرتے ہیں استاذہ ہمارے مستقبل کے وہ ستون ہیں جنکے اساس پر ہمارے مستقبل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے یہ اساتذہ کی کاوشوں کو ہی نتیجہ ہے کہ ہم ماں باپ کی عظمت اور انکی اہمیت کو صحیح معنوں میں پہجان پاتے ہیں ۔انکے حوصلہ پر الفاظ ہما رے سطح ذہن پر اس قدر نقش ہو جاتے ہیں کہ زندگی کے تاریک لمحوں میں یہ ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں ۔انکی عظمت و رفعت ،قدر وقیمت کو بیان کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے اس تقریب میں ہمارے سینئیر ساتھی منور حسین نے نہایت ہی خوبصورت انداز میںنظامت کے فرائض انجام دیئے وحید نواز ا،محمد احمد ،شاہ جہاں ،سرور امام ححفیظ الرحمان اور دیگر ساتھیوںکے دل کو چھو جانے والے تاثرات سننے کا ملا ۔ اس ناچیز نے بھی ٹوٹے پھوٹے لب و لہجے میں اپنا تاثر پیش کیا ۔ دل اس درجہ غمزدہ تھا کہ میں اپنے روحانی پیشوائوں کے سامنے اپنے احساسات کو زبان نہ دے سکا دل رنجیدہ تھا آنکھیں نم تھیں میں اپنے ساتھیوں کا ٹھیک سے دیدار بھی نہ کر سکا میری دلی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ جسکو قلمبند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن حق ادا نہیں کر سکتا در اصل یہ لمحہ ہی اس قدر دردو الم کا ہوتاہے کہ میںتو کیا سخت پتھر دلوں سے بھی چشمے پھوٹ پڑے،یہ میری خوش قسمتی ہے کہ سنگ تراشوں نے اس نااہل پتھر پر کچھ تصویریں بنائی جو شاید مستقبل میں کوئی تاریخی شکل اختیار کر سکے
خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی ۔یو نیورسٹی لکھنؤ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular