Friday, May 10, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاعظم گڑھ اور ناموران اعظم گڑھ کے نام

اعظم گڑھ اور ناموران اعظم گڑھ کے نام

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 زبیر عالم
آج ہم اعظم گڑھ اور اس ضلع سے وابستہ نامور افراد خصوصاً فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے افرادکی حیات و خدمات پر گفتگو کریں گے۔اتر پردیش کے مشرقی حصے میں واقع اعظم گڑھ ضلع کو مختلف حوالوں سے جانا جاتا ہے۔تمسا ندی کے کنارے بسے اس شہر نے دنیا کو گونا گوں شخصیات سے متعارف کرایا ہے۔کم و بیش علوم و فنون کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کے کارنامے اس شہر کی نیک نامی میںاضافے کا سبب بنے۔
اعظم گڑھ ملک کے دیگر حصوں سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔یہاں کا سب سے قریبی ریلوے اسٹیشن اعظم گڑھ ہے جو ملک کے سبھی بڑے شہروں سے سیدھے طور پر جڑا ہوا ہے۔اسی طرح سڑک کے راستے بھی یہ شہر ملک کے دیگر حصوں سے جڑا ہوا ہے۔یہاں کا سب سے قریبی ہوائی اڈہ بنارس میںلال بہادر شاستری ہوائی اڈہ ہے جو کہ یہاں سے تقریباً سو کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔بنیادی طور پر یہ ضلع زراعتی ہے تاہم یہاں ابتدا سے ہی ایسے پرحوصلہ افراد رہے ہیں جنھوں نے ملک اور غیر ملک کے طول و عرض میں قسمت آزمائی کے لیے ہجرت کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ضلع سے جڑ ے ہوئے بہت سے کامیاب افراد کم و بیش دنیا کے ہر حصے میں اپنی خوبیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔موقع کی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صرف ان فن کاروں کی خدمات کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جن کا تعلق اعظم گڑھ سے ہے ۔تو آئیے ہم ان فن کاروں کی زندگی اور ان کے کارناموں کو پوری توجہ کے ساتھ ملاحظہ کریں۔
مجروح سلطان پوری
(ولادت یکم اکتوبر۱۹۱۹  ۔  وفات ۲۴ مئی ۲۰۰۰)
مجروح سلطانپوری کے نام سے مشہور اس شاعر کی ولادت اعظم گڑھ کے نظام آباد میں ہوئی تھی۔مجروح کا اصل نام اسرالحسن خان تھا اور یہ پیشے سے طبیب تھے۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ مجروح کو صف اول کے غزل گو شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ ترقی پسند دور میں غزل کو لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ اس دور میں نظم نگاری کوخاص طور پر پسند کیا گیا۔یہ کہا گیا کہ غزل اپنے روایتی ڈھانچے کے سبب نئے اور انقلابی خیالات کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔مجروح نے اپنی غزلوں کے زریعہ اس خیال کو باطل ٹھہرایا اور غزل کے اندر ہر قسم کے خیالات کو نظم کر کے یہ بتا دیا کہ تخلیقی ذہانت سے سخت زمینوں میں بھی زرخیزی پیدا کی جا سکتی ہے:
 ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
 میں اکیلا ہی چلا تھا  جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروح
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
شب انتظار کی کشمکش میں،نہ پوچھ کیسے سحرہوئی
کبھی ایک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
مذکورہ بالا اشعار مجروح کی شاعرانہ خصوصیات کی نمایاں مثال ہیں۔ایک زمانے تک یہ خیال غالب رہا کہ فلم کے لیے نغمہ لکھنے والا شاعر سنجیدہ شاعری میں تا دیرقدم جمائے نہیں رکھ سکتا۔معترضین کے بقول چونکہ فلمی نغمے وقتی ضرورت کے تحت لکھے جاتے ہیں اس لیے ان میں دیر پائی مفقود ہوتی ہے اور جو شاعر اس قسم کی نغمہ نگاری سے منسلک ہوتے ہین ان کی ادبی شناخت ماند پڑ جاتی ہے۔مجروح نے اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا۔ان کی پوری عملی زندگی اس خیال کی تردید معلوم ہوتی ہے ۔تقریباً چھ دہائیوں تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے مجروح نہ صرف فلمی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے بلکہ ادبی حلقوں میں بھی ہمیشہ زیربحث رہے۔فلموں کے لیے لکھتے وقت مجروح نے فنی سروکاروں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ۔سنجیدہ اور بامعنی نغمہ نگاری کی روایت میں مجروح کی نغمہ نگاری کو خشت اول کہا جا سکتا ہے۔
متعدد کامیا ب فلموں کے نغمہ نگار مجروح کو ان کی نغمہ نگاری کے لیے لاتعداد انعام حاصل ہوئے جن میںدادا صاحب پھالکے جیسا باوقار ایوارڈ بھی شامل ہے۔بہت سے موسیقی کاروں کے ساتھ مجروح کی جوڑی کامیابی کی منزلوں سے ہم کنار ہوئی ۔ان کے چند مشہور نغموں کے بول ملاحظہ ہوں:
تجھے کیا سنائوں میں دلربا،ترے سامنے میرا حال ہے
تیری اک نگاہ کی بات ہے،میری زندگی کا سوال ہے
(فلم: آخری دائو)
کوئی جب راہ نہ پائے ،میرے سنگ آئے
کہ پگ پگ دیپ جلائے میری دوستی میرا پیار
(فلم: دوستی)
میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو
آئی رت مستانی کب آئے گی تو
بیتی جائے زندگانی کب آئے گی تو
چلی آ تو چلی آ
(فلم: آرادھنا)
ہے اپنا دل تو آوارہ
نہ جانے کس پہ آئے گا
(فلم: سولہواں سال)
رہیں نا رہیں ہم مہکا کریں گے
بن کے کلی بن کے صبا باغ وفا میں
(فلم: ممتا)
پیار دیوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتا ہے
ہر خوشی سے ہر غم سے بیگانہ ہوتاہے
(فلم: کٹی پتنگ)
یہ اور اس قسم کے نہ جانے کتنے نغمات ہیں جو کہ ہماری شب و روز کی زندگی کے تجربات سے ہم آہنگ ہو کر مختلف اوقات میں ہماری ذہنی و جذباتی آسودگی کا سامان بنتے ہیں۔ایسے البیلے شاعر کو وقت نے ہم سے دور کر دیا لیکن یہ دوری صرف جسمانی ہے،روحانی نہیں۔ان کے نغمے ہمارے لیے ہمیشہ بطور یادگار زندہ و تابندہ رہیںگے۔
کیفی اعظمی
(ولادت:جنوری ۱۹۱۹  ۔  وفات:۱۰ مئی ۲۰۰۲)
سید اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی کی ولادت اعظم گڑھ کے میجواں میں ہوئی تھی۔کیفی نے غزل گوئی سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں مشاعروں کے مقبول شاعر بن گئے۔ترقی پسند تحریک سے باقاعدہ طور پر جڑے رہے۔بائیں بازو کی جماعت کے فعال رکن تھے ۔۱۹۴۳ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کل وقتی رکن بنائے گئے۔مختلف عملی جد وجہد سے گزرتے ہوئے کیفی نے ممبئی تک کا راستہ طے کیا۔بائیں بازو کے نظریات سے جڑے ہونے کے باوجود بھی کیفی نے اپنی شاعری کوپرو پیگنڈے سے بچایا۔آوارہ سجدے،آخری شب،سرمایا،کیفیات اور نئے گلستاں ان کے اہم کارنامے ہیں۔کیفی اعظمی ان چنندہ فن کاروں میں ہیں جنھوں نے پہلے ادبی پہچان بنائی اور پھر فلمی دنیا میں قدم رکھا اس لیے ان کا نام بھی مجروح ،ساحراور شکیل کے ساتھ لیا جاتا ہے کیوں کہ یہ وہ نغمہ نگار گزرے ہیں جنھوں نے شاعری کے خصائص کو ملحوظ رکھتے ہوئے نغمہ نگاری کا فریضہ انجام دیا ہے۔
کیفی اعظمی نے فلمی دنیا میں بہ حیثیت نغمہ نگار قدم رکھا مگر بہت جلد وہ مکالمہ نگار اور دوسری حیثیت سے بھی مشہور ہو گئے۔ایس ڈی برمن کے ساتھ مل کر انھوں نے اپنا پہلا نغمہ ’’بزدل‘‘فلم کے لیے لکھا۔ایک قلم کار کے طور پر انھوں نے یہودی کی بیٹی،پروین،مس پنجابی میل اور عید کا چاند جیسی فلموں سے نام حاصل کیا۔مکالمہ نگار کی حیثیت سے انھیں ’’ہیر رانجھا‘‘ اور ’’گرم ہوا‘‘ سے بہت شہرت حاصل ہوئی۔جنگ کے پس منظر میں بنی دو فلموں’’ کاغذ کے پھول‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ کے حوالے سے کیفی اعظمی کو بہت سراہا گیا۔
پدم شری سے نوازے گئے اس فن کار کو اس کے علاوہ بھی بہت سے دوسرے انعام و اعزاز حاصل ہوئے۔’’آوارہ سجدے‘‘کے لیے انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا۔وشوا بھارتی یونیورسٹی  نے انھیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔کیفی صاحب تقریباً اسی سال کی عمر میں اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ ان کی غزلوں اور نغموں سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں
اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں کدھر گئیں
شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے
وہیں تھم کے رہ گئی ہے مری رات ڈھلتے ڈھلتے
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں
اب تمہارے حوالے ہے وطن ساتھیوں
ملے نہ تم تو ہم گھبرائیں
ملے جو تم تو آنکھ چرائیں
ہمیں کیا ہوگیا ہے،ہمیں کیا ہوگیا ہے
شبانہ اعظمی
(ولادت:۱۸ ستمبر۱۹۵۰)
شبانہ اعظمی فلمی دنیا کا معروف نام ہے۔ کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی کی بیٹی نے اپنی سنجیدہ اداکاری سے ایک بڑے طبقے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور مسلسل اپنے ناظرین کو اپنی اداکاری کی مختلف جہات سے لطف اندوز کیا۔پونے کے فلم اور ٹیلی ویزن انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم یافتہ شبانہ نے اپنے فلمی سفر کا آغازہندوستانی سنیما کے ایک نئے رحجان  متوازی سنیما(parellel cinema ) سے کیا اور یوں ان کی پہلی فلم گہرے سماجی سروکارسے مکالمہ کرتی ہے۔بنیادی طور پر متوازی سنیما کی تحریک بنگالی فلم سازوں کے ذریعہ وجود میں آئی تھی اور پہلی بار کمرشیل فلموں کے متوازی سماجی سروکاروں کوا جاگر کرنے کی کوشش کی گئی ۔شبانہ کو ہندوستان کی بہترین اداکارہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
پانچ بار نیشنل ایوارڈ برائے بہترین اداکارہ،چار بار فلم فیئر ایوارڈ اور کئی بین الاقوامی انعام و اعزازات شبانہ کی صلاحیت کا اعتراف ہیں۔عورتوں کے حقوق کی بازیافت کے لیے ان کے ذریعہ کیے گئے کاموں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شبانہ کو صدر جمہوریہ کی طرف سے راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا جا چکا ہے۔
شیام بینیگل کی فلم ’’انکر‘‘ سے ناظرین کی توجہ کا مرکز بنیں شبانہ نے اس کے بعد ارتھ،پار،کھنڈر،منڈی،گاڈمدر،نشانت،جنون،امر اکبر انتھونی،پرورش اور جوالہ مکھی وغیرہ میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ۔۱۹۸۳ سے ۱۹۸۵ تک انھوں نے لگاتا ر تین فلموں ارتھ،کھنڈر اور پار کے لیے نیشنل فلم ایوارڈ حاصل کیا۔’’منڈی‘‘ میں انھوں نے ایک کوٹھے کی مالکن کا کردار ادا کیا۔دیپا مہتا کی فلم’’واٹرـ‘‘ میں انھوں نے نندتا داس کے ساتھ ہم جنسیت کے موضوع پر کام کیا۔
سماجی کارکن کی حیثیت سے شبانہ آج بھی متحرک ہیںخصوصاً فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے سلسلے میں لگاتار مختلف قسم کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتی ہیں۔ممبئی فسادات کے بعد انھوں نے دونوں فرقوں میں ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے کام کیا۔قومی یکجہتی کونسل کی رکن کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات اہم ہیں۔شبانہ اعظمی اگرچہ اس وقت پردے سے دور ہیں مگر مختلف قسم کی سرگرمیوں کے ذریعہ سماجی خدمات کا فریضہ انجام دے رہی ہیں اوراس بات کی مصداق ہیں کہ:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
   اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
��
جے این یو،،نئی دہلی
موبائل نمبر۔ 9968712850
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular