Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاسلامی نہیں پاکستانی تعلیمات کی میزبانی

اسلامی نہیں پاکستانی تعلیمات کی میزبانی

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو برس سے ہندوستان کی بحریہ کا ایک افسر کل بھوشن جادھو پاکستان کی قید میں ہے ان کے اوپر جاسوسی اور دہشت گردی کا الزام ہے۔ جادھو کی ماں اور بیوی کوشش کررہی تھیں کہ پاکستان جاکر ان کو دیکھ لیں پاکستان کی طرف سے کہا گیا کہ ان کے قائد اعظم محمد علی جناح کی یوم پیدائش کے پرمسرت موقع پر پاکستان یہ ملاقات کرا رہا ہے۔ اس ملاقات کو اسلامی تعلیمات سے بھی جوڑ دیا گیا۔
جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس کا مسٹر جناح سے کوئی تعلق نہیں ان کی پوری زندگی میں اسلامی تعلیمات کی کوئی جھلک نہیں ملتی نہ انہوں نے اپنی صورت اسلامی بنائی اور نہ سیرت اور نہ انہوں نے اسلام کے لئے پاکستان بنایا تھا وہ تو صرف اپنے کو تاریخ میں ایک نیا ملک بنانے والا درج کرانا چاہتے تھے اور وہ انہوں نے کرالیا۔ اگر اسلامی تعلیمات کا معمولی سا اثر بھی ان کے اندر ہوتا تو تقسیم کی لکیر کھینچنے سے پہلے ہی جو مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا تھا وہ اعلان کردیتے کہ میں اسلام کیلئے ملک چاہتا ہوں مسلمانوں کی لاشوں کے لئے نہیں۔ اور انہوں نے صرف اپنے نام کے لئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرادیا۔
اسلامی تعلیمات کا سب سے پہلا نمونہ صلح حدیبیہ ہے جس میں بانیٔ اسلام حضرت محمدؐ خود تشریف فرما تھے مصالحت کفار سے ہورہی تھی۔ کئی معاملات طے ہونے کے بعد صلح نامہ لکھنے کا وقت آیا تو حضور اکرمؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ صلح نامہ لکھو۔ املا کراتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم بولا اس پر کافروں کے نمائندے نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ رحمن کیا ہے آپ یوں لکھئے بِاسمِکَ اللھمّ اے اللہ تیرے نام سے۔ نبیؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو اس کے بعد آپؐ نے فرمایا یہ وہ بات ہے جس پر محمدؐ الرسول اللہ نے مصالحت کی اس پر مخالف نے کہا کہ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ آپ کو بیت اللہ سے روکتے اور نہ جنگ کرتے لہٰذا آپ محمدؐ بن عبداللہ لکھوائیں آپؐ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم لوگ جھٹلائو۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمدؐ بن عبداللہ لکھو اور لفظ رسول اللہ مٹادو لیکن حضرت علیؓ نے گوارہ نہ کیا کہ اس کو مٹائیں لہٰذا حضوؐر نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا۔
یہ ہے اسلام کی تعلیم۔ پاکستان نے جب ایک ماں کو اس کے بیٹے سے اور بیوی کو اس کے شوہر سے اپنے قائد اعظم کے یوم پیدائش کے موقع پر ملنے کی اجازت دی تو وہ دونوں پاکستان کے مہمان ہوگئے اور اکرام ضعیف اسلام کی پہچان ہے۔ یہ بات ذہن میں رہنا چاہئے کہ جس بیٹے سے اس کی ماں اور شوہر سے اس کی بیوی ملنے کے لئے دشمن ملک جارہی ہے تو ہندوستان جیسے بہت بڑے ملک تو کیا پاکستان جیسے چھوٹے ملک کی حکومت بھی کوئی ایسی چیز انہیں نہ دیتی جس کے ظاہر ہونے سے وہ دونوں بھی وہیں روک لی جائیں اور نہ ماں یا بیوی یہ سوچ سکتی تھیں کہ وہ اپنے بیٹے اور شوہر کی پریشانی میں اضافہ کریں؟
ماں بیٹے کی یہ ملاقات جس کے درمیان میں شیشے کی دیوار کھڑی ہو اور مشین کے ذریعہ ایک دوسرے کی آواز سن رہے ہوں ملاقات تو نہیں کہی جاسکتی ملاقات تو ملنے کو کہتے ہیں اگر سب کے سامنے بیوی اپنے شوہر سے گلے نہ ملتی تو ماں کو تو اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو گلے سے لگانے کا موقع دینا چاہئے تھا۔ جو کچھ اسلام آباد میں ہوا اور جس طرح ہوا وہ تو اگر ماں اور بیوی ہندوستان میں رہ کر باتصویر ٹیلیفون سے بات کرلیتی تب بھی یہ ہوجاتا۔ میرے بیٹے مدینہ میں ہیں پوتی بحرین میں ہے وہ جب بات کرتے ہیں تو وہ مجھے دیکھتے ہیں اور میں انہیں۔ پھر یہ کون سی اسلامی تعلیم تھی کہ ایک غیرعورت اور ایک بزرگ خاتون کے کپڑے بدلوائے بیوی کے گلے سے وہ منگل سوتر جو ہندو بیوی کے سہاگ کی علامت ہے اور وہ شادی کے بعد گلے سے نہیں اتارا جاتا اسے بھی دوسرے زیور کے ساتھ اتروایا اور انتہا یہ ہے کہ جوتے اترواکر چپل پائوں میں ڈالے کیا یہ مہمان نوازی تھی یا اپنے گھر بلاکر ذلیل کرنا تھا؟
ہمیں اعتراف ہے کہ ہم اس وقت بھی پاکستان کے مخالف تھے جب مسلمان پاگلوں کی طرح اسے بنانا چاہ رہے تھے اور زندگی میں 1952 ء میں صرف ایک بار گئے تو کھدر کے کپڑے اور ایسی ٹوپی سر پر تھی جو ہمیشہ پہنی جس کو لوگ گاندھی کیپ کہتے ہیں۔ اور وہاں دیکھا کہ ہمارے جو دوست عالیشان مکانوں میں رہتے تھے وہ لکڑی کے بنے ہوئے کیبن میں ایسے رہ رہے ہیں جس میں ہم نے کبھی اپنی مرغیوں کو بھی نہیں رکھا۔ اور آج بھی کچھ ایسے ہیں جو مہاجر ہونے کی وجہ سے کچھ سنبھل گئے کچھ بھاگ آئے اور کچھ پنجابی اور سندھی نفرت کو برداشت کررہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت کے افسر اس ملاقات کو جو بھی عنوان دیتے انہیں اسلامی تعلیمات کا نام دینے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ پاکستان کا پہلے دن سے آج تک کوئی صدر اور کوئی وزیراعظم ایسا نہیں ہوا جسے اسلام کا نمائندہ کہہ سکیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بانی مسٹر جناح کو پاکستان کا وکیل تو کہہ سکتے ہیں اسلام کا نمائندہ نہیں انہوں نے خود ایک غیرمسلم سے شادی کی ان کی اکلوتی بیٹی نے ایک پارسی سے شادی کی اور آج جناح صاحب کے نواسے کہتے ہیں کہ ہمارے نانا کی جائیداد میں اسلامی شریعت کے اعتبار سے ہمارا حصہ نہ دیا جائے ہم مسلمان نہیں بورے خوجے ہیں۔ اس کے بعد ہر مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ جناح صاحب کے ماننے والوں نے اسلامی تعلیمات پر کتنا عمل کیا ہوگا؟
اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جب صلح نامہ لکھا جارہا ہے تو اللہ کو رحمن ماننے سے انکار کردیا تو اسے بھی قبول کرلیا اور جبکہ اختلاف ہی یہ تھا کہ میں اللہ کا رسولؐ ہوں اور کفار کہتے تھے کہ نہیں ہیں تو مصالحت کے احترام میں نبی کریمؐ نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹانا گوارہ کرلیا اور یہ پاکستان کی اسلامی تعلیم ہے کہ مہمان خواتین کے زیور اور جوتے تک اتروالئے اور جتنا بھی اسلام کی تعلیم کو داغدار کرنا تھا کردیا جبکہ میزبانی یہ تھی کہ کسی قابل اعتراض چیز کا علم بھی ہوجاتا تب بھی اسے نوٹ کرلیتے اور مہمانوں کے جانے کے بعد ہندوستانی ہائی کمشنر سے کہہ دیتے۔
خخخ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular