Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاردو دوست بشن کپوراکبر آبادی

اردو دوست بشن کپوراکبر آبادی

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

ڈاکٹر محمد ہارون رشید
بشن کپور ،ایک ایسا نام جس نے اپنی پوری زندگی بے باک ،بے خوف اور ایماندارانہ صحافت کے لئے وقف کر کھی تھی ۔ ہفتہ وار ’’بلٹز‘‘ کے بیورو چیف کی حیثیت سے صحافت کو وہ معیار اور وقار عطا کیا جس کے لئے آج دنیائے صحافت کو ان پر ناز ہے۔بشن کپور ایک صحافی کے ساتھ ساتھ اردو دوست بھی تھے۔بزم اردو کی محفلیں ان کے گھر پر جمتی تھیں ۔ نظیر اکبرآبادی سے ان کا روحانی تعلق تھا۔وہ نظیر اکبرآبادی کے نام سے ایک اکیڈمی بھی بنانا چاہتے تھے۔اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کی تحریک میںوہ برابر کے شریک تھے۔بشن کپور کے والد رامیشور ناتھ کپور لکھنؤ میںریلوے کی ملازمت چھوڑ آگرہ میں بس گئے تھے لیکن بشن کپور ۱۹۶۳ء میں آگرہ سے پھر لکھنؤ آگئے اور اس دائرہ کو مکمل کیا جس کا نقطہ ٔ آغاز ان کے والد نے رکھا تھا۔ان کی کتابیں’’بیڈ مین اینڈ بیڈ لینڈس‘‘اور گلمسز آف آگرہ‘‘(آگرہ درپن) بہت مشہور ہیں۔
 ریاست اتر پردیش کے تاریخی شہر آگرہ کے مائی تھان محلے میں تین بھائیوں میں منجھلے بشن کپور کی پیدائش ۲۴؍اکتوبر ۱۹۲۴ء میں ہوئی۔یہ وہی مائی تھان محلہ ہے جہاں ان کی پیدائش سے تقریباً دوسو سال پہلے اردو کے مشہور عوامی شاعر ولی محمدنظیرؔاکبرآبادی جوہری راجہ بلاس راؤ کے بچوں کو پڑھانے اپنے محلے تاج گنج سے جایا کرتے تھے۔ یہ ایسا محلہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ایسی تنگ گلیاں دنیا کے کسی شہر یا گاؤں میں نہیں ہوں گی۔والد کا نام رامیشور ناتھ اور والدہ  کا نام روپ وتی تھا۔رامیشور ناتھ لکھنؤ کے محلے معالی خاں سرائے کے رہنے والے تھے ۔بعض وجوہ کی بنا  پر وہ ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر آگرہ میں چلے گئے اور وہاں ایک جونیر ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے اور وہیںکے ہو گئے۔ریٹائر منٹ کے بعد وہ آگرہ کے محلے شیتل گلی میں رہنے لگے اور بچوں کو ٹیوشن دینے لگے ۔
یہی شیتل گلی وہ محلہ ہے جہاں جانے مانے کانگریسی رہنما بیج ناتھ شرما ایڈوکیٹ رہا کرتے تھے ۔بیج ناتھ ایڈوکیٹ کے فرزند کاشی ناتھ شرما اور بشن کپور پہلے دوست بنے اور پھر ہم سبق۔سینٹ جونس ہائی اسکول اور پھر سینٹ جونس کالج۔آئیل مل میں کمیونسٹ پارٹی کی مضبوط ٹریڈ یونین تھی۔شہر کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز یہی شیتل گلی تھی۔کانگریس کے سارء جلوس  یہیں سے شروع ہوتے ۔شیتل گلی کے تعاون کے بغیر ان جلوسوں کی کامیابی ممکن نہیں تھی۔ بہر حال بشن کپور اور کاشی ناتھ سیاسی طور پر ہمیشہ متحرک رہے اور کمیونسٹ تحریک سے وابست ہ ہو گئے۔
سینٹ جونس کالج کا راستہ باغ مظفر خاں سے ہو کر جاتا تھا۔اس طرح سے وہاں کے سوشنگے راگھو جی سے بھی دوستی ہو گئی۔مدن منوہن دروازہ شیتل گلی سے لگا رہتا ایک محلہ تھا جہاں راجیندر رگھونشی رہتے تھے اور ان کا خاندانی راجپوت پریس بھی تھا۔اسی پریس میں ’’بھارت چھوڑوآندولن‘‘ کے دوران بشن کپورکا انگریزی میں لکھا پرچہ چھپا تھا جس میں انگریز سرکار کے لئے ’’الائن‘‘لفظ کا استعمال کیا گیا تھا  ۔چنانچہ پریس کے مالک راجیندر سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔ْتھوڑی ہی دوری پر نوری دروازہ تھا جو کبھی بھگت سنگھ اور دوسرے انقلابیوں کا مرکز تھا وہیں بشن سنگھ پٹیل رہا کرتے تھے۔دھیرے دھیرے کمیونسٹ ساتھیوں کی دنیا بڑھتی گئی اور مذکورہ لوگوں کے علاوہ اس کارواں میں نارائن ٹنڈن،عبدالحفیظ،بشن کھنہ،سرجیت کور،پدم کمار،بگالی جین۔ بی پی شکل،وی جی پوتاڑے، کاشی چرن پانڈے،رام ولاس شرما وغیرہ شامل تھے۔
بشن کپور کی صحافتی زندگی کا آغاز ’’سندیش‘‘ اخبار سے ہوئی جو کالی چرن پانڈے نکالتے تھے۔پھر کرشن دت پالیوال کے ’’سینک‘‘ میں گئے۔اس درمیان وہ برابر پارٹی کے کاموں میں بھی سرگرم رہے۔ترقی پسند مصنفین اور اپٹا کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔غلام ہندوستان میں بشن کپور کو بھی ان تمام تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔جیل گئے۔بھوک ہڑتال کی،۔ماں اور بھائی کے بھوک ہڑتال توڑنے کے لئے کہے جانے پر کہہ دیا کہ میں اپنے اصولوں کو نہیں چھوڑ سکتا۔یکم مئی ۱۹۴۹ء کی ریل ہڑتال میں وہ بہت سرگرم تھے اور ۱۹۵۰ء کے بعد مصطفی کارٹس ،آگرہ کینٹ میں ریلوے دفتر میں رہے۔
چاچی کملا کپور کا مائکہ باغ مظفر خاں کی کھتری گلی میں تھا بعد میں بشن کپور اپنے کنبے کے ساتھ داؤ والی گلی میں رہے۔جب تک کہ لکھنؤ میں بلٹز کے بیورو چیف نہیں ہو گئے۔اگرچہ آگرہ میں بھی وہ ’’بلٹز‘‘ کے نامہ نگار تھے۔ہندوستان ٹائمز کے بھی وہ نامہ نگار رہے۔
۱۹۵۰ء کی دہائی میں آگرہ میں انگریزی صحافت کے میدان میں صرف چار لوگ ہی سرگرم تھے ،تھامس اسمتھ،بشن کپور،نریش بہاری ماتھر اورشو کاری سنگھ سیٹھ۔مرحوم سیٹھ کے فرزند نرنکاری سنگھ سیٹھ نے ان کی جگہ پر کام کرنا شروع کیا۔اسی طرح بشن کپور کی وراثت کو ان کے فرزندان پردیپ کپور اور سشیل کپور نے سنبھالا۔بشن کپور کے چھوٹے بیٹے پردیپ کپور بھی ایک صحافی ہیں اور ایک عرصے تک وہ بھی  بلٹز سے وابستہ رہے۔اردو دوستی اور انسانیت پسندی انھیں اپنے والد سے ورثے میں ملی ہے۔ان کے والد نے بھی کھوجی صحافت میں اپنا نام روشن کیا اور کئی تاریخی کارنامے انجام دے گئے ۔پردیپ کپور نے بھی ان حالات میں جا کر رپورٹنگ کی کہ جن حالات کے بارے میں سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے۔پردیپ کپور نے بتایا کہ جب بارہ بنکی پیر بٹاون کی عید گاہ میں گولی چلائی گئی تو وہی تھے جنھوں نے  وہاںکا دورہ کر کے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور سرخی لگائی’’عید گاہ جو قتل گاہ بن گئی‘‘اسی طرح سے  بابری مسجد کا تالہ کھلنے کے بعد جب میرٹھ کا دنگا ہوا تو وہ ان علاقوں میں گئے جہاں متاثرین کی بڑی تعداد تھی پہلے انہیں انتظامیہ نیء منع کیا لیکن وہ نہیں مانے اور مسلمانوں سے ملے اور جب انھیں بتایا کہ وہ پردیپ کپور ہیں اور بلٹز میں لکھتے ہیں تو تمام مسلمانوں نے انھیں اپنا سچا ہمدرد سمجھتے ہوئے اپنا درد کھل کر بیان کیا۔
بشن کپور نے ہندوستان ٹائمز کے لئے جاسوسی صحافت بھی کی ۔پارٹی سے تعلق کی بنا  پر ان کے رسوخ دور تک تھے جس کے سہارے وہ شمس آباد پھر راجکھیڑا تک ہوئی ۔بشن کپور کو ڈاکووں کا اسپیشلشت مانا جانے لگا۔ان کی کتاب‘بیڈ مین انڈ بیڈ لینڈس‘‘ بہت مشہور ہوئی۔باغ مظفر خان کے مہروترا صاحب کے ذریعہ سے بشن کپور آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ تک پہونچے اور تاریخی مقامات کے جانکار بن گئے۔نتیجتا ان کی کتاب ’’گلمسیزآف آگرہ‘‘ منظر عام پر آئی جس میں آگرے کا ماضی بھی ہے اور حال بھی۔بعد میں یہ ’’آگرہ درپن‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی۔سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے جب پہلی بار لکھنؤ سے انتخابی پرچہ بھرا اور انھیں مجاہد آزادی کہا گیا تو بشن کپور آگرپ گئے اور اور اپنے دوست کاشی ناتھ شرما کے تعاون سے ۱۹۴۲ء کے ’’بٹیشور آندولن’’ کی فائلیں کھنگالیں اور پھر رپورٹ آئی۔۱۹۴۲ء کا غدار۔ جس نے تہلکہ مچا دیا۔
آگرہ کے بشن کپور ۱۹۶۳ء میں واپس اپنے آبائی وطن لکھنؤ آگئے وہ یہاں اردو ہفتہ وار’’ بلٹز‘‘ میں بیورو چیف ہو گئے تھے۔یہاں ان کی دوستی اور نشست و برخواست لکھنؤ کے دانشوروں سے ہوئی جن میں اردو ہندی کے شعرا و ادبا کی ایک بڑی تعداد ہے ۔بالخصوص  افسانہ نگاررام لعل ،بشیشر پردیپ ان کے خاص دوستوں میں تھے۔چونکہ وہ ترقی پسند تحریک سے ہمدردی رکھتے تھے اس لئے جب بھی کوئی ترقی پسند ادیب یا شاعر لکھنؤ آتا تو ان کے گھر ضرور جاتا ۔ان میں علی سردار جعفری،کیفی اعظمی،راجیندر سنگھ بیدی،جاںنثار اختر،خواجہ احمد عباس ،مجاز لکھنوی وغیرہ خاص الخاص تھے۔لکھنؤمیں بشن کپور کا گھر اردو ادیبوں کا ایک اڈہ تھا جہاں اکثر و بیشتر بزم اردو کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ان محفلوں میں رام لعل،بشیشر پردیپ،عائشہ صدیقی،سلام صدیقی اور اردو کے ددوسرے ادیب شریک ہوتے تھے۔ان محفلوںکا سلسلہ ۱۹۶۴ء سے ۱۹۸۱ء تک قائم رہا۔کیفی اعظمی سے ان کا گہرا تعلق رہا تھا۔آگرہ ان کی جائے پیدائش تھی ۔بشن کپور کے بیٹے پردیپ کپور نے بتایا کہ میرے والدایک بے باک بے خوف صحافی تھے وہ کبھی کسی کے بھی خلاف سچ لکھنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئے ۔انھوں نے بتایا کہ والد صاحب آگرہ کے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی سے بہت متاثر تھے ۔ان کا نظیر سے ایک روحانی رشتہ تھا۔وہ ہر سال  بسنت پنچمی کے موقع پران کی مزار پرادبی و ثقافتی تقریب بھی کرتے تھے۔یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے ۔ان کی خواہش تھی کہ وہ نظیر اکبرآبادی کے نام سے ایک اکاڈمی بنائیں جس کے لئے ان کی متداول وزیر اعلی وشوناتھ پرتاپ سنگھ سے گفتگو بھی ہوئی تھی ۔پردیپ کپور نے کہا کہ ہم تو یہ چاہیں گے کہ موجودہ سرکار جو اردو کی ہمدرد سمجھی جاتی ہے وہ اس طرف سوچے اور نظیر اکبرآبادی جو ایک عوامی شاعر تھے ان کے یہاں ہندوستانی عناصر کی جس طرح نمائندگی ملتی ہے کسی اور اردو شاعر کے ہاں نہیں ہیں۔اس عوامی اردو شاعر کے نام سے ایک اکاڈمی قائم کرے ۔بشن کپور نظیر اکبرآبادی کے علاوہ مرزا غالبؔ کی یاد میں بھی ایک سالانہ جلسہ کرتے تھے اس کے لئے ایک تنظیم تھی جس کے وہ سکریٹری بھی تھے اس جلسہ میں مشاعرے اور مذاکرے وغیرہ کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا۔اردو سے ان کو اس قدر محبت تھی کہ وہ اردو کو دوسری زبان کا درجہ دلائے جانے کی تحریک میں بھی اپنے قلم اور اپنے عمل سے بھی برابر کے شریک تھے۔آگرہ میں قیام کے دوران وہ وہاں کے اردو کے ادیب اور شعرا کو نمایاں کرنے میں بھی اہم خدمات انجام دیتے تھے وہ ان کے بارے میں لکھتے اور اردو کے پروگرامز کو فوٹس کے ساتھ شائع کرنے پر خصوصی توجہ صرف کرتے تھے ۔ان کا ماننا تھا کہ زبان کسی خاص مذہب کی نہیں ہوتی۔اردوبھی کسی خاص مذہب کی زبان نہیں تھی ان کے بیٹے پردیپ کپور بھی یہی کہتے ہیں کہ اردو مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان ہے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اردو آزادی کے بعد ہندوستان میں اپنے سنہرے دور سے گذر رہی ہے ۔اردو اخبارات اور اردو چینلس کی تعداد میں اضافہ اسی لئے ہو رہا ہے کہ اردو کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔میری ہی طرح بہت سے غیر مسلم بھی اردو نہ صرف سیکھ رہے ہیں بلکہ اردو میں لکھ بھی رہے ہیں۔ اس زبا ن میں جو شیرینی اور اس زبان کی شاعری میں جو کشش ہے وہ دلوں کو کھینچتی ہے اور متاثر کرتی ہے۔
بشن کپور کا تھیٹر سے بھی گہرا لگاؤ تھا آگرہ میں قیام کے دوران وہ’’اپٹا‘‘ کے باقاعدہ ممبر تھے اور تنظیم کی سرگرمیوں میں برابر شرکت کرتے تھے۔لکھنؤ منتقل ہو جانے کے بعد بھی وہ اس تنظیم سے جڑے رہے۔۱۹۷۲ء میں اتر پردیش اپٹا کی ساتویں کانفرنس آگرہ میں ہوئی۔یہ وہ دور تھا کہ جب اپٹا کی قومی قیادت بکھر چکی تھی۔اس کانفرنس کی صدارت بشن کپور اور دھرم پال ساہنی نے مشترکہ طور پر کی۔ کیفی اعظمی بطور چیف گیسٹ اس کانفرنس میں شریک تھے اور مندوبین میں مشہور صحافی صفدر ہاشمی بھی شامل تھے۔بشن کپور کو اپٹا کا صوبائی صدر منتخب کیا گیا۔بشن کپور اور بابولال ورما کی کوششوں سے لکھنؤ میں اپٹا کا آٹھواں اجلاس عام منعقد کیا گیااور تب اپٹا کو ایک عوامی تحریک بنانے پر زور دیا گیا۔
۱۹۸۰ ء میں بشن کپور کا آگرہ میں عوامی استقبال کیا گیا جس میں صحافت،سیاست،تھیٹر،شاعری ،ادب اور سماج کی نمائندہ شخصیات موجود تھیں۔آخر عمر میںبشن کپور بلڈ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔پردیپ کپور کے مطابق۱۹۸۱ء میں کیفی امریکہ میں منعقدہ اردو کانفرنس سے لوٹے تو انھوں نے رام لعل سے ملاقات کر لکھنؤ میں بھی ایک اردو کانفرنس کرنے کی تجویز رکھی ۔بشن کپور بھی وہاں موجود تھے انھوں نے ڈاکٹرعمار رضوی جو اس وقت منسٹر تھے ان کو فون کیا وہ بھی آئے۔تجویز رکھی گئی اور اردو کانفرنس کے انعقاد کی تیاری شروع کر دی گئی۔ اس سلسلہ میں بات چیت اور میٹنگوں کا دور بھی شروع ہو گیا۔ ۷؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو اندرا نگر میںرام لعل کے گھر ’’اردو کانفرنس‘‘ کے سلسلہ میں ایک میٹنگ تھی وہاں سب بشن کپور کا انتظار کر رہے تھے۔آخر رام لعل کا فون آیا ۔پردیپ کپور نے فون رسیو کیا۔رام لعل نے کہا کہ کہ بشن کہاں ہیں ہم سب ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔پردیپ نے جواب دیا کہ پاپا اب کبھی نہیں آئیں گے ۔آج ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔پھر وہ میٹنگ تعزیتی جلسہ میں تبدیل کر دی گئی ۔
بشن کپور کی ۳۷ویں برسی کے موقع پر اردو میڈیا ہاؤس ساکیت پلی نرہی میں ’’اردو دوست‘‘ کی جانب سےوقار رضوی نے  ایک جلسہ کیا ، جس میں جسٹس حیدر عباس رضا،سابق ریاستی کابینہ وزیرراجندر چودھری،ڈاکٹر عمار ضوی،پروفیسر رمیش دیکشت ،پروفیسر وندنا مشرا،پروفیسر عباس رضا نیر، کے علاوہ شہر نگاراںکی دیگر نمائندہ شخصیات نے بشن کپور کی شخصیت ان کی صحافتی ادبی خدمات نیز ان کی اردو دوستی اور اردو نوازی کے حوالے سے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔بشن کپور کے انتقال کے بعد بلٹز نے پردیپ کپور کو بیورو چیف منتخب کر لیا تھا۔پردیپ کپور نے اپنے والد کی وراثت کو بخوبی سنبھالا اور ان کی اعلی انسانی ادبی صحافتی اور اخلاقی قدروں کے امین بن کر سامنے آئے۔
 Mobile-09956779708
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular