Saturday, May 4, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاجلاس کا تقاضہ اس سے کیا جائے جو اس کی اہمیت سمجھتا...

اجلاس کا تقاضہ اس سے کیا جائے جو اس کی اہمیت سمجھتا ہو

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نومبر ختم ہونے کو ہے یعنی اس سال کا بس ایک مہینہ باقی ہے اور پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا حکومت کے کسی وزیر کی زبان پر بھی ذکر نہیں ہے۔ حزب مخالف کے لیڈر غلام نبی آزاد اور آنند شرما نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم انتخابی مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ صرف یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اگلی ریلی میں کیا کہنا ہے اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ پہلے جو کہا تھا اس سے ووٹروں پر کتنا اثر ہوا؟ اب یہ بات زبانوں پر آرہی ہے کہ پارلیمنٹ میں جتنا کم کام اور جتنے کم دن اجلاس اس سال ہوا ہے اتنا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
ملک کے لیڈروں کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس وزیر اعظم پر موقوف ہیں۔ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے مودی جی کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ 13 برس گجرات کے وزیراعلیٰ رہے جہاں ہم نے دیکھا تو نہیں لیکن پڑھا اور سنا ہے کہ وہاں حزب مخالف کانگریس کو صرف شریک ہونے کی اجازت تھی بولنے کی نہیں اور جب اس کا لیڈر کوئی مطالبہ کرتا تھا تو اجلاس کے خاتمہ تک اپوزیشن کا اسمبلی میں داخلہ ممنوع کردیا جاتا تھا اور جو دکھانے کے لئے بل پاس کرنا ہوتے تھے وہ دو چار دن میں سب پاس کرالئے جاتے تھے۔
ہم نے اُترپردیش اسمبلی کے پہلے اجلاس سے اب تک ہونے والے ہر اجلاس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پڑھا اور سنا ہے۔ ابتدا میں جب اجلاس ہوتے تھے تو وہ موسم سرما، گرما، یا برسات کوئی بھی ہو مہینوں چلتے تھے اور ایک ایک بات پر دل کھول کر بحث ہوتی تھی۔ جو کوئی اسمبلی یا کائونسل کا ممبر ہوتا تھا وہ گھوم پھر کر کہیں نہ کہیں نظر آجاتا تھا۔ اور یہ بھی ہم نے دیکھا کہ اجلاس بلایا گیا اور گالی گلوج جوتا لات اور نعروں کے بعد اجلاس غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی ہوگیا۔
یہی حال پارلیمنٹ کا تھا کہ جو ممبر ہوتے تھے ان کا زیادہ وقت دہلی میں گذرتا تھا پارلیمنٹ کے ممبروں میں اس وقت بھی اپنے دوست رہے جب ان کی صورت اس لئے نظر نہیں آتی تھی کہ وہ اجلاس کی وجہ سے دہلی میں ہوتے تھے اور ایسے دوست بھی رہے جو ہمیشہ لکھنؤ میں گھومتے نظر آئے کیونکہ اجلاس شروع ہوا اور درمیان میں کوئی چھٹی آگئی اور چند روز کے بعد ختم ہوگیا۔ این ڈی اے کی حکومت جب پہلے بنی تھی تو وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی تھے۔ بلاشبہ وہ اپنی پارٹی کے سب سے بڑے مقرر تھے اور ان کا مزاج بھی جمہوری تھا انہوں نے اپنے اقتدار کے 6 سال میں ہر اجلاس کو پورا وقت دیا۔ وہ شریک بھی ہوتے تھے اور ہر سوال کا جواب دے کر حق ادا کرتے تھے۔
مودی جی کو جمہوریت سے صلح کرنا پڑرہی ہے ورنہ ان کا بس چلے تو وہ بجٹ اجلاس میں صدر کے خطبہ میں جو کرنا اور کہنا ہے وہ بتادیں اور صدر کے خطبہ پر سال بھر کی بحث مکمل کرکے آئندہ سال کے لئے رکھ دیں۔ دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ لوک سبھا کا اجلاس ہوتا رہتا ہے اور کئی کئی دن ان کی صورت نظر نہیں آتی اور وہ شاید ایسے اکیلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ سے باہر جاکر جگہ جگہ کہا کہ پارلیمنٹ میں مجھے بولنے نہیں دیا جاتا اس لئے میں دل کا درد سنانے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ وہ جتنی دیر پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کانٹوں پر بیٹھے ہیں اور جن لوگوں کی باتیں سننا پڑ رہی ہیں وہ کسی کی ایک بات بھی سننا نہیں چاہتے بس اپنی بات کہہ کر باہر جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔
ہماچل پردیش کے الیکشن سے پہلے ہر زبان پر تھا کہ دونوں کے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ساتھ کردیا جائے گا لیکن وزیراعظم سرکاری کاموں کی وجہ سے نہیں انتخابی تقریروں کی وجہ سے ٹال گئے اور ہماچل کا اعلان بھی ہوگیا اور الیکشن بھی۔ رہا گجرات تو نومبر کا آدھا مہینہ مودی جی کو الگ الگ شہروں میں تقریریں کرتے گذر گیا اور آدھا مہینہ ٹکٹ کی مارا ماری میں۔
اندازہ لگانے والوں کو پہلے بھی اندازہ تھا کہ گجرات میں بی جے پی مخالف پارٹی کی وجہ سے پریشان نہیں ہے بلکہ اندرونی کشمکش کی وجہ سے پریشان ہے۔ اور یہ تو ہر پارٹی کا مقدر ہوتا ہے کہ جب اس کا دشمن سے مقابلہ نہیں ہوتا تو اس کے اندر سے دشمن پیدا ہوجاتے ہیں جس کی مثال کانگریس کی موجود ہے کہ اس کے ایک ٹکڑے پر شرد پوار قابض ہیں ایک پر ممتا بنرجی اور ایک پر کوئی اور یہی جنتا دل کا ہوا کہ وہ بھی موجود ہے مگر تین ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اور یہ بات ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی کی جب بھی مات ہوگی اس کا دشمن باہر سے نہیں اندر سے نکلے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں کتنے دن لگیں لیکن مودی جی جس طرح حکمرانی کررہے ہیں وہ لمبی مدت نہیں چلے گی۔
بی جے پی کی قیادت اٹل جی کرتے رہے ہوں یا اڈوانی جی ان میں سے کسی نے جمہوری تقاضے اس وقت بھی پورے نہیں کئے جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ کسے یاد نہیں ہے کہ اجلاس شروع ہوا اور جتنے دن بھی چلا بی جے پی نے چلنے نہیں دیا وہ یا تو کسی بل کو لے کر بیٹھ جاتے تھے کہ یہ بل پاس کرو یا کسی کے ردّ کرنے پر اَڑ جاتے تھے کہ اسے واپس لو۔ وجہ وہی تھی کہ وہ بس یہ چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ کا ہر ممبر باہر اپنے اثرات سے پارٹی کو بڑھانے کا کام کرے یا پیسہ کماکر پارٹی کو دے اور خود کھائے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سب کی تربیت آر ایس ایس نے کی ہے اور وہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اب اگر سرمائی اجلاس ہوگا بھی تو چند دن میں سمیٹ دیا جائے گا اس لئے کہ جی ایس ٹی مودی جی کو جونک کی طرح لگ گئی ہے جو اُن کا خون پی رہی ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ سوچنا نہیں چاہتے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular