[email protected]
9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
فرزانہ اعجاز
جب ایک بچہ ماں کی اندھیاری کوکھ سے اس اجیاری دنیا میں آتا ہے تو بس جب ہی سے اسے ایک رہبر ، ایک رہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے جو اسے زندگی کے اووبڑ کھابڑ راستوں پر سنبھل سنبھل کر قدم قدم چلنا سکھاۓ اور بتاۓ کہ آداب زندگی کیا ہیں اور یہ بھی کہ دوڑتی بھاگتی زندگی سے کیسے نبرد آزما ہوا جاۓ ، رہبران راہ زندگی ہر موڑ پر نیا نیا روپ دھارتے ہیں ، کبھی شفیق ماں بن کر ، کبھی بزرگ خاندان کی شکل میں اور کبھی مہربان استاد کی صورت ، ننھا منا بچہ جب اپنے نازک کاندھوں پر بستہ ٹانگے کسی استاد کے رو برو حاضر ہوتا ہے تو گویا وہ اپنا آپ ،استاد کے حوالے کر دیتا ہے ،بس، پھر جو یہ سیکھنے سکھانے کا سبق شروع ہوتا ہے تو اس کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے ، زندگی کبھی پیچھے مڑ کر دیکھنے یا زرا سانس لینے کی مہلت تک نہیں دیتی ،
در اصل زندہ رہنا یا محض سانس لیتے رہنے کا نام زندگی نہیں ہے اور اصل زندگی کیا ہے اور زندگی کو کیسے احسن طریقے سے جیا جاتا ہے ؟ یہی وہ گر ہے جو انسان اپنے شفیق استادوں سےمرحلہ در مرحلہ سیکھتا ہے ۔ ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا کہ جس نے کسی نہ کسی مہربان استاد سے کتابی علم کے علاوہ کچھ نہ کچھ سیکھا نہ ہو ،
جب ہم شہر کے معروف نسواں کالج تعلیم گاہ نسواں انٹر کالج سے اپنی پڑھائ پوری کر چکے تو ہمارے ابو کی خواہش تھی کہ ہم عربی کی پڑھائ جاری رکھیں ،لیکن عربی کسی نسواں کالج میں نہیں تھی صرف لکھنؤ یونی ورسٹی میں تھی سو ہم ابو کی خواہش کے مطابق لکھنؤ یونی ورسٹی میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوگۓ ، ڈرتے ڈرتے ، اس لۓ کہ ہماری طرح لڑکیوں کے اسکول کالج میں پڑھنے والی اکثر لڑکیاں آئندہ کی پڑھائ بھی کسی نسواں کالج میں جاری رکھنا چاہتی ہیں ،جہاں اکثر کی سہیلیاں بھی ساتھ ہوتی ہیں ، ہماری سہیلیاں تو بہت تھیں لیکن ’یونی ورسٹی ‘ آنے کو ایک بھی تیار نہیں تھی ، سب کا خیال یہ تھا کہ ’ توبہ۔توبہ لڑکوں کے ساتھ کون پڑھے، جو کچھ اب تک پڑھا ہے وہ بھی بھول جایئں گے ؟ سو ’ ہم اکیلے ہی چل پڑے تھے جانب منزل مگر ـ رفعت قمر ساتھ آہی گیئں اور کارواں بن ہی گیا ، ۔۔۔۔ اردو ڈیپارٹمنٹ میں اس وقت سب اساتذہ اپنے اپنے سبجیکٹ کے ماہر تھے اور ابو کے جاننے والے تھے ، زیادہ تر کے مضامین اور نام نامی اکثر اخبارات اور رسائل میں پڑھے بھی تھے ، ایسے عالم فاضل استادوں کے زیرسایہ ہم نے اپنی ننھی سی عقل کے مطابق بہت کچھ سیکھا اور سمجھ میں آنے لگا کہ ’بیشک زندگی کی ڈگر کٹھن ہے لیکن مہربان استادوں کے سکھاۓ پڑھاۓ اسباق کے طفیل ،آرام سے کٹ بھی سکتی ہے ، ـ
اردو اور فارسی ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر عبد الاحد خاں خلیل صاحب ، ڈاکٹر ولی الحق انصاری صاحب ، ڈاکٹر شبیہ الحسن صاحب ،ڈاکٹر نیر مسعود صاحب اور ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی صاحب ہمارے محترم استاد رہے ، ہمیں بہت مسرت ہے کہ آج جب اہل لکھنؤ ڈاکٹر شجاعت صاحب کو یاد کرنے جمع ہوۓ ہیں تو ہم بھی ان میں شامل ہیں ،
لکھنؤ اور اردو زبان کا تذکرہ ادھورا رہے گا اگر ساتھ ہی شجاعت صاحب کا نام نہ لیا جاۓ ، لکھنؤ کا کوئ بھی اردو کا مرکز سونا رہے گا اگر اس جگہ کے تصور کے ساتھ شجاعت صاحب کا تصور نہ جڑا ہو ، لکھنؤ کے جیل خانے میں قیدیوں کو اردو کی تعلیم دینے سے علم کی شمع روشن کرنے والے شجاعت صاحب ممتاز اسکول میں لاتعداد کچے ذہنوں کو صراط المستقیم پر لانے والے ممتاز استاد شجاعت صاحب اور پھر لکھنؤ یونی ورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ کو رونق بخشنے والے شجاعت صاحب ۔
شرمیلی سے مہربان مسکراہٹ چہرے پر سجاے ٔ، شیروانی ٹوپی میں ملبوس ،ٹوپی کو زرا آگے ماتھے پر کھسکاۓ ،ہاتھ میں رجسٹر لۓ شجاعت صاحب ، یاد نہیں کہ ہم نے کبھی انہیں ہاتھ میں کتاب کے بغیر دیکھا ہو ، انکی ایک سسرالی عزیزہ جو ہمارے ساتھ پڑھتی تھیں کہتی تھیں کہ ـجب دولہا بنے شجاعت صاحب سسرال کے گھر کی خواتین سے ملنے آۓ تب بھی انکے ہاتھ میں کتاب موجودتھی ، اردو کے لۓ انہوں نے خاموشی سے بہت کام کیا ۔وہ جو اردو کے لۓ دستخطوں کی مہم چلی تھی اس میں بھی انکا بہت اہم رول تھا ، لیکن فائدہ دوسروں نے اٹھایا ، پھر بھی انہوں نے کوئ شکوہ نہیں کیا ، اردو دنیا کی اکثر خبریں ابو سے ہم لوگوں کو بھی معلوم ہو جاتی تھیں ، کبھی نہیں سنا کہ شجاعت صاحب کی کسی سے کسی بھی وجہ سے ناچاقی ہوئ ہو ، اردو کے لۓ تو وہ دل و جان سے ہر مشکل وقت میں موجود رہتے تھے ، نہیں سنا کہ کسی صاحب اقتدار کے دربار میں اپنے کسی ذاتی مقصد سے حاضری دی ہو ، ڈیپارٹمنٹ میں ترقی کی سعئ کی ہو ، حالانکہ انکے محکمے کے کچھ افراد گورنر کے سامنے بھی لڑ پڑے تھے ، شجاعت صاحب نے صرف دنیا والوں سے اردو کے لۓ دستخط نہیں کرواۓ ،اپنے جگر گوشوں کو بھی ایسی تربیت دی کہ انکے بیٹے ڈاکٹر سعادت علی صدیقی، ڈاکٹر پروین شجاعت کی روش کو اگر اردو والے اپنائیں تو رہتی دنیا تک اردو کی شمع یوں ہی روشنی بکھیرتی رہے گی ، یہ پروین صاحبہ کی اپنے والد سے عقیدت ہی تو ہے کہ وہ اردو کی زندگی کے لۓ برابر کوشاں رہتی ہیں ، اور اب تو ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی صاحب کے نام سے لائبریری میں ایک گوشہ بھی موجود ہے ، شجاعت صاحب کے وہ شاگرد خوش قسمت ہیں کہ جو اپنی لکھی ہوئ کتابیں اس گوشے میں سجا سکیں اور اس طرح اپنے مہربان استاد کو خراج تہنیت پیش کر سکیں ،
اچھے استاد کا کام محض کتابی علم سے روشناس کرانا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے کٹھن لمحوں میں بھی اکثر ’گرتوں کو سنبھالنے ‘ کا کام بھی استاد کے ذمہ ہوتا ہے ، ہمارے ابو کی اچانک رحلت نے ہم سب کو جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا ، شجاعت صاحب اپنے بھائ شفاعت صاحب کے ساتھ ہم سب کے دکھ میں شریک رہے ،کڑے وقت میں جو مہربان ہمارے ساتھ رہے ، ہم نے ایک مراسلہ اخبار قومی آواز میں ’شکریے‘کا شائع کروایا جس میں سب بھائ بہنوں کا نام تھا ، اسی روز ہم واپس مسقط چلے گۓ ، ہم کو لکھنؤ سے بتایا گیا کہ شجاعت صاحب ،شفاعت بھائ کے ساتھ دوبارہ تشریف لاۓ ، دراصل جب وہ شکاگو گۓ تھے تو ہماری بہن دردانہ کے گھر بھی گۓ تھے ، دوسری بار وہ دردانہ کے پاس خاص طور پر آۓ تھے ،لیکن دردانہ اس وقت لکھنؤ نہیں آسکی تھی ، آج بھی کڑے وقت میں ہم کو شجاعت صاحب کی شفقت یاد آتی ہے ، افسوس ، کہ اب اس شہر میں وہ شفیق لوگ کم ہوتے جارہے ہیں جو اپنے کردار سے انسانیت کا بھرم قائم کۓ ہوۓ تھے ،
شجاعت صاحب کے پاس ہمارا ٹیٹوریل بھی تھا ، جہاں چند ساتھیوں کے ساتھ زیادہ آرام سے طلبا ٔ اپنے سبق سے متعلق سوال آسانی سے پوچھ لیتے تھے ۔ ہم خاص طور سے اپنے سوالات لکھ کر لے جاتے اور بلا جھجھک پوچھ لیا کرتے تھے ، ایسے ہی ایک موقع پر ٹیٹوریل کلاس میں ہمارے جواب کو جانچنے کے بعد شجاعت صاحب نے جواب کے پیپر موڑ کر ہم کو واپس کۓ ، اس وقت وہ بہت خوش لگ رہے تھے جیسے ہمارے جواب سے مطمٔعن ہوں ،اور کہا ۔۔۔ ’سنبھال کر رکھنا ۔ ‘کچھ دن بعد اسی سبق کا ٹسٹ تھا ، ہماری کلاس میں ایک ’ کھلاڑی صاحب ‘ بھی تھے جو پڑھتے کم اور کرکٹ زیادہ کھیلتے تھے ، ٹسٹ سے زرا پہلے کسی ساتھی کے نوٹس دیکھ بھر لیتے تھے ، اس بار ہم سے نوٹس مانگے ، کہنے لگے ۔۔۔’آپ کو تو یاد ہوگیا ہوگا ، اب ہم بھی زرا جلدی جلدی آپ کے نوٹس پڑھ ڈالیں ، ‘ ہم نے نوٹس انہیں پکڑا دۓ، دوسرے یا تیسرے دن جب کاپیاں واپس بنٹیں تو کھلاڑی صاحب کی کاپی واپس کرتے ہوۓ شجاعت صاحب نے کہا ’۔۔۔ نقل کے لۓ کچھ عقل بھی چایئۓ ، ۔۔۔ آپ نے تواس بار حرف بہ حرف اپنی کلاس فیلو کی کاپی نقل کر دی ۔‘
چلتے چلتے ایک اورواقعہ سناتے چلیں ، ہمارا اردو کا کلاس پونے تین بجے ہوا کرتا تھا ،ایک روز ہمیں شادی میں جانا تھا اور شجاعت صاحب کا کلاس بھی تھا ، ہم اپنی حاضری لگوا کر جلدی جلدی واپس آرہے تھے ، اتفاق سے ہمارے آگے اردو فارسی کے تمام استاد جارہے تھے انہیں بھی اسی شادی میں شرکت کرنا تھی ، ہم جو سیڑھی اتر رہے تھے تو ہماری اردو کلاس کا ایک ساتھی اوپر جاتا ہوا نظر آیا ، اس نے ہم سے پوچھا کہاں جارہی ہو؟ شاید اس خیال سے کہ ابھی اردو کا ایک کلاس باقی ہے۔ہم نے کہا ۔’گھر جارہے ہیں ۔‘اس نے اشارے سے آگے جانے والے استادوں کے بارے میں پوچھا ، ہم نے کہا ۔۔’سب شادی میں جارہے ہیں ۔‘اس روز حد تھی کہ چپراسی بھی کہیں جارہا تھا ، صدر صاحب کا کمرہ اور ٹیٹوریل کلاسز بھی اس نے مقفل کر دۓ اور چلا گیا ،اوپر جاکر ہمارے ہم سبق نے اعلان کر دیا ۔’ کلاس نہیں ہو گا ، سب گۓ ۔‘باقی طالب علم بھی خوش خوش چلے گۓ ، اب جو شجاعت صاحب کلاس میں آۓ تو وہاں سناٹا تھا ۔ اتفاق سے وہی لڑکا انہیں نظر آگیا ، شجاعت صاحب نے پوچھا ۔۔۔ ’ باقی حضرات کہاں ہیں ؟۔اس نے جھٹ ہمارا نام لے دیا کہ ’ سر ، فرزانہ نے کہا تھا کہ سب شادی میں جارہے ہیں ، میں سمجھا کہ آپ بھی ۔‘شجاعت صاحب مسکراۓ اور کہا ، ’ ہاں ، میں بھی جاؤں گا مگر کلاس لے کر جانا تھا مجھے ، دوسرے روز لکچر کے کلاس میں شجاعت صاحب نے مسکرا کر فرمایا ، ’کل آپ کی ساتھی فرزانہ نے اپنی تو حاضری لگوا دی اور تمام کلاس کو غیر حاضر کروا دیا ،