9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حفیظ نعمانیۘ
بہار حکومت میں سماجی فلاح کی وزیر مسز منجو ورما سے نتیش کمار کو استعفیٰ لینا ہی پڑا۔ وہ جب تک انہیں بچا سکتے تھے بچاتے رہے اور سوشیل مودی عرف بہاری مودی نے بھی بڑے تیور کے ساتھ کہا تھا کہ ان کے استعفے کا کیا سوال پوری بی جے پی ان کے پیچھے کھڑی ہے؟ اب یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ بی جے پی بیٹھ گئی یا منجو ورما کی ہی پنڈلیاں کانپنے لگیں یا نتیش کمار کو خطرہ محسوس ہوا کہ منجو ورما کو بچانے کے چکر میں کہیں وہ خود نہ چلے جائیں؟
ہم نے اپنی کاروباری زندگی 1953 ء میں پریس سے شروع کی تھی ایسا پریس جس میں بڑے سے بڑے سائز کا پوسٹر بھی چھپ جائے اور کئی رنگوں میں چھپ جائے یعنی الیکشن میں کام آنے والی ہر چیز چھپ جائے۔ چار سال کے بعد 1957 ء کا الیکشن آگیا اور کانگریس کمیٹی کی طرف سے آرڈر ملا کہ جتنا آپ چھاپ سکیں اتنا بتا دیجئے ہم کاغذ بھیج دیں۔ دو مہینے کی آمد و رفت کی وجہ سے کانگریس کے بہت سے لیڈروں سے تعارف ہوگیا۔ اور پوسٹر جو اُمیدواروں کو دیئے گئے وہ مختلف شہروں میں لگے۔ ان کی وجہ سے پریس کا تعارف جگہ جگہ ہوگیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی لوگ کام چھپوانے کے لئے آنے لگے اور بعد میں جو دوسری پارٹیاں بنیں وہ ان کانگریسیوں نے ہی بنائیں جو ناراض ہوکر پارٹی سے الگ ہوئے۔ اور 65 سال ہوگئے وہی سیاسی تعلق آج بھی بنا ہوا ہے۔
ہم اس کے عینی شاہد ہیں کہ آزادی کے بعد برسوں تک ہم نے کسی سیاسی لیڈر یا وزیر کو نہ شراب کی بات کرتے دیکھا اور نہ خوبصورت عورت کی۔ 1962 ء میں پنڈت نہرو نے کانگریس صدر کامراج سے کہا کہ ہر صوبہ کے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لے لیا جائے اور جسے پارٹی کے کام میں لگانا ہو اُسے وہاں لگادیا جائے اور جسے صوبہ کا کام کرانا ہو اُسے وزیراعلیٰ رہنے دیا جائے۔ اور کامراج پلان کے اعلان کے بعد اس زمانہ میں کس کی ہمت تھی کہ وہ استعفیٰ نہ دیتا۔ اُترپردیش میں سی بی گپتا وزیراعلیٰ تھے ان کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا اور سوچیتا کرپلانی کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ وہ آچاریہ کرپلانی جو نہرو کے بدترین مخالف تھے۔ ان کی بیوی کو۔ اور ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ 1963 ء میں آچاریہ کرپلانی نے کانگریس کے حافظ ابراہیم کے مقابلہ میں امروہہ سنبھل سیٹ سے الیکشن لڑا اور سوچیتا کرپلانی کانگریس کی حمایت میں دورے کرتی رہیں بس اپنے شوہر کا نام نہیں لیا۔ اور الیکشن کے بعد بھی دونوں اتنی ہی محبت سے ایک ہی مکان میں رہتے رہے جیسے پہلے رہتے تھے۔ اور ہم نے خود دیکھا کہ اگر حکومت اور کرپلانی جی کے کام میں ٹکرائو ہوا تو وہ وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے پہلے کرپلانی جی کا کام کرتی تھیں بعد میں حکومت کا۔
اب سیاسی سماج اتنا گرگیا ہے کہ پہلے دن سے وزیر منجو ورما کہے جارہی ہیں کہ میرے شوہر صرف ایک بار میرے ساتھ مظفر پور گئے تھے۔ جبکہ ثابت ہوگیا کہ وہ 9 بار گئے تھے اور 17 مرتبہ انہوں نے برجیش ٹھاکر سے بات کی تھی اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ شیلٹر ہوم آتے تھے اور لڑکیوں کے کمرہ میں بے دھڑک جاتے تھے۔ برجیش ٹھاکر کا جو کردار سامنے آیا ہے۔ ایسے لوگ ہر صوبہ میں آپ کو مل جائیں گے۔ وزیر خاتون کا شوہر ہونا عوام میں وزیر سے بھی بڑا ہونا مانا جاتا ہے۔ کتنے میئر کتنے کارپوریٹر ایسی ہیں جو گھر میں بیٹھی ہیں اور کام شوہر کرتے ہیں۔
کسی بھی شہر کے شیلٹر ہوم کی لڑکیوں کی کہانی سن لیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن کا یا تو دنیا میں کوئی ہے نہیں یا وہ نام بھی نہیں سننا چاہتے۔ ان سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک وزیر ہیں انہیں اگر خوش کردوگی تو وہ کہیں نہیں نوکری دلوادیں گے یا کسی اچھے لڑکے سے شادی کرا دیں گے یا سرکاری پینشن بندھوا دیں گے غرض کہ زندگی بن جائے گی تو ان میں سے کون ہے جو اپنے کو پیش نہ کرے؟ اس لئے کہ وہ اب تک نہ جانے کتنے بڑ ے اثر والوں فلم والوں شادی کا وعدہ کرنے والوں یا نوکری دلوانے والوں کو خوش کرتے ہوئے ہی تو یہاں تک آئی ہیں۔ وہ زمانے لد گئے جب گنی چنی خواتین سیاست میں آتی تھیں،اب تو نہ جانے کتنے ہیں جو اپنی خوبصورت بیوی کو شوقین لیڈر کے پاس اس لئے چھوڑکر چلے آتے ہیں کہ وہ ان کے لئے ٹکٹ لے کر آئے گی۔ اُترپردیش میں ایک صاحب اپنی بہت خوبصورت بیوی کو ایک وزیراعلیٰ کے گھر چھوڑ گئے کہ وہ اپنے شوہر کو کائونسل کا ممبر بنوادے وہ جب دیر رات میں واپس آئی تو اُجڑی اُجڑی تھی۔ اس نے شوہر سے کہا کہ مکھ منتری جی کہہ رہے تھے کہ اُمیدواروں کی بہت لمبی لائن ہے۔ اگر گنجائش نکل سکتی ہے تو تمہارے لئے کیونکہ تم عورت ہو۔ اور شوہر صاحب ایم ایل سی بیوی کے شوہر بن گئے۔
اور یہ تو 2012 ء کی بات ہے کہ اکھلیش یادو نے ایک ایم ایل سی کو نہیں لیا اس لئے کہ ایم ایل اے بہت تھے۔ اس نے بھی ہمت نہیں ہاری اسمبلی کے ممبروں کا اتنا دبائو ڈلوایا کہ اکھلیش کو لینا پڑا۔ رات میں ہی یہ خبر پھیل گئی ہمارے ایک دوست تھے جو اُن کے قریبی دوست تھے اور جانتے تھے کہ ہمارا بھی بہت اچھا تعلق ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ صبح چل کر مبارکباد دے آئیں۔ نئے منتری نے کہا کہ آنا ہے تو بیڈ ٹی میرے ساتھ پیو پھر بھیڑ ہوجائے گی ہم لوگ صبح سات بجے پہونچے تو گیٹ کے باہر مجمع تھا گیٹ کیپر کو ہمارے آنے کی خبر تھی اس نے گیٹ کھولا اور ہمیں بلاکر پھر بند کردیا۔ ہمارے پیچھے پیچھے ایک چپراسی دو کنڈی لے کر آیا اور کہا کہ وہ باہر کھڑے ہیں۔ منتری نے کپڑا ہٹایا تو پھول اور مٹھائی کے ڈبے۔ دوسری کنڈی کا کپڑا ہٹایا تو چمچماتی شراب کی دو بوتلیں۔ انہیں دیکھ کر منتری ننگے پائوں باہر بھاگے اور گیٹ کیپر کو آواز دے کر کہا معلوم کرو کہ شراب کون لایا ہے اسے لاکر کمرہ میں بٹھائو۔ پھر ہم سے پندرہ منٹ رسمی باتیں کرکے اور مٹھائی کھلاکر اس سے ملنے چلے گئے جو شراب لایا تھا اور مبارکباد دینے والوں کی بھیڑ بڑھتی رہی۔
اب عورت اور شراب سیاست کا حصہ بن گئے ہیں اور گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیاں جب ہر طرف سے مایوس ہوکر ان سرکاری اور غیرسرکاری ٹھکانوں میں آکر جیل جیسی زندگی گذارتی ہیں تو پھر تازہ ہوا کے لئے وہ باہر جانے سے انکار نہیں کرتیں مظفر پور میں یہ جو تلاش ہورہی ہے کہ وہ دو گاڑیاں کس کی ہیں جو رات کو لڑکیوں کو باہر لے جاتی تھیں اور صبح کو واپس آتی تھیں ان کا بھی پتہ چل جائے گا۔ اور ہو سکتا ہے دو چار کو اور معطل کردیا جائے۔ ہم کس سے معلوم کریں کہ کیا اتنے شرمناک جرم کی سزا کیا استعفیٰ اور معطلی کافی ہے؟ اور وہ جو منجو کے شوہر اپنی وزیر بیگم کے اقتدار کی وجہ سے جس لڑکی کے کمرے میں جس وقت جی چاہے چلے جاتے تھے وہ بیگم کے استعفے سے پاک صاف ہوگئے اور وہ جو منجو کی کمر کو تھامے بی جے پی کھڑی تھی وہ گناہگاروں کی حمایت کی قصوروار نہیں ہے؟ مینکا گاندھی نے بڑے درد کے ساتھ کہا ہے کہ میں نے ہر ممبر پارلیمنٹ کو لکھا تھا کہ اپنے حلقہ میں جتنے بے سہارا لڑکیوں کے ہوم ہیں ایک بار جاکر وہاں دیکھ لیں کہ کیا ہورہا ہے؟ لیکن ایک بھی نہیں گیا۔ یہ مینکا صاحبہ کو نہیں معلوم کہ عیاشی کرنے کے لئے ایم پی کے واسطے کسی خوبصورت کمرہ میں خوبصورت لڑکیاں پہونچا دی جاتی ہیں وہ ٹوٹے پھوٹے اور گندے گھر میں جاکر کہاں موڈ خراب کریں؟
Mobile No. 9984247500
خخخ