علامہ اقبال:اردو ادب کا ناقابل فراموش ستارہ  علامہ اقبال:

0
592


ڈاکٹر نور فاطمہ

علامہ اقبال بیسویں صدی کی ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے فکرو فن سے اپنے عہد اور بعد کے زمانے کو غیر معمولی طور پر متاثر کیاہے۔ان کی نثر ہو یا شاعری، نظم ہو یا غزل،خطبات ہوں یا مکاتیب،ڈائری ہو یا دیگر نثری تحریریں،اردو کا ادبی سرمایہ ہو یا فارسی کے گراں قدر کارنامے،یہ سبھی چیزیں شروع سے ہی اہل فکرو نظر اور بلند پایہ ناقدین کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ نئی نسل علامہ کی شاعری اور دیگر تخلیقات سے تو تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہے۔مگر ہم ان کی حالت زندگی کو یکسر نظر اندازکئے ہوئے ہیں۔اس لئے علامہ اقبال کی یوم پیدائش کے موقع پر میں نے ان کی سوانح کو مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کے آبا و اجداد سترھویں صدی میں مشرف بہ اسلام ہو ئے اور اسی زمانے میں کشمیر سے ہجرت کرکے ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئے۔ ان کا خاندان کشمیر کے باعزت پنڈتوں میں شمار کیا جاتا تھا۔اقبال کو اپنے برہمن ہونے پر بہت ناز تھا ۔اس بات کا تذکرہ انہوں نے کئی جگہ کیا ہے۔علامہ اقبال سیال کوٹ پنجاب میں ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے۔ان کے والد صاحب شہر میں دل و دماغ کی پاکیزگی کی وجہ سے قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔وہ صاحب دولت نہیں تھے لیکن ابتدا ہی سے ان کے مزاج میں تصوف کا رنگ رچا ہوا تھا۔اقبال کی شخصیت پر اپنے والدین کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، ان کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی جس کا ثبوت ان کی وفات پر لکھا گیا مرثیہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ہے جو بانگِ درا میں شامل ہے۔مثال کے طور پر چنداشعار ملاحظہ ہوں   ؎

تربیت سے تیری میں انجم  کا ہم قسمت ہوا

گھر مرے  اجداد  کا سرمایۂ  عزّت ہوا

عمر بھر  تیری محبت  میری خدمت  گر رہی

تو چل بسی  میں تری خدمت کے قابل جب ہوا

، علامہ کی ابتدائی تعلیم مکتب سے شروع ہوئی انھوںنے پانچویں جماعت کا امتحاں وظیفہ لے کر پاس کیا۔ مولوی میر حسن کی درس گاہ قدیم طرزِ تعلیم کا نہایت عمدہ مرکز تھا۔ مولوی میر حسن کو عربی و فارسی زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔یہ میرحسن کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ اقبال کو بچپن میں ہی عربی و فارسی کا جو ذوق پیدا ہوا وہ آخر تک بہ دستور قائم رہا۔ چنانچہ اقبال نے یورپ جانے کے موقع پر ’’التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے جو نظم پڑھی اس میں اپنے استاد کے لیے بے پناہ محبت اور ان کے جوہر علم کو بڑی خوب صورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طورپریہ شعر دیکھیے   ؎

وہ شمعِ  بار گہہ  خاندانِ   مرتضوی

رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو

مولوی میرحسن کے ساتھ اقبال کی یہ عقیدت مندی تمام عمر یوںہی قائم رہی۔ اقبال اسکاچ مشن کالج سیال کوٹ سے ایف۔ اے پاس کرکے لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور (بی۔اے )میں داخل ہوگئے۔ ۱۸۹۷ء میں اقبال نے بی۔اے میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور دو طلائی تمغے کے ساتھ وظیفہ بھی حاصل کیا۔ پھر اقبال نے ایم ۔اے میں (فلسفہ) میں داخلہ لیا۔ ٹامس آرنلڈ جو کہ فلسفے کے پروفیسر تھے اقبال کی لیاقت و قابلیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوںنے اقبال کو شاگردی سے ترقی دے کر اپنے احباب میں شمار کرنا شروع کردیا۔ ایک جگہ آرنلڈ کہتے ہیں:                      ’’ایسا شاگرد استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنادیتا ہے۔‘‘ ۱۸۹۹ء میں اقبال نے ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی ، کلاس میں اوّل آنے کی وجہ سے ان کو طلائی تمغہ بھی دیا گیا۔ اس کے بعد اقبال کو اورینٹل کالج لاہور میں تاریخ اور فلسفے کی پروفیسری مل گئی اور کچھ مدت بعد ہی اقبال گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ اور انگریزی کے اسسٹینٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں اقبال نے معاشیات کے موضوع پر ایک کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ کے عنوان سے لکھی۔اقبال کو شروع سے ہی حصولِ علم کا اعلیٰ ذوق اور غیرمعمولی شوق تھا۔ جیسے جیسے وہ علمی منازل طے کرتے گئے، ان کا ذوق اور بھی بڑھتا گیا۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال انگلستان تشریف لے گئے اور حسنِ اتفاق سے ان کو اپنے علمی منازل طے کرنے کے لیے اچھے اچھے رہ نما بھی ملے، اور وہاں پر بڑے بڑے اہلِ علم سے ان کا سابقہ پڑا۔ یورپ پہنچنے کے بعد اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں پر اقبال کی ملاقات میک ٹیگرٹ، براؤن، نکلس اور سارمی جیسے اہلِ علم سے ہوئی اور اقبال نے میونخ یونیورسٹی (جرمنی) میں ’’فلسفہ ایران‘‘ پر ایک تحقیقی اور عالمانہ مقالہ پیش کیا جس پر بڑے بڑے علما و فضلا کے تبصرے بھی شائع ہوئے،یہ کتاب یورپ میں بہت مقبول ہوئی جس کا نام “The Development of Meta Physics in Persia” تھا۔ اسی مقالے کی بنیاد پر اقبال کو ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری دی گئی۔ اس کے بعد وہ پھر جرمنی سے لندن آگئے اور وہاں ’’اسکول آف پولیٹیکل سائنس‘‘ میں داخل ہوئے۔ وہاں سے فراغت پانے کے بعد لندن میں ہی اقبال نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور اسلام پرچھ لکچر بھی دیے۔ ۱۹۰۸ء میں اقبال تین سال کی کامیاب کوششوں کے بعد ہندوستان واپس آئے ، اتنی کم عمری میں اتنی ڈگریاں اور انعام و اکرام حاصل کر لینا کم حیرت کی بات نہیں تھی۔ ان کو اردو زبان کے علاوہ سنسکرت، انگریزی، عربی و فارسی اور یورپ کی دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔اقبال یورپ سے واپسی کے بعد کچھ مدت تک گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر کے منصب پر فائز رہے۔ مگر اس ملازمت سے انھوںنے بہت جلد اپنا رشتہ منقطع کرلیا، اور وکالت کا پیشہ شروع کردیا۔ مگر اقبال کو وکالت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ محض آمدنی کا ایک ذریعہ تھی جس کا سلسلہ ۱۹۳۴ء میں ان کی علالت کی وجہ سے منقطع ہوگیا۔ دراصل اقبال کو وکالت میں غلامانہ سیاست کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ اس کیفیت پر انھوںنے ایک نظم’’نصیحت‘‘ لکھی تھی جس میں لیڈری کا نقشہ بہت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا گیا ہے ۔اگرچہ ذہنی طورپر اقبال فرقہ پرستی سے ہمیشہ پاک رہے۔ روشن خیال مسلمانوں کو اقبال کی یہ ادا بہت پسند تھی اور وہ ان کو سیاست میں لانا بھی چاہتے تھے، مگر اقبال سیاست میں قدم رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ کہتے ہیں   ؎

یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں

کہ فیضِ عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش

حالاںکہ اقبال کی شاعری کا ایک بڑا حصہ سیاست سے متعلق ہے، مگر ابھی تک اقبال نے خود کو سیاسی کاموں میں نہیں الجھایا تھا۔ بلکہ خاموشی کے ساتھ اشعار کے پردے میں اپنے خیالات دوسرے لوگوںتک پہنچاتے رہے تھے۔ مگر ۱۹۲۶ء میں لوگوں نے اصرار کرنا شروع کردیا کہ اگر آپ کونسل کے ممبر بن جائیںگے تو مسلمانوں کے بہت سے کام آپ کے توسط سے ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ لوگوں کے اصرار کرنے کی وجہ سے اقبال ۱۹۲۶ء میں لاہور کے حلقے سے کونسل کے انتخابات کے لیے کھڑے کردیے گئے جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے۔ پنجاب کے سیاسی معاملات میں جن سے وہ ہمیشہ الگ رہتے تھے، دلچسپی لینے لگے، جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا اقبال نے کوشش کی کہ مسلمانوں کی صحیح طریقہ سے نمائندگی ہوسکے۔ جب کہ وہ لوگوں کی امیدوں کو پورا نہیں کرپائے۔ چوںکہ کونسل کے اختیارات کا دائرہ بہت محدود تھا اور صرف ممبر بن کر کوئی مفید کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ۱۹۲۸ء میں اقبال کو مدراس سے لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔ جب اقبال مدراس پہنچے تو ان کا پُرزور استقبال کیا گیا۔وہاں سے وہ میسور اور پھر حیدرآباد بھی تشریف لے گئے۔ مدراس میں اقبال نے انگریزی زبان میں چھ لکچرز دئیے، ان لیکچرز میں انھوںنے اسلام سے متعلق بہت مفید اور کارآمد باتیں بتائیں۔ ۱۹۳۰ء میں اقبا ل نے پرانی انجمن مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کی صدارت کی اور اقبال کو مسلم لیگ کا صدر بھی بنایا گیا۔ ۱۹۳۱ء میں اقبال گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے حکومتِ ہند کی طرف سے انگلستان تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپسی میں وہ اسپین، فرانس، اٹلی اور فلسطین کی سیر کرتے ہوئے ہندوستان واپس آئے۔ اس سفر نے اقبال کے دل و دماغ پر ایسا اثر ڈالا کہ ’’بالِ جبریل‘‘ کی بیش تر نظموں میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ جو کہ فن کا عمدہ نمونہ ہے ، اسپین کے سفر کے دوران ہی لکھی گئی ہے۔ اقبال کے دل پر وہاں کے اسلامی عہد کے آثار کھنڈرات و عمارات کا بہت گہرا اثر پڑا۔ چنانچہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ہی نہیں اس ضمن میں کہی گئی ان کی تمام نظمیں غیرمعمولی توجہ کی مستحق ہیں۔ ان نظموں کو پڑھ کر اقبال کے دل و دماغ پر بنتے بگڑتے نقوش کی عکاسی بھی ہوتی ہے اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی گونج بھی ان نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ ۱۹۳۲

ء میں غازی رؤف بے، ڈاکٹر انصاری مرحوم کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، انھوںنے جامعہ میں چھ لیکچر دئیے۔ اقبال نے بھی اس جلسے میں شرکت کی اور ڈاکٹر انصاری کے مہمان رہے۔ انھوںنے ان محفلوں میں سے ایک کی صدارت بھی کی۔ وہاں پر اقبال نے اتحادِ اسلامی کے موضوع پر نہایت مدلل گفتگو کی اور وطنیت کے موجودہ تصور پر اظہارِخیال کرتے ہوئے اس کے نقائص پر بھی تبصرہ کیا۔ اتفاق سے چند ہی مہینو ں کے بعد اقبال کو پھر جامع مسجد میں تقریر کرنے کا موقع ملا۔ اپنی اس تقریر میں انھوںنے لندن سے لے کر قرطبہ تک کے سفر کا ذکر کیا اور فرانس کے مشہور فلسفی ’’برگساں‘‘ سے اپنی ملاقات کا حال بھی بیان کیا۔ علامہ اقبال کا شمار ان خوش نصیب شاعروں میں کیا جاسکتا ہے جن کو ان کی زندگی میں ہی شہرت مل گئی تھی۔ جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی فارسی مثنویوں میں سے بعض کا ترجمہ انگریزی میں شائع ہوا تو مغربی ممالک میں اقبال کی دانش ورانہ فکر کی دھوم مچ گئی۔ لہٰذا ۱۹۲۳ء میںاقبال کو ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اقبال نے خطاب کو اس شرط کے ساتھ قبول کیا کہ ان کے استاذ مولوی سید میرحسن کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے۔ حکومت نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اقبال کو ’سر‘ کا خطاب ملنے اور اقبال کے ذریعہ خطاب قبول کیے جانے پر امت مسلمہ کے بہت سے نمائندوں کو اعتراض ہواکہ اقبال جیسے آزاد انسان نے غلام بنانے والے ملک کے اعزاز کو کس طرح قبول کرلیا، اور ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ان کی پوری زندگی سرکاری نمائندوں اور سرکار پرستوں کے ساتھ گذری ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے ملکہ وکٹوریہ کے انتقال پر ایک المیہ ترکیب بند لکھا اور گورنر کی شان میںایک قصیدہ بھی لکھا تھا۔ ایک صاحب نے تو اس طرح کا قطعہ تک کہہ دیا تھا کہ   ؎

لو  مدرسۂ  علم  ہوا   قصر  حکومت

افسوس کے علامہ سے ’سر‘ ہوگئے اقبال

کہتا تھا یہ کل ٹھنڈی سڑک پہ کوئی گستاخ

سرکار کی   دہلیز  پر سر ہوگئے

اقبال تاہم اکا دُکا تنقیدوں کے علاوہ علامہ اقبال کوعطا ہونے والے خطاب کا ملت کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا اور اس خطاب کو حق بہ جانب قرار دیتے ہوئے عام طورپر یہ کہا گیا کہ علامہ صحیح معنوں میں اس خطاب کے حق دار تھے۔علامہ اقبال کی زندگی میں ان کو اعزاز و اکرام سے نوازے جانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا نقطۂ عروج زندگی کے آخری برسوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور الٰہ آباد یونیورسٹی کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی زندگی سے نوازا جانا تھا۔ ۱۹۳۳ء میں شاہ افغانستان نے اپنے ملک کے تعلیمی نظام کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے اقبال کو کابل آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ اقبال ، سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود کے ساتھ افغانستان تشریف لے گئے۔ اس موقع پر انھوںنے ملک کے دوسرے حصوں کی سیر بھی کی۔ مختلف شاہ و گدا کے مزارات پر فاتحہ پڑھی اور قندھار میں خرقہ مبارک کی زیارت بھی کی ۔اس سفر کے تاثرات اقبال نے ’’مسافر‘‘ کے نام سے فارسی میں قلم بند کیے ہیں۔ ۱۹۳۴ء میں اقبال کی صحت خراب رہنے لگی تھی، ۱۹۳۵ء میں ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس حادثے سے ان کو گہرا صدمہ پہنچا اور وہ ا پنی زندگی سے بے زار اور مایوس نظر آنے لگے۔ ایک روز انھوںنے وصیت نامہ بھی تیار کر لیا۔ ان کا دل بہت کمزور ہوگیا اور دونوں کندھوں کے بیچ میں درد رہنے لگا تھا۔ حالاںکہ دہلی کے نامور طبیب حکیم نابینا کے علاج سے ان کی حالت کئی مرتبہ بحال ہوئی مگر کسی نہ کسی شکل میں بیماری بڑھتی رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ علامہ نے اس حالت میں بھی فکر و سخن کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی زمانے میں پنڈت جواہر لال نہرو ملاقات کی غرض سے اقبال کے پاس تشریف لے گئے اور دیر تک تبادلۂ خیال کرتے رہے۔ پنڈت نہرو اس ملاقات سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ غرض کہ ۱۹۳۸ء میں مرض نے شدت اختیار کرلی اور جلدی جلدی دل کے دورے پڑنے لگے۔ وفات سے تین چار دن قبل بلغم کے ساتھ خون آنے لگا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید دل کی طرف جانے والی رگ پھٹ گئی ہے۔ عمومی طورپر ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے تسلی کے لیے کچھ کہنا چاہا مگر اقبال نے روک دیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں، موت سے نہیں ڈرتا، پھر اپنا یہ شعر سنایا   ؎

نشان  مردِ مومن  با تو گویم

چوں مرد آید تبسم لب اوست ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو صبح سوا پانچ بجے عظیم مفکراور شاعر اسلام نے زندگی کی آخری سانس لی اور دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے۔                           ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے                         بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اسیسٹینٹ پروفیسر(شعبۂ اردو)

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

لکھنؤ کیمپس، لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here