ساحر کی شاعری کے آئینے میں یوم خواتین – Women’s Day in the mirror of the magician’s poetry

0
166
Women's Day in the mirror of the magician's poetry
عباس دھالیوال

ہر سال 8 مارچ کو دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر یوم خواتین طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد خواتین کو ان کے حقوق کے ضمن میں آگاہ کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کی اہمیت عوام الناس کو خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے ٹھوس و پختہ اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا ہے۔
اگر یومِ خواتین کو تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں خواتین نے اپنی تنخواہ اور اپنے کام کرنے کے اوقات کو کم کرنے کے مسائل کے حل کرنے کو لیکر احتجاج کیا تھا ، لیکن ان کے اس احتجاج کو گھڑسوار دستوں کے ذریعےکچل دیا گیا تھا. اس کے بعد 1908 میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’وومین نیشنل کمیشن‘‘ بنایا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد فروری کی آخری تاریخ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ جب ہم اس ضمن میں تاریخی پس منظر کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ عالمی یوم خواتین، سب سے پہلے 28 فروری کو 1909 میں امریکہ میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی تھی. 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے گئے.
چین، روس، نیپال، کیوبا اور بہت سے ممالک میں اس دن خواتین ورکرز کی چھٹی ہوتی ہے اور دیگر ممالک کی طرح بر صغیر میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے.
عورت ایک ایسی شے ہے جس کبھی دیوی کا روپ دیا گیا اور کبھی اس کے عروج یا با عزت مقام کو برداشت نہ کر کے اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیا اور مذہب کے نام پر ہی برہنہ کرکے گھمایا گیا اور کبھی اس کو سماجی برابری، آزادی نسواں کا نعرہ دے کر دفتروں، کارخانوں اور دوکانوں میں لا کھڑا کیا اور عورت بیچاری ہر دور میں فریب کھاتی رہی.
اتفاق سے جس روز یومِ خواتین آتا ہے اسی دن ہندی فلموں کے مشہور نغمہ نگار و شاعر ساحر لدھیانوی کی یومِ پیدائش کا دن ہوتا ہے. ساحر لدھیانوی جنھوں نے سماج میں خواتین پہ ہو رہے ظلم و تشدد اور استحصال کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا. یہی وجہ ہے کہ انھوں نے جو معاشرے میں دیکھا اور محسوس کیا اس کو اپنی شاعری کے ڈھانچے میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کر دیا اس ضمن میں ساحر خود رقمطراز ہیں کہ :
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا وہ لوٹا رہا ہوں میں
اس سے پہلے کہ ہم ساحر لدھیانوی اس نغمہ کو دیکھیں جس میں انھوں نے عورت پر ہونے والے ایک ایک ظلم کی کہانی انتہائی بے باکی سے بیان کی ہے. ہم چاہیں گے ساحر کے حالاتِ زندگی و فن کے بارے میں مختصراً معلومات حاصل کریں.
ساحر لدھیانوی 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدل حئی تھا. ساحر کو انھوں نے بطور تخلص اپنی شاعری میں استعمال کرتے تھے.
خالصہ اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے میں داخلہ لیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انہوں نے شاعری کا آغاز کر دیا۔ کالج سے نکالے گئے اور لاہور آ گئے۔ یہاں ترقی پسند نظریات کی بدولت قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں ان کے خلاف وارنٹ جاری ہوئے جس کے بعد وہ ہندوستان چلے آئے اور اپنی قسمت آزمانے سیدھے ممبئی میں قیام پذیر ہوئے ۔ ان کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ” بمبئی کو میری ضرورت ہے۔” دراصل اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ فلم ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے شاید وہ کسی اور ذرائع ابلاغ سے ممکن نہیں ۔
یعنی کہا جا سکتا ہے کہ ساحر ایک مشن کے تحت ممبئی آئے. اگرچہ 1949ء میں ان کی پہلی فلم “آزادی کی راہ پر” کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی ، لیکن وہیں معروف موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں آئی فلم “نوجوان” میں ان کے لکھے گیتوں کو ایسی مقبولیت ملی کہ ان کو آج بھی وقتاً فوقتاً آل انڈیا ریڈیو پہ بجتے سنا جا سکتا ہے. اس طرح فلم نوجوان کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی جوڑی جم گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی یادگار فلموں میں کام کیا ۔ ان فلموں میں “بازی”، “جال”،”ٹیکسی ڈرائیور”، “ہاؤس نمبر 44″،”منیم جی” اور “پیاسا” وغیرہ شامل ہیں۔ ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی اور ان دونوں نے “چترلیکھا”، “بہو بیگم”، “دل ہی تو ہے”، “برسات کی رات”، “تاج محل”، “بابر”اور “بھیگی رات” جیسی فلموں میں جادو جگایا۔ روشن اور ایس ڈی برمن کے علاوہ ساحر نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
ساحر کس قدر بااثر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے دو ایسی فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی ‘ پیاسا’ اور یش راج کی ‘کبھی کبھی’ شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
اور یہ گانا
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
اسی طرح کبھی کبھی میں “کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے” کے علاوہ “میں پل دو پل کا شاعر ہوں” ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے.
جب ہم ساحر لدھیانوی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بہت سے اشعار ایسے مل جاتے ہیں جو کہ اِس مرد پردھان سماج میں عورت کے ہو رہے استحصال کی بے باکی سے منظر کشی کرتے ہوئے اس کی دردناک تصویر پیش کرتے ہیں آج یوم خواتین کے موقع پر آپ قارئین بھی ان کے ایک مشہور گیت کو دیکھیں :
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہے کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
مردوں کے لئے ہر ظلم روا عورت کے لیے رونا بھی خطا
مردوں کے لئے ہر عیش کا حق عورت کے لیے جینا بھی سزا
مردوں کے لئے لاکھوں سیجیں، عورت کے لیے بس ایک چتا
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جن سینوں نے ان کو دودھ دیا ان سینوں کو بیوپار کیا
جس کوکھ میں ان کا جسم ڈھلا اس کوکھ کا کاروبار کیا
جس تن سے اگے کونپل بن کر اس تن کو ذلیل و خوار کیا
سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے
چکلوں ہی میں آ کر رکتی ہے فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے
مردوں کی ہوس ہے جو اکثر عورت کے پاپ میں ڈھلتی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
عورت سنسار کی قسمت ہے پھر بھی تقدیر کی ہیٹی ہے
اوتار پیمبر جنتی ہے پھر بھی شیطان کی بیٹی ہے
یہ وہ بد قسمت ماں ہے جو بیٹوں کی سیج پہ لیٹی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل بھی ایک شاہکار تخلیق ہے جس میں انہوں نے غریب مزدوروں کے حوالے سے اپنے محبوب کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ تاج محل کو تعمیر کروا کر اپنی محبت کی تشہیر کرنے والے شاہجہاں کو
ساحر لدھیانوی اپنی زندگی اور موت کے بعد کئی اعزازات سے نوازے گیا . 1964 میں فلم فیئر اعزاز برائے بہترین غنائی شاعر جبکہ 1977 میں انھیں فلم کبھی کبھی کے ٹائٹل سونگ “کبھی کبھی میرے دل میں” کے لیے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا.
اس کے علاوہ ان کی فلمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند کی طرف سے ساحر کو پدم شری اعزاز سے بھی سرفراز کیا گیا.
فلمی دنیا اور اردو کا ادب یہ عظیم شاعر 25 اکتوبر 1980 کو دل دورہ پڑنے سے اس فانی جہان کو ہمیشہ ہمیش کے لیے الوداع کہہ گئے .
مالیر کوٹلہ. پنجاب،رابطہ :9855259650

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here