جس کسی کو ایک بیٹی ہے اور وہ اس کا قتل نہیں کرتا ہے، اس کی توہین نہیں کرتا ہے اور اپنی بیٹی کے تناسب میں بیٹے کا طرفدار نہیں ہوتا ہے اسے اللہ جنت میں جگہ عطا کرتا ہے۔
(ابن حنبل نمبر: 1957 )
خواتین کو ہمیشہ کمتر درجہ رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے حقوقِ نسواں کی پیدائش ہوئی۔ حقوقِ نسواں کے بارے میں کچھ غلط تاثرات ہیں۔ حقوق نسواں جنسی مساوات ثابت کرتا ہے اور خواتین و مرد کے یکساں اختیارات کو فروغ دیتا ہے۔ آج بیشتر مسلمان نہیں جانتے کہ اسلام میں خواتین کو متعدد اختیارات دیئے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اسلام کا ایمانداری سے پیروی کرتا ہے اور قرآن اور حدیث کا سبق پیش کرتا ہے تو وہ دیکھے گا کہ اسلام نہ صرف خواتین کی صورت حال کو اوپر اٹھاتا ہے، بلکہ مسلم خواتین کو سماج کے استحصال شدہ اور چہار دیواری میں قید ہونے کا جھوٹا تاثرات کو بھی توڑتا ہے اور ان کی بہترین پر زیادہ دھیان دیتا ہے۔
خواتین مرحوں کے مقابلے میں نازک و حساس ہوتی ہیں۔ خواتین کی سوچ مردوں سے الگ ہوتی ہے، اس لے انہیں بدلنے یا ان سے کچھ منوانے کیلئے طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اس نکتے پر اسلام جدید مغربی خیالات سے الگ سوچ رکھتا ہے۔ اسلام نے ہمیشہ سے ہی خواتین کے عزت کی وکالت کی ہے۔ قرآن و حدیث میں خواتین کے حقوق کو پہچان دینے اور طلاق کے اختیارات کا تحفظ دیا گیا ہے۔ اسلامنہ صرف حقوقِ نسواں کی مشعل ہے، بلکہ خواتین کی حد سے زیادہ ہونے کی عزت دیتا ہے۔ ہمیں حقیقت میں ان قطاروں منیں کھڑے ہونے کی ضرورت ہے، تبھی ہم دیکھیں گے کہ خواتین کو اسلامک سماج میں مردوں کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اسلام مذہب کی بہتر سمجھ وقت کی مانگ ہے جس کے ذریعے سے وہ دیگر مذہب پرست کے لئے ایک مثال پیش کرسکتے ہیں۔
بیگم شہناز سدرت، صدر بزم خواتین