معصوم مرادآبادی
اتراکھنڈ کے چمولی میںگزشتہ اتوار کی صبح ناشتہ کے بعدجس وقت لوگ دھوپ سے لطف اندوزہورہے تھے تو اچانک تیزدھماکوں سے تپوون وادی دہل اٹھی۔ایک طرف بدہواس خواتین کے چیخنے کی تیز آوازیں آرہی تھیں تودوسری طرف گنگا ندی میں طوفان کروٹیں لے رہاتھا۔ یوں لگتا تھا گویا بادل پھٹ کر وادی میں گررہے ہوںاور پہاڑوں کے ٹکڑے آسمان کی طرف اچھل رہے ہوں۔پہاڑوں میں برف کے تودے اس تیزی سے پھسل کر ندی میں گررہے تھے گویا ان میں مقابلہ آرائی ہورہی ہو۔ برفانی تودے گرنے سے ندی کی لہریں مزیدتیزہو رہی تھیں۔ آن واحد میں بجلی پروجیکٹ اور اس میں کام کرنے والے غریب مزدور آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔گنگا ندی میں گرنے والے برفانی تودوں نے سب سے پہلے پہاڑی سرنگوں کو نقصان پہنچایا، اس کے بعد بجلی پروجیکٹ کی باری تھی۔ ٹنل کا ملبہ باندھ میں گرا تو جھیل میں اچانک پانی کی سطح پرزبردست اچھال آیا اور اس کی دیواریں تہس نہس ہوگئیں۔ پھر تباہی نے آگے چل کر دھولی ندی کو اپنے آغوش میں لیااور یہاں ۱۵۰ میٹر گہری جھیل میں طوفان برپاہوگیا ۔ یہاں سے آگے راستے میں آئی مشینیں ، ٹرک ، درخت اور بولڈر تنکوں کی طرح بہتے چلے گئے۔
اتراکھنڈ کے چمولی میں گزشتہ اتوار کوآئی تباہی کو آپ قدرتی آفت سے تعبیر کرسکتے ہیں لیکن دل دہلادینے والے سانحات کو جنم دینے میں خود انسانوں کا کتنا ہاتھ ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہاڑوں کی خوبصورت وادیاں قدرت نے کائنات میں حسن وزئبائش پیدا کرنے اور اسے زیادہ دیدہ زیب بنانے کے لیے تخلیق کی ہیں، لیکن ہم ان کے ساتھ جو کھلواڑ کررہے ہیں،اس کا لازمی نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہاڑوں پر بجلی پروجیکٹ بنانے اور باندھ باندھنے کے خطرات سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا جارہا ہے۔ ماحولیات کے ماہرین مسلسل اس جانب متوجہ کررہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اگر یونہی من مانی کی جاتی رہی تو مستقبل میں اورزیادہ تباہی آئے گی اور انسانی زندگی کو مزید خطرات لاحق ہوں گے۔
گزشتہ اتوار کو چمولی میں خوفناک تباہی کی زد میں کتنے انسانوں کی قیمتی جانیں آئی ہیں ،اس کا اندازہ چاردن بعد بھی نہیں ہوپایا ہے۔ابھی تک صرف 26لاشیں ہی برآمد ہوئی ہیںجبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جاتی ہے۔ تعداد کا صحیح اندازہ لگانا اس لیے مشکل ہے کہ برف اور پانی کی تیزلہریں بدنصیب مزدوروں کو کہیں دور بہاکر لے گئی ہیں۔بجلی پروجیکٹ میں کام کرنے والے ان مزدوروں کو کیا معلوم تھاکہ دووقت کی روٹی کمانے کے لیے جس پرجیکٹ میں کام کررہے ہیں، وہ ان کے لیے اجتماعی موت کا کنواں ثابت ہوگا۔
کیا چمولی کی حالیہ تباہی کو روکا جاسکتا تھا؟ اس سلسلہ میں ماہرین کی رائے یہی ہے کہ اس تباہی کو خود ہوس پرست لوگوں نے دعوت دی ہے۔جو بجلی پروجیکٹ اس طوفان کی زد میں آکر کہیں دور بہہ گیا ہے اس پر 2016 میں گنگا کی صفائی سے متعلق وزارت نے سپریم کورٹ میں اعتراض درج کرایا تھا۔ وزارت نے جوابی حلف نامہ داخل کرکے اتراکھنڈ میں نئے باندھ اور پاور پروجیکٹ کی تعمیرات کو خطرناک قرار دیا تھا۔ مگر ماحولیات سے متعلق وزارت نے اس کی مخالفت کی اور حلف نامہ دینے کی بات کہی ۔ لیکن دستاویز میں خطرہ درج ہونے کے باوجود حلف نامہ داخل نہیں کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باندھوں کی تعمیر جاری رہی۔2009 میں سرنگ کی بورنگ کے دوران الک نندہ کے کنارے زیرزمین چٹانیں ٹوٹ گئی تھیں،جسے ماحولیات کے ماہرین نے خطرے کی گھنٹی قرار دیا تھا، لیکن وزارت ماحولیات نے اس کو بھی نظرانداز کردیا۔ آخر کار جان بوجھ کر برتی گئی لاپروائی کا خوفناک نتیجہ برآمد ہوا اور گزشتہ اتوار کو دوبجلی پروجیکٹ تنکوں کی طرح بہہ گئے۔200 سے زائد لوگوں کے لاپتہ ہونے کی خبر ہے۔ ڈھائی کلو میٹر طویل سرنگ میں 200میٹر تک ملبہ دھنس گیا ہے۔ راحت رسانی کاکام بے حد مشکل مراحل میں ہے۔آئی ٹی بی پی کے جوانوں نے اب تک 27لوگوں کی جانیں ہی بچائی ہیں۔18 لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔
تباہی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گلیشیر کا پانی گنگا ندی کے راستے تیزی سے آگے بڑھا۔ سب سے پہلے ہندچین سرحد کو جوڑنے والا پل بہہ گیا۔ پھر گنگا بجلی پروجیکٹ کو تباہ کیا، جس کا 95فیصد کام مکمل ہوچکا تھا۔ اس پروجیکٹ میں کام کرنے والے150لوگوں کو بچنے کا موقع ہی نہیں ملا، وہ پانی میں بہہ گئے۔باڑھ کی شکل لے چکاملبے والا پانی تپوون بجلی پروجیکٹ کو روندتا ہوا آگے بڑھا۔قابل غور بات یہ ہے کہ2013 میں کیدار ناتھ میں جو زبردست تباہی مچی تھی اور جس نے پورے اتراکھنڈ خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی، اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ دولت کے پجاری پہاڑوں اور خوبصورت ندیوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے۔ حکومت کے کارندے اور ماحولیات کی وزارت بھی اس میں شامل رہی۔سوال یہ ہے کہ جس وزارت کی ذمہ داری ماحولیات کو بہتر بنانا ہے وہ جب خود ہی اس کو تباہ کرنے پر آمادہ ہوجائے تو پھر بچنے کی راہ کیا ہے۔
کیدار ناتھ کی خوفناک تباہی کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پراتراکھنڈ میں ایک کمیٹی بنی تھی۔ اس کمیٹی کو اتراکھنڈ میں زیرتعمیر80بجلی پروجیکٹوں پر نظر ثانی کا کام سونپا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شری گنگا پروجیکٹ کے آس پاس جو گلیشیر جھیلیں ہیں ان کی اسٹڈی کے بعد ہی پروجیکٹ کو آگے بڑھایا جائے، لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ قدرت ہمیں بار بار وارننگ دے رہی ہے کہ پہاڑوں کے صبر وضبط کا زیادہ امتحان نہ لیا جائے اور ان سے چھیڑچھاڑ نہ کی جائے، لیکن انسان سائنسی ایجادات کو بروئے کار لانے اور اپنی حدسے بڑھی ہوئی خواہشات کو پورا کرنے کے ہیر پھیر میںکائنات کے حسن کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کررہا ہے اور اسے اس بات کا قطعی اندازہ نہیں ہے کہ جب قدرت ناراض ہوتی ہے تو زمین پر کیسی کیسی تباہیاں جنم لیتی ہیں، ۔چمولی کی تازہ تباہی پر ماحولیات کے ماہرین اس لیے بھی حیران ہیں کہ یہ تباہی سردی کے موسم میں ہوئی ہے، کیونکہ سردی میں گلیشیر کا پگھلنا نادر واقعہ ہے۔سردی ، بارش اور برف باری میں گلیشیر اپنی مرمت کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علاقے میں برف باری میں ریکارڈ گراوٹ بھی تباہی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔اس پورے علاقے میں سن2000سے برف باری میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ گنگا اور برہم پتر ندی کے کنارے برف کا علاقہ بھی گھٹ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمالیائی علاقے تیزی سے گرم ہورہے ہیں۔ ہمالیہ کے اوپری علاقے میںآج کل دوپہر کا درجہ حرارت عمومی درجہ حرارت سے پانچ ڈگری زیادہ ہورہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی درختوں کی کٹائی، پہاڑوں پر تعمیرات اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔
ہمالیائی علاقے میں تقریباً 8800گلیشیر جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں۔ان میں 200گلیشیر انتہائی خطرناک زمرے میں آتے ہیں۔ حال میں کی گئی سائنسی تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ ہمالیہ میں آنے والی باڑھ کے سبب بڑے پیمانے پر چٹانیں گررہی ہیں، جو مستقل طورپر ندیوں کے بہاؤ کو روک رہی ہیں۔ اندھا دھند اور غیرمنظم تعمیرات پہاڑ کے توازن کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں آنے والی آفات کے بعد ہمیشہ ہی ندیوں پر بنے ہوئے باندھوں اور پاور پروجیکٹوںپر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ سپریم کورٹ بھی اس پر اپنی تشویش ظاہر کرچکا ہے۔یہاں تک کہ مرکزی حکومت کی اپنی آبی وسائل کی وزارت2016میں سپریم کورٹ میں یہ کہہ چکی ہے کہ اتراکھنڈ میں گنگا ندی پر کوئی بھی نیا پاور پروجیکٹ ماحولیات کے لیے خطرناک ہے۔یاد رہے کہ2013 کے کیدار ناتھ المیہ کے بعد ایک عرضی کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے صوبہ کے 24 پاور پروجیکٹوں پر پابندی لگادی تھی۔ یہ معاملہ آج بھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے مگر اس کے باوجود اتراکھنڈ میں ماحولیات سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
جون 2013کے المیہ کے بعدسپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی پر سماعت کے دوران وزارت ماحولیات نے کہا تھا کہ اگر ان پاور پروجیکٹوں سے جنگلات اور ماحولیات کو خطرہ درپیش ہے تو انھیں رد کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔ان افسروں پر کارروائی کیوں نہیں ہوتی جنھوں نے اس کی منظوری دی۔ ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیات سے سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت نے ماحولیاتی خطرات کے پیش نظر مجوزہ 39منصوبوںمیں سے24پرروک لگادی تھی۔ اس کے بعد مرکزی حکومت کی طرف سے دائر حلف نامے میں کہا گیا تھاکہ حکومت ترقی کے تمام کام سائنسی طریقہ سے کروائے گی۔اس معاملے کی سماعت اب تک جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک سال قبل 28فروری 2020 کو مرکزکو ہدایت دی تھی کہ حکومت چاہے تو ان پروجیکٹ کو ایکو سینسیٹوزون سے باہر دوسرے علاقوں میں منتقل کرنے پر غور کرسکتی ہے تاکہ ان کی وجہ سے لوگوںکی زندگیوں کو خطرات لاحق نہ ہوں، لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہواہے اور انسانی زندگیوں پر مسلسل خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔
[email protected]
چ