انصاری مسعود عالم محمد یعقوب
’’بی کام کے سال دوم کا امتحان ختم ہوتے ہی لاک ڈاؤن لگ گیا، پہلے تو خوشی ہوئی کہ کم ازکم ہمارا امتحان تو ہوگیا تھا، مگر جب معلوم ہوا کہ یونیورسٹی نے بغیر امتحان دینے والے طلبہ کو بغیر\ امتحان دیے ہی کامیاب قرار دیا تو یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداران کے دادا پر دادا اور آنے والی کئی نسلوں تک کے لیے نازیبا کلمات نکلنے لگے – ہم نے سال دوم سے سال سوم میں جانے کے لیے کئی راتیں جاگی، کتابوں کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا مگر یہ کمبخت سال اول کے طلبہ تو بغیر امتحان ہی کے پاس ہوگئے – اب تو پڑھائی سے بھروسہ ہی اٹھ گیا، اور اگلی جماعت میں داخلہ نہ لینے کی ٹھان لیا، مگر دوستوں نے’’ آخری سال ہے ‘‘کا راگ الاپ کر داخلہ لینے پر مجبور کردیا – داخلہ لینے کے بعد تو کئی ماہ تک ہم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ لاک ڈاؤن کھلے گا اور ہم کلاس روم میں بیٹھ کر ہم پڑھیں گے، مگر حالات نے تو پہلے ہی سے کچھ اور طے کر رکھا تھا – کچھ دنوں بعد آن لائن کلاسزکا آغاز ہوا، پہلا لیکچر صبح آٹھ بجے ہوتا تو دوسرا لیکچر دوپہر دو بجے- تیسرا لیکچر شام پانچ بجے تو چوتھا لیکچر رات نو بجے – اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ صرف چار ہی لیکچر تھے، اگر پانچ ہوتے تو پانچواں لیکچر شاید رات ایک بجے ہوتا – لاک ڈائون کی وجہ سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد مالی حالت کا شکار ہوچکی تھی،تعلیمی سفر جاری رکھنا مشکل تھا ،بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ فیس کی ادائیگی کی خاطرکام کرنے کے لئے کمپنیوں کا رخ کیا۔لہذا طلبہ کی آن لائن لیکچرز میں شریک نا ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے- ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا لیکچرز شروع ہوئے کہ اطلاع دے دی گئی یونیورسٹی کی طرف سے امتحان کی تاریخ آچکی ہے، ہم نے داخلے کے وقت صرف فیس کی ایک قسط ہی ادا کی تھی ،اس لیے یہ بھی کالج نے اپنی طرف سے اس نوٹس میں شامل کردیا کہ اگر آپ کو امتحان دینا ہے تو فیس کی بقیہ قسط دو دن کے اندر اندر کلرک آفس میں جمع کرادیں، ورنہ آپ امتحان نہیں دے سکتے اور آپ کے پاس صرف دو دن کا ہی وقت ہے – یہ خبر طلبہ کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھی، ابھی کچھ مہینے پہلے داخلے کے وقت ایک قسط بھری گئی تھی، اتنی جلدی بقیہ قسط ادا کرنا مشکل تھا – اس امید سے ہم پرنسپل صاحب کے پاس گئے کہ وہ ہم ہر رحم کھا کر کہہ دیں گے کہ’’ بقیہ قسط کا کچھ حصہ ابھی دے دیجیے، اور بقیہ بعد میں ادا کردینا‘‘، مگر انہوں نے کالج کی سالانہ تقریب میں کہے گئے جملے (میں اپنی کالج کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھڑا ہوں…………. آپ کا اگر فیس کا مسئلہ ہو تو آپ مجھ سے بات کریں، میں آپ کی فیس میںرعایت کروں گا………) کو بالائے طاق رکھ کر فوراً کہہ دیا کہ’’ اگر آپ فیس نہیں بھر سکتے تو کالج چھوڑ دو‘‘ – لہذا کچھ فرمانبردار طلبہ نے پرنسپل صاحب کی باتوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ہوئے کالج کو الوداع کہہ دیا- جب پروفیسرز نے یہ دیکھا تو انہیں بہت دکھ ہوا، اور انہوں نے پرنسپل سے بات کی مگر تب تک دیر ہوچکی تھی کیوںکہ کئی طلبہ واپس ہوگئے تھے- خیر پھر ہم نے تو فیس کی صرف آدھی ہی قسط ادا کی – ایک پریشانی تو حل ہوگئی، مگرابھی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ سر ابھارے کھڑا تھا، آن لائن لیکچرز میں کچھ پڑھائی نہیں ہوئی تھی، ایسی صورت میں پرچے میں کیا لکھا جائے گا ؟،مگر کچھ پروفیسروں نے ان مسائل کے بھی حل نکال کر ہمیں دے دئے کہ’ امتحانات آن لائن ہوں گے، آپ کو سو سوالات مع جوابات بھیج دئے جائیں گے ،امتحان میں سوالات بھی انہی سو سوالات میں سے رہیں گے- یہ تکنیک طلبہ کو بے حد پسند آئی کیوں کہ اب تو وہ نقل بھی کرکے لکھ سکتے تھے- پہلی بار ایسا ہوا کہ کل امتحان ہے اورآج میں ابن صفی کی ناول لے کر بیٹھا تھا – امتحان کے پندرہ منٹ پہلے تک تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آج پرچہ کون سا ہے – اللہ اللہ کرکے سارے پرچے ختم ہوئے- ہم نے پڑھائی اتنی بھی نہیں کی تھی کہ ہمیں اتنا بھی معلوم ہوسکے کہ ہمارا کون کون سا مضمون ہے – پرچے ختم ہونے کے بعد کئی دنوں تک آن لائن کلاسز کا انتظار کیا گیا مگر کچھ معلوم نہیں ہوا- اس کے بعد تو گویا ہر طالب علم کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا کہ اب لیکچرز اسی وقت شروع ہوں گے جب فیس لینی ہوگی – ابھی تین دن پہلے ہی پھر سے آن لائن کلاسیز کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا، اور ابھی کل ہی گروپ میں نوٹس آئی کہ بقیہ فیس بھی جلد سے جلد آپ کو ادا کرنی ہے ‘‘- یہ وہ رودار ہے جو کل رات زبیر بھائی مجھے سنارہے تھے – ان کی باتوں سے ہمارے تعلیمی نظام سے ہونے والے کاروبار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے – حیرت انگیز مقام ہے کہ طلبہ نے پورے پرچے اس طرح لکھے کہ وہ صد فی صد نمبر لانے کے اہل ہیں،مگر انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے کتنے اور کون سے مضامین ان کے نصاب میں شامل ہے؟ – طلبہ کی ایسی حالت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مستقبل میںڈاکٹر، ٹیچر، انجینئر، بن کر کس طرح اپنے آپ کو پیش کریں گے۔کسی بھی قوم کو نست و نابود کرنے کے تین طریقے ہیں- پہلا طریقہ یہ ہیکہ اس قوم سے اس کی مادری زبان اور اس کا رسم الخط چھین لیاجائے، آج ہماری قوم کا رخ اردو کے بجائے انگریزی کی طرف ہے، قوم کے کئی نونہال اردو زبان کو بولنا بھی پسند نہیں کرتے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا رسم الخط ہم سے چھینا جا رہا ہے- دوسرا طریقہ جغرافیائی سرحدوں پر حملے کرنا، سرحدوں پر ہونے والے حملوں کی خبریں روزانہ اخبارات کی سرخیوں سے چینخ رہی ہیں – اور تیسرا اس قوم کے تعلیمی نظام میں بگاڑ پیدا کر دیاجائے، تعلیمی نظام کو ایک کاروبار بنا کر پیش کیاجارہا ہے، جس وجہ سے غر یب طلبہ تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں، ڈونیشن کے نام پر طلبہ سے موٹی موٹی رقمیں وصول کی جارہی ہے، دسویں بارہویں کامیاب لڑکے لڑکیاں اسکول و کالجوں میں معلم کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور ڈی ایڈ، بی ایڈ کرنے والے طلبہ تلاشِ معاش کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں – گزشتہ دنوں گھاٹ کوپر کے رہنے والے ایک پروفیسر سے ملاقات ہوئی، بتانے لگے کہ ’’میں PhD ہوں، ایک کالج میں بطور لیکچرر مقرر ہوا،کئی مہینوں تک لیکچرز لیا،مگر تنخواہ صرف پانچ ہزار ملاکرتی تھی۔ میں جب تنخواہ بڑھانے کے تعلق سے بات کیا تو مجھے کالج سے نکال دیا گیا،اورمیری جگہ اسی سال اسی کالج میں گریجویشن مکمل کرنے والی ایک طلبہ کو محض چار ہزار روپے کی تنحواہ کا حوالہ دے کر رکھ لیا گیا۔‘‘سر کی بات نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ جس لڑکی نے اسی سال گریجویشن مکمل کیا ہے وہ کس طرح طلبہ میں اپنی بات کی رسائی کرپائے گی۔ زبیر بھائی کی باتوں سے کہیں نا کہیں یہ محسوس ہوا کہ تعلیمی نظام میں بگاڑ کی ایک وجہ پرنسپل صاحب بھی ہیں – پرنسپل پورے ادارے کا رہبر ہوتا ہے، بچوں کی تکالیف کو سمجھنا اور ان کے مسائل کو حل کرنا رہبر کی سب سے بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، مگر ایسے ہی کئی رہبروں نے اس تعلیمی نظام کو صرف ایک کاروبار کا درجہ دے کر چھوڑ دیا ہے- آج ہماری قوم جس دہانے پر کھڑی ہے، اسے اس دہانے سے واپس لانے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے، اور وہ تعلیم ہے – اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نظام کو کاروبار بن نے سے بچایا جائے -اور جن رہبروں نے تعلیمی نظام کو کاروبار بنایا ہوا ہیں،ان سے جواب طلب کیا جائے۔
٭٭٭