9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
دیتا رہوں گا روشنی بجھنے کے بعد بھی
میں بزمِ فکر و فن کا وہ تنہا چراغ ہوں
مذکورہ شعر آج کی تاریخ میں معروف اداکار دلیپ کمار (یوسف خان) کی شخصیت پہ صادق آتا نظر آتا ہے .
ہندی فلم انڈسٹری کو اپنی اداکاری کے بل بوتے ایک نئی پہچان اور نئے ایام دینے والے عظیم اداکار یعنی ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار بھی آخر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے. دراصل یہ رنجیدہ کر دینے والی خبر فیصل فاروقی نے دلیپ کمار کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے دیتے ہوئے کہا کہ ‘انتہائی دکھ کے ساتھ میں دلیپ صاحب کی وفات کی تصدیق کر رہا ہو جن کی موت کچھ منٹوں پہلے ہوئی۔ ہمیں خدا نے بھیجا ہے اور ہم اسی کے پاس واپس جانا ہے۔’ اس سے پہلے اکثر اوقات جب وہ بیمار پڑے ہیں تو ان کی موت کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی پہلے پہل تو ان شائقین و مداحوں نے یہی سوچا تھا کہ یہ خبر بھی شاید افواہ ہو. لیکن جیسے ہی ہندوجا ہسپتال کے ڈاکٹروں اور دلیپ کمار کے ترجمان فیصل فاروقی نے انکی موت کی تصدیق کی تو پوری دنیا میں ان کے چاہنے والوں میں ایک سوگ و افسردگی کی لہر دوڑ گئی. یہاں قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز چل رہی تھی اور انھیں کئی بار ممبئی کے ہسپتالوں میں داخل کروایا جاتا رہا ۔
گزشتہ روز دلیپ کمار کے ڈاکٹر جلیل پالکر نے یہ اطلاع دی کہ یوسف خان عرف دلیپ کمار نے بدھ کو اپنی آخری سانسیں 7 جولائی کی صبح سات بج کر 30 منٹ پر لیں۔ ڈاکٹر جلیل کا کہنا تھا کہ ان کی موت کی وجہ طویل عرصے سے جاری عارضے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل گزشتہ ہفتے فیصل فاروقی نے بتایا تھا کہ انھیں عمر کے اس حصے میں طبی عارضوں کی وجہ سے ممبئی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ چنانچہ چھ جون کو بھی دلیپ کمار نے سانس لینے میں دشواری کی شکایت کی تھی جس کے بعد انھیں ہسپتال داخل کیا گیا۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی احسان خاں کا بھی ممبئی کے لیلا وتی ہسپتال میں انتقال فرما گئے تھے ۔بیانوے سالہ احسان خان کورونا وائرس سے متاثر تھے. جب اس قبل دلیپ کے ایک اور چھوٹے بھائی اسلم خاں کا 88 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بھی کورونا سے متاثر تھے اور لیلاوتی اسپتال میں علاج کے دوران ان کا انتقال ہوا تھا۔
جب ہم یوسف خان عرف دلیپ کمار کی گزشتہ زندگی پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو بنا شک آپ کو ہندوستانی فلمی دنیا میں بیسیویں صدی کے سب سے بڑے اداکار کے طور پر تسلیم کرتے ہیں .
دلیپ کمار کا اصلی نام یوسف خان تھا آپ پشاور موجودہ پاکستان میں ایک پشتون خاندان میں گيارہ دسمبر سن 1922 میں پیدا ہوئے تھے۔آپ کا اصلی نام یوسف خان تھا آپ کے والد کا نام لالہ غلام سرور جبکہ والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کا آبائی مکان آج بھی محفوظ ہے اور اسے اب حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دے دیا ہے۔
منفرد اندازا کے لیے انہیں ٹریجڈی کنگ یعنی شہنشاہ جذبات کے لقب سے نوازا گیا. ہندوستانی فلموں میں دلیپ کمار نے اپنی فطری اداکاری کے ساتھ مختلف النوع کرداروں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یوسف خان (دلیپ کمار) اپنی خوبصورت شکل و صورت کے ساتھ ہی گھمبیر آواز میں مکالموں کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
یوسف کے والد پھلوں کا کاروبار کرتے تھے اور بچپن میں دلیپ کمار بھی اپنے والد کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ روزگار کی تلاش میں کم عمری میں ہی انہوں نے صنعتی شہر بمبئی کا سفر کیا اور ممبئی پہنچ کر برطانوی فوج کی ایک کینٹین میں کام کرنا شروع کر دیا. چنانچہ اسی کینٹین میں ایک بار اس وقت کی معروف اداکارہ دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رائے کی ان پر نظر پڑی۔ اس خوبرو نوجوان سے بات چیت کے بعد انہیں فلم میں اداکاری کی پیشکش کی۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ دیویکا رانی نے ہی انہیں یوسف خان کے بجائے دلیپ کمار نام اپنانے کا مشورہ دیا تھا ۔ دلیپ کمار کی بطور اداکار سن 1944 میں ریلیز ہونے والی پہلی فلم ‘جوار بھاٹا تھی۔ باکس آفس پر یہ کوئی بہت کامیاب فلم نہیں تھی۔ دریں اثناء تقریباً تین برس بعد1947 میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ فلم ‘جگنو کی اور یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی جس کی وجہ سے فلمی دنیا میں ان کی پہچان بڑھ گئی۔ پھر سن 1949 میں انہوں نے اس وقت کے بڑے اداکار راج کپور کے ساتھ مل کر فلم ‘انداز میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور اس فلم کی ہیروئن نرگس تھیں۔ اسی فلم میں ان کے شاندار اسٹائل اور عمدہ لب و لہجے نے انہیں ایک مقبول و ہر دلعزیز سٹار بنانے میں اہم رول ادا کیا. جبکہ1951 میں انہوں نے فلم ‘دیدارکی اور اگلے ہی برس ان کی مشہور فلم داغ ریلیز ہوئی۔ ان دونوں میں انہوں نے ایک ٹریجڈی ہیرو کا کردار ادا کرتے ہوئے جن جذبات اور تاثرات کا اظہار کیا، اس سے نہ صرف فلم شائقین محظوظ ہوئے بلکہ فلمی امور کے ماہرین نے بھی ان کی اداکاری کی سراہنا کیے بغیر نہ رہ سکے. یہاں قابل ذکر ہے آپ کو داغ فلم میں بہترین اداکاری کے لیے پہلے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گيا۔ 1955 میں ان کی مشہور فلم ‘دیوداس’ آئی اور اس کے لیے بھی انہیں فلم فیئر ایورڈ دیا گیا۔جبکہ اسی دوران مشہور فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی اور کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلتا رہا تھا.
پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا تو بالی وڈ انڈسٹری میں ان کا وقار بڑھتا گیا ان کی معروف رومانی فلموں میں ‘آن، ‘آزاد،انسانیت، اور ‘کوہ نور،شامل ہیں یہ فلمیں دراصل ان کی مذکورہ فلمیں اس بات کی گواہی ہیں کہ دلیپ کمار نے رومانٹک ہیرو کے طور پر بھی ایک شاندار روایت چھوڑی۔ جبکہ 1960 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم “مغل اعظم” جہاں خود ایک شاہکار تھی وہیں مغل شہزادے سلیم کے کردار میں دلیپ کمار کی اداکاری کی سبھی نے تعریف کی.
دلیپ کمار کی مشہور فلموں میں ، مدھو متی، گنگا جمنا، رام شیام، نیا دور، کرانتی، ودھاتا اور کرما بالی ووڈ کی بہترین مانی جاتی ہیں. اس کے سبھاش گھئ نے دلیپ کمار کو لیکر ان کے شائقین کو کئی شاہکار فلمیں دیں جن میں ودھاتا، کرما اور سوداگر شامل ہیں. جہاں سوداگر میں ان کے مد مقابل راج کمار نے کام کیا تو وہیں شکتی میں انھوں نے امیتابھ بچن کے باپ کا رول کرتے ہوئے اپنی بہترین اداکاری کا ایک بار پھر سے لوہا منوایا.
دلیپ کمار نے متعدد بار فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور سن 2015 میں بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سویلین اعزاز ‘پدم بھوشن‘ اور 1994میں فلموں کے سب سے بڑے ایوارڈ ‘دادا صاحب پھالکے ایوارڈ’ سے نوازا گیا تھا۔ سن 1997 میں حکومت پاکستان نے بھی دلیپ کمار کو اپنے اعلی سول اعزاز نشانِ امتیاز سے نوازا.
اس کے علاوہ کانگریس پارٹی نے دلیپ کمار کو پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا اور اس طرح وہ چھ برس تک رکن پارلیمان بھی رہے۔ دلیپ کمار نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ابتدا میں بطور اداکار وہ اشوک کمار کی کے انداز سے بے حد متاثر تھے پھر اشوک کمار نے ہی ان سے نیچرل انداز اپنانے کا مشورہ دیا تھا۔ اشوک کمار اور دلیپ قریبی دوست بھی تھے۔ اس دور میں راج کپور، دیوا آنند اور دلیپ کمار بالی ووڈ کے سب سے بڑے نام تھے اور یہ تینوں آپس میں گہرے دوست بھی تھے۔ فلم انڈسٹری میں دلیپ کمار کا ستارہ جب عروج پر تھا ان کے ساتھی اداکاراؤں کے ساتھ معاشقوں کے بھی کافی چرچے رہے۔ اس میں سب سے پہلے کامنی کوشل کا نام آتا ہے۔ جب مدھو بالا سے ان کے تعلق کے بارے میں بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو ملتا رہا۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ فلم ترانہ کی شوٹنگ کے دوران ان کی مدھو بالا سے دوستی ہوئی تھی اور کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سات برس تک ان کا یہ رومان چلا۔اس کے بعد بعض اختلافات کے نتیجے میں دونوں میں ایسے اختلاف پیدا ہوئے کہ فلم مغل اعظم کے بعد کبھی بھی ایک ساتھ کام نہیں کیا ۔ اس کے بعد اداکارہ معروف ڈانسر و اداکارہ وجنتی مالا سے بھی ان کے معاشقے کے بارے میں بہت کچھ منظر عام پر آتا رہا ۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ پردے پر بھی دلیپ کمار اور وجنتی مالا کی جوڑی نے خوب سرخیاں بٹوریں بلکہ شائقین نے دلیپ کمار اور و جنتی مالا کی جوڑی کو بہت زیادہ پسند کیا۔
یہاں قابل ذکر ہے کہ 1966 میں دلیپ کمار نے اداکارہ سائرہ بانو سے پہلی شادی کی، جو اس وقت عمر میں ان سے 22 برس چھوٹی تھیں۔ سن 1981 میں انہوں نے حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون اسما صاحبہ سے دوسری شادی کی۔ تاہم یہ دوسری شادی زیادہ دیر تک نہ چل سکی اور 1983 میں دونوں کے بیچ طلاق ہو گیا ۔ لیکن وہیں سائرہ بانو دلیپ کمار کے ہمراہ آخری لمحات تک سایہ طرح ساتھ بنی رہیں.
لیکن قدرت کا کھیل دیکھیں کہ دلیپ کمار کو ان دونوں بیویوں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی اور وہ تا عمر لاولد رہے.لیکن اولاد کے ضمن میں اپنی سوانح عمری سبسٹنس اینڈ دی شیڈو میں دلیپ کمار نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 1972 میں، “سائرہ بانو امید سے تھیں تاہم حمل کے آٹھویں ماہ میں سائرہ کو پیچیدگیاں شروع ہوئیں اور بالآخر ڈاکٹر بچے کو بچا نہ سکے۔” اس کے بعد دونوں نے خدا کی مرضی سمجھ کر کے کبھی دوبارہ کوشش نہیں کی۔
دلیپ کمار کو اردو ادب سے بڑی دلچسپی تھی اور انہیں جب بھی موقع ملتا وہ نہ صرف اس زبان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کئی بڑے مشاعروں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی طور پر بھی ایسی محفلوں کا انعقاد کرواتے رہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یوسف خان کو کرکٹ کا بھی شوق تھا اور پکوان میں بھی خاص دلچسپی رکھتے تھے ۔
دلیپ کمار امن و شانتی کے کس قدر خواہاں تھے اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگا یا جا سکتا ہے کہ جب 1999میں بھارت پاکستان کے درمیان کارگل جنگ کو لیکر حالات کشیدہ تھے تو اس دوران آنجہانی وزیر اعظم واجپئ نے نواز شریف کو فون کر کہا تھا کہ ” ایک طرف تو آپ ہمارا لاہور میں گرمجوشی سے خیر مقدم کر رہے تھے لیکن دوسری طرف آپ کی فوج کارگل میں ہماری زمین پر قبضہ کر رہی تھی.” اس کے جواب میں نواز شریف نے کہا تھا کہ آپ جو بھی کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے آپ مجھے سمجھا دیں میں اپنے فوج کے اعلیٰ افسر جنرل پرویز مشرف سے اس حوالے سے بات کر آپ کو فون کرتا ہوں. اس ضمن میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی سوانح عمری ‘نیدر اے ہوک نور اے ڈَو’ میں رقمطراز ہیں کہ ٹیلی-فون پر بات چیت ختم ہونے سے واجپئ نے نواز شریف کو کہا، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے پاس بیٹھے ایک شخص سے بات کریں جو کہ ہماری بیچ ہونے والی تمام گفتگو سن رہا ہے. ”
چنانچہ نواز شریف نے اس وقت فون پر جو آواز سنی دنیا وہ ٹریجڈی کنگ سے معروف اداکار دلیپ کمار کی تھی جسے دونوں ممالک کے عوام ہی بے حد پسند فرماتے تھے. اس موقع پر دلیپ کمار نے کہا کہ” میاں صاحب ہمیں آپ سے یہ امید نہیں تھی اب شاید اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ جب بھی بھارت پاکستان کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے، بھارت کے مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہو جاتی ہے اور انھیں اپنے گھروں سے باہر نکلنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں حالات پہ قابو پانے کے لئے جلدی ہی کچھ کریں. ”
بلک اس وقت خبریں یہ بھی آئی تھیں کہ دلیپ کمار پاکستان کی طرف سے عطا کردہ نشان امتیاز بھی واپس کرنے کو کہہ رہے تھے.
یہاں قابل ذکر ہے دلیپ کمار اور سائرہ بانو نے 2013 میں مکہ کا سفر کیا اور ایک ساتھ حج ادا کیا۔ یقیناً دلیپ کمار کی موت سے جو ہندوستان کی فلم میں ایک خلاء پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی ہو پانا قطعاً ممکن نہیں ہے.
آخر میں یوسف خان کو اقبال کے اس شعر کے ساتھ ہی خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ملیرکوٹلہ ،پنجاب رابطہ :9855259650