صوفی روایات میں تشدد کی گنجائش نہیں- There is no room for violence in Sufi traditions

0
92

There is no room for violence in Sufi traditions

ڈاکٹر ساحل بھارتی
صوفیانہ روایات ہمیشہ سے ہی ہندوستان کی قدیم ثقافت کا حصہ رہی ہیں۔ ہندوستان میں تصوف نے اپنی آمد کے ساتھ ہی روایتی اور مذہبی شناختوں پر مبنی تمام اختلافات کو اپنے ساتھ شامل کیا جو اسلام سے قبل ہندوستان میں موجود تھے۔ تصوف نے آرتھوڈوکس اور قدامت پسندانہ نظریات کو ترک کرکے معاشرتی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں مدد فراہم کی ہے۔ صوفیا کے سیرت مندانہ رفاہی اور سماجی سلوک نے بہت سارے برادران وطن کو اپنی طرف متوجہ کیا، جس کے نتیجے میں پورے برصغیر میں امن و ہم آہنگی قائم کرنے میں آسانیاں میسر آئیں۔ صوفی اسلام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوںکے نظریاتی مسائل اور فرقہ وارانہ اختلاف کو ختم کرے اور اسلام کے امن و امان والے چہرے کو پوری دنیا میں پھیلائے۔مگر بدقسمتی سے تصوف اور اس کا جوہر کچھ نام نہاد صوفیوں(جو سیاسی طور پر متحرک ہیں یا دشمن ممالک کی رہنمائی میں کام کررہے ہیں) کے بنیاد پرست نقطہ نظر کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی مطابقت کھو رہا ہے ۔ اس زمرے کے تمام صوفیوں میںسید سرور چشتی کا نام خصوصی ذکر کرنے کا مستحق ہے۔
درگاہ اجمیر شریف کے خادم ہونے کے باوجود سید سرور چشتی کی شبیہ آج ایک سخت گیر مسلمان جیسی بنتی جا رہی ہے جو کسی خانقاہ سے جڑے ہوئے افراد خاص طور پر ہندوستانی تصوف کے مرکز اجمیر شریف سے جڑے ہوئے صوفی کی تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ ابھی حتمی طور پر کسی نتیجے پر پہنچنا جلد بازی بھی ہو سکتا ہے تاہم ان کی موجود سرگرمیاں انہیں شکوک و شبہات کے گھیرے میں لا کھڑا کرتی ہیں۔اپنے بے باک زبان و بیان کے لئے سید سرور چشتی پہلے سے ہی سرخیوں میں رہے ہیں لیکن ان کی حالیہ کارکردگیاں ایک نئے سیاسی فکر کا آغاز معلوم ہو رہی ہیں۔سید سرور چشتی کا تعلق پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) اورسوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا(SDPI) جیسی بنیاد پرست تنظیموں کے ساتھ ہونا اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان لگاتاہے۔ایک طرف اس طرح کی تنظیمیوں، ان کے بانیان اور وابستگان صوفی روایت کے سخت مخالف رہے ہیں اور آج تک اس فکر کے مخالف ہیں وہیں دوسری طرف PFI اس وقت دہشت گردی اور انسداد قومی سرگرمیوں سے متعلق دسیوں مقدمات میںقومی تفتیشی ایجنسی کے ذریعہ داعش سے رشتہ اور اسلحہ کی تربیت جیسے مقدمات میں زیر تفتیش ہے۔جبکہ متعدد ریاستی پولیس سینکڑوں مجرمانہ مقدمات سمیت ان کی تحقیقات کر رہی ہیں۔یہ الزامات صرف ان ایجنسیوں کی طرف سے عائد نہیں ہیں بلکہ کئی جگہ خود ان اداروں نے اس بات کو قبول کیا ہے۔سید سرور چشتی نے حال ہی میں PFI کی حمایت میں ایک بیان دیا تھا اور ان کی مجرمانہ حرکتوں کو مسلمانوں کو بااختیار اور طاقتور بنانے کے جواز کے ساتھ پیش کیا تھاجوایک صوفی مبلغ کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان تھا۔سید سرور چشتی کا نام PFI / SDPI کی کھلی حمایت کے علاوہ، اجمیر شریف میں CAA/ NRC مخالف مظاہروں کو فعال طور پر منعقد کرنے اور درگاہ اجمیر شریف کے احاطے میں CAA مخالف مظاہروں میں ملک مخالف بیانات دینے اور پر امن سیکولر درگاہ کی فضا کو خراب کرنے کی ناکام کوشش کے لئے بھی درج کیا گیا ہے۔ سرور چشتی کی تمام سرگرمیاں ایک صوفی مبلغ کی حیثیت سے ان کی سندوں پر سوال اٹھاتی ہیں اور اسے مفاد پرست کے ساتھ ایک سیاستدان کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔
سید سرور چشتی کی متواتر پریس ریلیز اور ویڈیوز جن میں انہوں نے ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کو پاکستانی میڈیا نے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو بدنام کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر نقل کیا۔ اس اقدام کے انجام کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سرور چشتی کی دوسری بیوی پاکستان کے آرمی افسر کی بیوہ ہے جس کے توسط سے پاکستان کے متعدد اعلی فوجی عہدیدار سے ملاقات کی اور وہ وہاں کی فوج کے قیام میں ایک پسندیدہ شخصیت بنے۔ وہ دشمن ملک کی فوج کے قیام کے قریب کیا حاصل کرنے کے لئے گئے؟ کیا کوئی دوسرا صوفی اس طرح کی حرکتیں کررہا ہے؟ صوفیوں کے انتہائی پرامن چہرے کو بدنام کرتے ہوئے سید سرور چشتی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہوئے جس کی وجہ سے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 اے، 153 بی، 147، 148، 307 وغیرہ اور اسلحہ کی دفعہ 4/25 کے تحت مختلف مقامات پر ایف آئی آر درج کی گئیں۔
سرور چشتی PFI جیسی بنیاد پرست تنظیموں کی اپنی دلچسپی اور مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے مسلم مظلومیت کا کارڈ کھیل رہے ہیں، اس معاملے میں ریاستی مداخلت ہمارے معاشرے کے ایک خاص طبقے میں بدعنوانی اور تکلیف کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا، مسلم تشدد کے کارڈ کی غیر یقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، اس کا آغاز سول سوسائٹی اور دانشوروں پر ہے کہ وہ مواصلات کے جدید ٹولوں کا استعمال کرتے ہوئے اجتماعی پہل کریں۔سید سرور چشتی کی اچانک PFI اور SDPI سے دوستی اور ان کے حق میں بیان بازی پہلی ہی نظر میں سوال کھڑا کر دیتی ہے۔ کیونکہ سید سرور چشتی کا تعلق جس مقام سے ہے وہاں تشدد اور فرقہ واریت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ درگاہ اجمیر شریف ملک بھر میں قومی ہم آہنگی اور امن آشتی کے مرکز کی حیثیت مشہور ہے اور یہ وہاں کے خدام و سجادگان کی دینی، اخلاقی ، مذہبی اور منصبی ذمہ داری ہے کہ اس درگاہ کی صوفی روایات کی پاسداری کا ہر حال میں خیال رکھا جائے۔حالانکہ سید سرور چشتی کی اس جدید شبیہ کو لے کر درگاہ اور خانقا سے جڑے معتبر افراد کو ان سے بات کر کے معاملے کی توضیح کرنی چاہئے۔تاکہ صوفی روایت کے پر تشدد اداروں، تنظیموں، جماعتوں اور اداروں سے وابستگی کو صاف کیا جا سکے۔ نیز یہ بھی معلوم کیا جا سکے کہ ہندوستانی تصوف کے مرکز کا مبلغ صوفی روایات کے مخالف اداروں کا آلہ کار بننے پر کیوں آمادہ ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ صوفی روایت میں تشدد کی ذرا سی بھی گنجائش نہیں ہے۔ امن، رواداری اور اخوت و بھائی چارگی ہی صوفی روایت کی روح ہے۔ اس کی مخالفت صوفی روایات و اقدار کی مخالف ہے۔٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here