عادل فراز
گیارہ روزہ خونریز اور تباہ کن جنگ کے بعد بالآخر اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ بند ی کا یہ فیصلہ وقتی ثابت ہوگا کیونکہ فلسطینی تنظیمیںاب فیصلہ کن نتائج چاہتی ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حماس کبھی اسرائیل پر حملہ نہیں کرتا۔ یہ حملہ بتلا رہاہے کہ اب فلسطینی اپنے مسائل کا تصفیہ چاہتے ہیں۔جنگ بندی کے اعلان سے ٹھیک پہلے حماس نے اسرائیل پر آخری حملہ کیا اوریہ پیغام دیاکہ جنگ بندی ان کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔جنگ بندی پراتفاق اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ پیشکش اسرائیل کی طرف سے کی گئی تھی ۔اسرائیل کی یہ پیش کش در اصل اپنی شکست کا واضح اعلان تھا جسے پوری دنیا نے سنا اور تسلیم کیا ۔جنگ بندی کے اعلان کے بعد فلسطینی عوام اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے سڑکو ں پر نکل آئی ۔آتش بازی کی گئی ۔روایتی اندازمیں لوگوں نے اظہار خوش کیا اور شہداء کے خانوادوں کے ساتھ فتح کی خوشیاں بانٹیں۔’گودی میڈیا‘ اسرائیل کی کامیابی کے قصیدے پڑھ رہاہے لیکن کوئی اس سے سوال کرے کہ اگراس جنگ میں فلسطین کو شکست ہوئی ہے تو پھر اسرائیلی عوام کی طرف سے فتح کے جشن کا کوئی ویڈیو سامنے کیوں نہیں آیا؟ جنگ بندی کےاعلا ن کے بعد اسرائیلی عوام زیر زمین پناہ گاہوں سے نکل کر اپنے گھروں کی طرف لوٹتی نظر آئی مگر پورےاسرائیل میں کہیں بھی جشن کا ماحول دکھائی نہیں دیا۔’گودی میڈیا‘ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہارے ہوئے لوگ جشن نہیں مناتے ۔یہ حقیقت ہے کہ فلسطینیوں نے اس فتح کو حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دیں ،چھوٹے چھوٹےبچوں کے جنازے دیکھے ۔نوجوانوں کی لاشوں کو کاندھا دیا ۔اپنے گھروں کو زمین دوزہوتے ہوئے دیکھا ۔زخمیوں کی فلک شگاف چیخیں سنیں ۔مگر ’فتح مبین ‘ بغیر قربانیوں اور شہادتوں کے حاصل نہیں ہوتی ،یہ فلسطینی بخوبی جانتے ہیں۔
قابل غور امریہ ہے کہ جنگ کا آغاز یوم قدس کے فوراََ بعد ہوا۔یوم قدس جو ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو امام خمینی کے اعلان پر فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کے لیے منایا جاتاہے ۔اسی دن بیت المقدس میں اسرائیلی فوج نے جارحیت کا آغاز کیا جس میں سات سو زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ۔اسرائیلی فوج کی اس جارحیت نے حماس کو حملے پر مجبور کیا۔فلسطین کی طرف سے اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف یہ پہلا ایسا مؤثر حملہ تھا جس نے اسرائیلیوںکی نیند حرام کردی۔یوم قدس کو جنگ کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی برکتوں نے جنگ کے نتائج کو فلسطین کے حق میں کردیا۔یوم قدس کے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھاکہ اسرائیل کوئی ملک نہیں بلکہ دہشت گردی کا اڈہ ہے ۔ان کے اس خطاب کے فوراََ بعد بیت المقدس میں جمعۃ الوداع کے روز فلسطینی نمازیوں پر اسرائیل نے جارحیت کاآغاز کردیا ۔رفتہ رفتہ یہ جارحیت بڑی جنگ میںتبدیل ہوگئی ۔اسرائیل کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ اب فلسطینی مزاحمتی تنظیمیں کمزور نہیں بلکہ وہ اپنے دفاع پر قادر ہیں ۔جس فلسطین کے پاس اپنی آرمی تک نہ ہو اس کی چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تنظیموں نے جنگ کو گیارہ دنوں تک کامیابی کے ساتھ جاری رکھا ،یہ آسان کام نہیں تھا ۔اسرائیلی فوج کا جنگ بندی کی پیش کش کرنا یہ بتلا رہاہے کہ اب اسرائیل اپنے وجود کے لیے فکر مند ہوگا۔اس کا وجود ظلم و دہشت گردی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا جس پر اب حماس اوردیگر مزاحمتی تنظیموں نے فتح حاصل کرلی ہے ۔
نتین یاہو نے جنگ بندی پر اتفاق رائے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہاکہ اگر ایران فلسطینی تنظیموں کا تعاون نہ کرتا تواسرائیل دو ہفتوں میں فلسطین کا صفایا کردیتا۔نتین یاہو کا یہ اعتراف کئی حقائق کا انکشاف کرتاہے ۔اسرائیلی وزیر اعظم کا یہ قول بتارہاہے کہ فلسطین اپنے دفاع میں کامیاب رہا اور اسرائیلی جارحیت اور دہشت گردی کا کامیاب مقابلہ کیا۔نتین یاہو نے اپنے اس بیا ن کے ذریعہ ایرانی دفاعی قوت کا بھی اعتراف کیاہے ۔اگر ایران کا تعاون فلسطینی مقاومتی تنظیموں کو ناقابل شکست بناسکتاہے تو پھر ایران کی اسلحہ جاتی اور فوجی طاقت کا اندازہ ممکن نہیں !اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان ان کی شکست کو بھی ظاہر کررہاہے ۔ورنہ اسرائیلی دفاعی نظام اور فوجی طاقت کا ہوّا دنیا بھرمیں قائم تھا، جس کی حقیقت سامنے آچکی ہے ۔حماس کے مسلسل حملوں کے جواب میں اسرائیلی افسران یہی کہتے رہے کہ ہمارا زیادہ نقصان نہیں ہوا،بلکہ ہمارے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ نے حماس کے حملوں کو ناکام بنادیا ہے ۔اگر ایسا تھا تو پھر جنگ بندی کی نوبت کیوں آئی ؟ اور نتین یاہو کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ اگر ایران فلسطینی تنظیموں کا تعاون نہ کرتا تو ہم دو ہفتوں میں فلسطین کا صفایا کردیتے؟جبکہ جنگ بندی سے ایک دن پہلے نتین یاہو نے کہا تھاکہ ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک حماس کو ختم نہیں کردیتے ۔مگر اگلے ہی دن جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا اور نتین یاہو حماس کی دفاعی قوت کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے ۔حماس نے جنگ بندی کی پیشکش نہیں کی بلکہ اسرائیل کی طرف سے کی گئی یہ پیشکش اس کی شکست اور خو ف کو ظاہر کررہی ہے ۔جنگ بندی پر اتفاق رائےسے ٹھیک پہلے آخری حملہ حماس نے ہی کیا تھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اسرائیل پر اپنی برتری ثابت کردی ۔جنگ بندی کب تک رہے گی یہ بڑا سوال ہے کیونکہ اب فلسطینی عوام اور مزاحمتی تنظیمیں اسرائیل کے خلاف متحد ہوچکی ہیں ۔یہ جنگ بندی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے ۔
بے غیرت مسلم ممالک کو بھی اب یہ سمجھنا چاہیے کہ جب فلسطین کی مقاومتی تنظیمیں اسرائیل کو شکست دے سکتی ہیں توان کے دل و دماغ پر اس کا خوف کیوں طاری ہے ؟ آخر انہوں نے اس جنگ میں کھل کر فلسطینی مظلوموں کی حمایت کا اعلان کیوںنہیں کیا؟ ۔تمام مسلمان ممالک فلسطین کی حمایت کے زبانی دعوے کرتے رہے اور کسی نے کوئی عملی اقدام نہیں کیا،یہ افسوس ناک ہے ۔او۔آئی۔سی ۔کااجلاس کسی اہم نتیجے تک پہونچنے میں ناکام رہا کیونکہ او۔آئی۔سی ۔میں شامل تمام ممالک استعمارکے زرخرید غلام ہیں اور وہ کسی بھی حال میں اسرائیل کے خلاف نہیں جاسکتے ۔اسی طرح اقوام متحدہ کہ جس نے آج تک صرف قراردادیں پاس کی ہیں ،اس نے بھی فلسطینی مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔یوں بھی اقوام متحدہ سرمایہ کاروں کا آلۂ کار اور استعماری طاقتوں کا طوطا ہے ۔اس نے آج تک کسی مظلوم کی مدد نہیں کی بلکہ استعماری طاقتوں کو فائدہ پہونچانے کے لیے کام کیاہے ۔دنیا کوقیام امن کے لیے ایسے دفتروں اور تنظیموں کی ضرورت نہیں ہے جوناگفتہ بہ حالات میں عملی اقدام کرنے کے بجائے دکھاوٹی اجلاس کرتے رہیں ۔سعودی عرب اور اس کے تمام حلیف ممالک کو فلسطین کی مقاومتی تنظیموں سے جرأت اور جواں مردی کا سبق سیکھناچاہیے ۔بغیر جذبۂ مزاحمت و شہادت کے استعمار کی غلامی سے نجات نہیں مل سکتی ۔انہیں ایران کی قیادت سے درس حاصل کرنا چاہیے جس نے بلا تامل مظلومین و مستضعفین کی حمایت کی اور استعماری طاقتوں کے ساتھ پنجہ آزمائی میں اپنے داخلی مفادات کی بھی پرواہ نہیں کی ۔اسماعیل ہنیہ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط لکھ کرجنگ کی صورتحال سے باخبر نہیں کیا تھا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا تھاکہ ہمیں فقط ایرانی قیادت پر اعتماد ہے اور سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک سے فلسطین کوکوئی توقع نہیں ۔اسماعیل ہنیہ کا خط آیت للہ خامنہ ای کے نام نہیں تھا بلکہ تمام مسلمان ملکوں کی بے غیرت قیادت کے نام تھاکہ ہم تمہاری مدد کی امید پر میدان جنگ میں نہیں اترے ہیں بلکہ اپنے جوانوں کے جذبہ ٔ شہادت ،آیت اللہ خامنہ ای کی رہبریت اور خد ا کی نصرت کے بھروسے پر دشمن کے ساتھ نبردآزمائی کے لیے نکلے ہیں ۔فلسطین کی کامیابی کے بعد بھی کسی مسلمان ملک نے فلسطین کو جیت کی مبارکباد نہیں دی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان پر استعما ر کا کس قدر خوف مسلط ہے ۔جنگ بندی کے فیصلے کو سراہنا اور امن کی اپیلیں کرنا دراصل اپنی بزدلی کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے ۔
المیہ یہی ہے کہ مسلمان ملکوں کے پاس شجاع اور مدبرانہ قیادت موجود نہیں ہے ۔بزدل اور مفاد پرست شہزادے اپنا اقتدار بچانے کی فکر میں سرگرداں ہیں ۔انہیں نہ تو ملت اسلامیہ کے مفادات کی پرواہ ہے اور نہ اسلام کے کھلے ہوئے دشمنوں سے پنجہ آزمائی کی فکر ۔وہ تو بس خانۂ کعبہ اور قدرتی ذخائر کی آمدنی سے عیش و عشرت میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ ان کے حرم بھی مخبروں اور جاسوسوں کے حصار میں ہیں۔ظاہراََمسند حکومت پر وہ جلوہ افروز ہیں مگر ان کی لگام استعمار کے ہاتھ میں ہے ۔وہ جب چاہے ان کے نیچے سے اقتدار کی کرسی کھینچ سکتاہے ۔
گیارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کو شکست فاش دیکر فلسطینی تنظیموں نے دنیا کے دلوں سے اسرائیل کا ڈر نکال دیا ہے ۔جو ممالک اسرائیل کو ناقابل تسخیر سمجھ رہے تھے انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ واقعی اسرائیل مکڑی کے جالےسے بھی زیادہ کمزور ہے ۔ اندھ بھکتوں بھی یہ سمجھناچاہیے کہ اگر فلسطینی مقاومتی تنظیمیں گیارہ دنوں تک کامیابی کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کرسکتی ہیں تو پھر اس کے دفاعی نظام اور فوجی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اسرائیل پر حدسے زیادہ انحصار تباہی کا عندیہ ہے ۔کیونکہ جو ملک اپنا دفاع نہیں کرسکتا وہ دوسروں کو کیسے تحفظ فراہم کرے گا؟۔’گودی میڈیا‘ اسرائیل کی حقیقت کو بخوبی جانتاہے مگروہ اسرائیل کو بے نقاب نہیں کرسکتا کیونکہ عالمی میڈیا استعمار ی نظام کا ایک حصہ ہے ۔ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیل کی اس شکست فاش سےمسلمان ممالک اور ’گودی ‘ میڈیا کو عبرت ملے گی ۔٭
7355488037