ماہ ذوالحجہ اور اس کے ابتدائی دس دن- The month of Dhu al-Hijjah and its first ten days

0
225

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

The month of Dhu al-Hijjah and its first ten days
ذکی نور عظیم ندوی(لکھنؤ)

ذوالحجہ اسلامی ہجری سال کا آخری مہینہ ہی نہیں بلکہ یہ حج، قربانی اور اسلام کے چار محترم مہینوں میں بھی ہے، اس طرح یہ مختلف عبادتوں، فضیلتوں، قربانیوں اور گزرے ہوئے ماہ و ایام کے احتساب اور اس میں کئے گئے اعمال کے جائزہ اور ہونے والی کوتاہیوں کی معافی اور تلافی کا مہینہ بھی ہے۔
یہ حج کے مہینوں شوال، ذو قعدہ اور ذو الحجہ میں بھی ہے جس میں حج کے لئے سفر، حج تمتع اور قران کا عمرہ اور اسکے دوسرے بیشتر اعمال قیام منی، وقوف عرفہ، مبیت منی و مزدلفہ، رمی جمار، حج میں جانور ذبح کرنا، بال بنوانا،طواف قدوم و طواف زیارت، سعی اور طواف وداع غرض حج کے تمام ارکان و اعمال کئے جاتے ہیں۔
یہ مہینہ اشہر حرم (محترم اسلامی مہینوں) ذو قعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب میں بھی ہے جس میں ظلم و زیادتی قتل و خوں ریزی، حق تلفی اور دیگر محرمات اور برائیوں کو سخت ناپسند قرار دیا گیا، جس کا احترام تمام عرب قبائل پہلے بھی کرتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تمام مسلمانوں سے بھی اس کی عظمت و تقدس اور حرمت کے احترام کا پابند کیا گیا۔
ماہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن دینی اعتبار سے خصوصی طور پر بہت عظمت و فضیلت کے ایام ہیں۔ان ایام کو عید قرباں سے پہلے اسی طرح خیرو برکت اور بے شمار فضائل کا سبب بنایا گیا ہے جس طرح عید الفطر سے پہلے رمضان کے آخری عشرہ کو۔ ان ایام کی عظمت کی وجہ سے ہی اللہ نے سورہ فجر میںقرآن میں اس کی قسم بھی کھائی ہے۔
مذکورہ بالا وجوہات اور دیگر بے شمار فضیلتوں کی بنا پر کئی حدیثوں میں ان ایام کو دنیا کا سب سے زیادہ افضل دن قرار دیا گیا۔ ہاں رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں شب قدر کی وجہ سے ضرور افضل ہیں لیکن دن کے اعتبار سے یہ دن سب سے بہتر اور افضل ہیں یہاں تک کہ بیشتر علماء نے دن کے اعتبار سے ان ایام کو رمضان کے دنوں سے بھی زیادہ افضل قرار دیا ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جس میں ان ایام کو دنیا کے سب سے عظیم ایام قرار دیا گیا ہے۔
ان دنوں تمام نیک اعمال کی اہمیت و فضیلت ہی نہیں بلکہ ان کے ثواب میں بھی بے شمار اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ بخاری شریف کی حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان دنوں کی تمام چھوٹی بڑی نیکیاں کرنے والا عام مجاہد سے بھی افضل ہے ہاں وہ صرف اس مجاہد کا رتبہ نہیں پا سکتا جو جھاد میں جان و مال دونوں قربان کردے۔
یوں تو ان ایام میں حج، اس کے مختلف مناسک،قربانی اور دیگر کئی اعمالِ ہیں۔ اور عرفات کا دن جس کی اہمیت حاجیوں کے لیے بھی ہے جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ بندوں کی مغفرت فرماتے ہیں اور فرشتوں سے ان پر فخر کا بھی اعلان فرماتے ہیں۔
اسی طرح جن بندوں کو حج کا موقع نہیں ملا ان کو اس دن کے روزہ کے عوض دو سالوں، گزرے ہوئے اور آنے والے سال کے گناہوں کی معافی کا وعدہ فرماتے ہیں اور اسی وجہ سے مسلم شریف میں اس ایک دن کے روزہ کو گزرے اور آنے والے سالوں کے کفارہ کا ذریعہ قرار دیا گیا ۔
یہ تو چند خاص اعمال ہوئے جو ان ایام کے ساتھ خاص ہیں اور ان کا خصوصی طور پر اہتمام کرنا چاہئے لیکن ان دنوں میں اللہ تعالیٰ تمام چھوٹے بڑے اعمال اور ان کی کیفیات چاہے ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، مالیات سے ہو یا عبادات، اخلاق اور معاملات سے ان تمام کے اجر وثواب میں بے تحاشہ اضافہ فرما دیتے ہیں حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی دعائیں اور اذکار اللہ کی محبوبیت اور پسندیدگی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور نبی اکرمؐ ان دعاؤں کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ترغیب فرماتے ہیں اور مسند احمد کی حدیث میں “لا الہ الا اللہ” “اللہ اکبر” اور “الحمدللہ” کو پڑھنے کی بھی ترغیب دی ہے۔
اس لئے” اللہ اکبرْ۔۔۔ اللہ اکبرْْ۔۔۔ لا الہ الا اللہ”ْ۔۔۔ اللہ اکبرْ۔۔۔ اللہ اکبرْ۔۔۔ وَلِلَّہِ الحَمدْ”۔کو ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے ایام تشریق کے آخری دن 13 تاریخ تک جب بھی موقع ملے بکثرت پڑھنا چاہئے۔ اور یوم عرفہ ۹؍ ذو الحجہ کی فجر کے بعد سے 13کی عصر تک نمازوں کے بعد خصوصی طور پر اس کا پڑھنا مسنون و مطلوب ہے۔
ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام حاجیوں اور غیر حاجیوں کو دیکھتے ہوئے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اگر ان ایام میں حاجیوں کو حج کے اعمال کے ذریعہ گناہوں کی معافی اور اللہ کے قرب کا موقعہ دیا گیا ہے تو غیر حاجیوں کو عرفہ کے دن خصوصی طور پر روزہ رکھنے اور دس تاریخ سے قربانی کے دیگر ایام میں قربانی کو متبادل کے طور پر اللہ کی جانب سے عطا کیا گیا اور اسی وجہ سے اس کا نام عید الاضحی یا عید قرباں رکھا گیا ہے۔
عید قرباں اسلام کا اہم ترین شعار اور مسلمانوں کیلئے عید الفطر کے بعد خوشی کا دوسرا سب سے اہم موقع ہے۔
عیدقرباں کے ضروری امور: عید قرباں میں قربانی کے نقطہ نظر سے درج ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے۔(۱) نماز سے پہلے غسل کرنا اور جو اچھا و بہتر کپڑا موجود و میسر ہو پہننا، عطر لگانا۔جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا معمول تھا۔(۲) قربانی کا اصل مقصد صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی ہو جیسا کہ سورہ حج آیت نمبر 37 میں ہے۔’’ ان کے گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتے بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘(۳) بغیر کچھ کھائے عید قرباں کی نماز پڑھنا اور عید کی نماز پڑھ کر کچھ کھانا پینا جس کی وضاحت ترمذی کی حدیث میں کی گئی ہے’’اللہ کے رسولؐعیدالاضحی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے یہاں تک کہ نمازِ عید ادا کرلیں۔ ‘‘(۴) ہر خوش حال مسلمان کو قربانی کرنی چاہئے۔ اور اسی لئے ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں ایسا نہ کرنے والے کو سخت انداز میں خبردار کیا گیا کہ’جو شخص گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ ‘‘(۵) قربانی کا وقت نمازِ عید کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اسی لئے بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ اگر کسی نے نماز سے قبل جانور ذبح کردیا تو اسے دوسرا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ (۶) قربانی کا جانور کم از کم دو دانت والا ہونا چاہئے چنانچہ مسلم شریف میں ہے۔ ’’ کہ قربانی صرف دو دانت والے ہی کی کرو، البتہ اگر نہ ملے توایک سالہ بھیڑ قربان کرسکتے ہو۔ ‘‘(۷) قربانی کا جانور ابو داؤد کی حدیث کے مطابق عیب دار یعنی لنگڑا، اندھا، کانا یا انتہائی لاغر نہیں ہونا چاہیے۔’(۸) ایک بکری ابو ایوب ؓ کی روایت کے مطابق صرف ایک شخص اور اس کے اہلِ خانہ کی جانب سے کافی ہوگی۔
8604785277

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here