اردو تنقید کی نظری اساس کا اہم ستون : شمس الرحمٰن فاروقی

0
764

[email protected] 

9807694588(موسی رضا۔)

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


راشدہ خاتون

شمس الرحمٰن فاروقی نامور نقاد،محقق ،افسانہ نگار،ناول نگار،شاعر،مترجم،ماہر لغت و عروض اور عظیم استاد بھی تھے۔جدید ترین نقادوں میں شمس الرحمٰن فاروقی ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔وہ ۳۰؍ستمبر ۱۹۳۵؁ء کوضلع اعظم گڑھ کے کوڑیا پار نامی گاؤں میںپیدا ہوئے۔جہاں ان کا خاندان فیروز تغلق کے زمانے سے بسا ہوا ہے۔ان کے والد محمد خلیل الرحمٰن فاروقی دیندار اور علم دوست آدمی تھے۔یوں بھی ان کے گھرانے میں علم و ادب اور دین و مذہب کا گہرا اثر تھا۔نویں جماعت تک تعلیم اعظم گڑھ میں حاصل کی۔ اس کے بعد ان کا خاندان گورکھپور منتقل ہوگیا۔ جہاں سے انھوں نے گریجویشن کیا۔اس کے بعد الہ آباد یونیورسٹی سے ایم۔اے (انگریزی )کا امتحان پاس کیا۔پھر مرکزی مقابلہ کے امتحان میں شرکت کی اور آئی اے ایس کے لئے کامیاب ہوئے۔آزاد خیال ماحول میں پرورش پانے والے شمس الرحمٰن فاروقی نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کئی مقامات پر ملازمت کی۔ انھوں نے ۱۹۶۰؁ء میں ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ ۱۹۶۰؁ء سے ۱۹۶۸؁ء تک وہ انڈین پوسٹل سروسز میں پوسٹ ماسٹر رہے اور اس کے بعد چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اور ۱۹۹۴؁ء تک پوسٹل سروسز بورڈ ،نئی دہلی کے رکن بھی رہے۔
شمس الرحمٰن فاروقی نے امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی میں ساوتھ ایشیا ریجنل اسٹڈیز سنٹر کے پارٹ ٹائم پروفیسر کی حیثت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔وہ الہ آباد میں ’’ شب خون‘‘ میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ان کی تصنیف ’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘’’افسانے کی حمایت میں‘‘ اور ’’ اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ کو اردو ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔انھوں نے اردو زبان و ادب کی جس طرح آبیاری کی اور نوجوانوں کی تربیت کی۔ اس کی نظیر دیکھنے کو کم ملتی ہے۔وہ جدیدیت کے علمبردار کہے جاتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جدید یے اور مابعد جدیدیے دونوں ان کی جذبات کے قائل رہے۔فاروقی صاحب نے زندگی بھر اردو کی خدمت کی،ایسی خدمت جو ہر دور میں قابل ذکر رہے گی۔انھوں نے جن تنقیدی محاوروں کا استعمال کیا اور تنقید کو جو معیار عطا کیا اس کا ایک زمانہ قائل ہے۔ انھوں نے ادب میں آزادیٔ اظہار پر بھی اصرار کیا اور ادب میں نظریہ اور ہیئت پرستی کو بہت اہمیت دی۔ یہی وجہ تھی کہ مابعد جدیدیت سے ہمیشہ انکار کیا۔وہ زبان اور لہجہ میں ہمیشہ نئی بات پیدا کرنے کے پروردہ رہے۔ متن میں نئی چمک اور نئی تازگی کے ہمہ وقت پرستار رہے۔فاروقی صاحب نے ہمیں اپنی تہذیب وروایت کا صحیح معنوں میں احترام سکھایا۔ان کی ہر تحریر میں فکری جہت سے کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا تھا جس تک عام ذہن کی رسائی ممکن نہیںتھی۔
شمس الرحمٰن فاروقی زمانۂ طالب علمی ہی سے علم و ادب کے رسیا تھے اور گریجویشن سے پہلے ہی اردو ،فارسی اور انگریزی ادب کے جواہر پاروں سے واقف ہوچکے تھے۔ جین آسٹن اور جیمس جوائس کی تحریروں کے قدر شناس تھے اور آل احمد سرور،مجنوں گورکھپوری ،کلیم الدین احمد کے اسلوب اور انداز نگارش سے مانوس ہوچکے تھے۔ ان کا شعور وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا گیا اور انھوں نے اردو شاعری ، تنقید اور ادب میں اپنی ایک راہ نکالی اور جدید تنقید کے عملی نمونے اپنے مضامین میں پیش کئے۔شمس الرحمٰن فاروقی اگر چہ حالی کے نظریہ شاعری سے بہت متاثر ہیں مگر جدیدیت کی مدافعت میں وہ تنقید و تحلیل کے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جن سے اردو میں تنقید کا فن اب تک نا آشنا تھا۔ان کااسلوب بیان خاصہ دلکش ہے۔وہ بات کو پھیلا کر اور دلیلوں سے سجا کر کہتے ہیں جس سے ان میں وزن و وقار پیدا ہو جاتا ہے۔ان کے نظریات سے اختلاف عین ممکن ہے مگر ادب اور شعر کے بارے میں ان کے پر خلوص رویہ سے انکار ممکن نہیں۔جدیدیت کے پرستار ان کو اپنا رہنما اور امام تسلیم کرتے ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں’ اثبات و نفی‘ اردو غزل کے اہم موڑ، اردو کا ابتدائی زمانہ،ادبی تہذیب وتاریخ کے پہلو،افسانے کی حمایت میں،انداز گفتگو کیا ہے،تعبیر کی شرح،تفہیم غالب،شعر شور انگیز(چار جلدوں میں)،شعر غیر شعر اور نثر،خورشید کا سامان سفر،صورت و معنی سخن،غالب پر چار تحریریں،گنج سوختہ،لغات روزمرہ،تضمین اللغات ،ہمارے لئے منٹو صاحب،لفظ و معنی،نئے نام،نغمات حریت،عروض و آہنگ اوربیان، سوار اوردوسرے افسانے( افسانہ)،کئی چاند تھے سر آسماں(ناول)اور آسماں محراب(شاعری)شامل ہیں۔
شمس الرحمٰن فاروقی پر لکھی گئی کتابوں میں’جدید اردو تنقید کا تجزیاتی مطالعہ‘(شمس الرحمٰن فاروقی کے خصوصی حوالے سے)ازڈاکٹر نشاط فاطمہ، شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید نگاری۔ازمحمد منصور عالم،شمس الرحمٰن فاروقی حیات نامہ۔ازنظم فضلی، شمس الرحمٰن فاروقی (شعر غیر شعراور نثر) کی روشنی میں۔ازمحمد سالم،شمس الرحمٰن فاروقی محو گفتگو۔ ازرحیل صدیقی،کئی چاند تھے سر آسماں( ایک تجزیاتی مطالعہ) از رشید اشرف ۔ اس کے علاوہ کئی رسائل نے فاروقی صاحب کے فن اور شخصیت پر نمبر بھی جاری کئے۔
فاروقی صاحب کی شخصیت اور گرانقدر خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔انھوں نے اپنے نظریے سے کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔وہ ہمیشہ دو ٹوک گفتگو کرتے تھے۔ ان کی شخصیت اور تنقید دونوں میں مصلحت دور دور تک نظر نہیں آتی۔وہ اپنے کئی بیانات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنے لیکن انھوں نے اس کی کبھی پروا نہیں کی۔ نئی نسل کے تعلق سے ان کا بیان عرصہ تک موضوع بحث رہا۔اردو زبان کے حوالے سے نوجوانوں کے نام ان کا پیغام ملاحظہ فرمائیں :
’’ اردو پڑھنا فرض نہیںبلکہ وظیفۂ حیات جا نئے۔ فرض کو تو آدمی کبھی خوشی سے کبھی بادل ناخواستہ انجام دیتا ہے
لیکن وظیفۂ حیات جیسے سانس لینا،پانی پینا،بولنا یا کھانا ایسے کام ہیں جو انسان کی فطرت میں پیوست ہیں۔ اردو کو اسی طرح اپنی فطرت میں پیوست کر لیجئے۔‘‘ ( شمس الرحمٰن فاروقی)
تنقید کے میدان میں ان کا سب سے معرکہ آرا کام ’ ’ شعر شور انگیز‘‘ کو سمجھا جاتا ہے۔ چار جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں میر تقی میرؔ کی تفہیم جس انداز سے بیان کی گئی ہے اس کی کوئی مثال اردو ادب میں نہیں ملتی۔ اس کتاب پر انھیں ۱۹۹۶؁ء میں سرسوتی سمان ادبی ایوارڈ بھی ملا۔فاروقی صاحب نے ارسطو کی بوطیقا کا بھی از سر نو ترجمہ شعریات کے نام سے کیا اور اس کا بہت شاندار مقدمہ بھی تحریر کیا۔تنقید نگاری سے فاروقی صاحب نے اپنا ادبی سفر شروع کیا اور الہ آباد سے رسالہ’’ شب خون‘‘ کا اجرا کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیا گیا۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی دو نسلوں کی رہنمائی کی۔فاروقی صاحب نے شاعری کی،پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہوگئے۔اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق ہوا تو ’شب خون‘ میں یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنھیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔چند سال قبل انھوں نے ایک ناول’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ لکھا جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔اس کے علاوہ انھیں عام طور پر اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔غرضیکہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
فاروقی صاحب کا اصل میدان داستان اور افسانہ تھا جس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھوں نے ’’ داستان امیر حمزہ‘‘ پر تحقیقی کام شروع کیا۔انھوں نے ’’ داستان امیر حمزہ‘‘ کی تقریباً پچاس جلدیں لفظ بہ لفظ پڑھیں اور پھر ان کی معرکہ آرا کتاب’’ساحری شاہی صاحب قرآنی: داستان امیر حمزہ کا مطالعہ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔
فاروقی صاحب کے بعض تنقیدی فیصلے متنازع فیہ تو ہوسکتے ہیں اور ان کے بعض خیالات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے لیکن انھوں نے شعر و ادب اور تنقید سے متعلق جو نکات پیش کئے ہیں ان نکات میں وزن ہے ۔ وہ ایک پختہ ذہن کا نتیجہ ٔ فکر ہیں۔ وہ اپنی باتیںبڑے سلجھے ہوئے نپے تلے انداز میں بڑی قطعیت کے ساتھ کہتے ہیں۔شاعری میں وہ یقیناً ابہام کو پسند کرتے ہیںلیکن تنقید میں وہ الجھاؤ اور پیچیدگی کے بجائے وضاحت و قطعیت کو پسند کرتے ہیںجیسا کہ وہ لکھتے ہیں :
’’ ابہام شاعری کی بہت بڑی خوبی اور تنقید کی سب سے بڑی لعنت ہے کیونکہ شاعری میں تو ابہام نئے نئے معنی کے دروازے کھولتا ہے اور تنقید میں ابہام کے باعث نفس مطلب کا دم گھٹ جاتا ہے۔‘‘
فاروقی صاحب نے علمی و ادبی مسائل سے بحث کرتے ہوئے بعض بڑی پر مغز اور چونکا دینے والی باتیں کہی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں :
’’تنقید کا کام قاری کو معلومات فراہم کرنا نہیں، بلکہ ایک ایسا علم عطا کرنا ہے جس کی بنیاد منطق اور استدلال پر ہو۔‘‘
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ موضوع بجائے خود اہم یا غیر اہم ،دلچسپ یا غیر دلچسپ نہیں ہوتا ۔دیکھنا یہ چاہیے کہ ادیب یا شاعر نے اپنے موضوع کو کس طرح برتا ہے۔ وہ اس میں کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوا ہے۔‘‘
فاروقی صاحب کلاسیکی فارسی شاعری کے گہرے رمز شناس تھے۔خسرو کے پانچویں دیوان ’’ غرت الکمال‘‘ پر انھوں نے سیر حاصل بحث کی۔ان کے ناول’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘(Mirror of Beauty)کو ترکی زبان کے نوبل انعام یافتہ ادیب اورحان پاموک نے بھی سراہا ہے۔ایک نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں انھوں نے نئی راہیں متعین کیں اور متن کا گہرائی سے مطالعہ کرنے پر زور دیا۔تحقیق و تنقید میں فاروقی صاحب کی حیثیت کسی دبستان سے کم نہیں۔جدیدیت کے رجحان کو عام کرنے میں آپ نے ’’ شب خون‘‘ کے ذریعہ جو غیر معمولی کارنامہ انجام دیا وہ آپ کو اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
شمس الرحمٰن فاروقی ، ترقی اردو بیورو جو بعد میں قومی اردو کونسل کے نام سے معروف ہوا اس کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ملازمت میں رہتے ہوئے بھی اردو زبان و ادب کی بے مثال خدمات انجام دیں۔انھوں نے تمام تر مصروفیات کے باوجود تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیںاور سیکڑوں مقالے اور مضامین لکھے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے انھیں ۱۹۸۴؁ء میں شعبۂ اردو میں پروفیسر شپ کی پیشکش کی گئی تھی۔ ۱۹۸۶؁ء میں ان کی کتاب ’’تنقیدی افکار‘‘ پر ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ، ۱۹۹۶؁ء میں ان کی شہرۂ آفاق تصنیف’’ شعر شور انگیز‘‘ پرسرسوتی سمان ادبی ایوارڈ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے فروری ۲۰۰۲؁ء میں انھیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔ ۲۰۰۹؁ء میں حکومت ہند نے پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کیا جبکہ ۲۰۱۰؁ء میں حکومت پاکستان نے انھیں ’’ ستارۂ امتیاز‘‘ عطا کیا۔اس کے علاوہ یوپی اردو اکادمی ایوارڈ،دہلی اردو اکادمی ایوارڈ و دیگر کئی ادبی انعامات و اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ان کی ادبی شخصیت اور خدمات پر کئی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام بھی ہوئے ہیں۔پاکستان میں ڈاکٹر صفدر رشید صاحب نے ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا ہے۔
اردو تنقید کی نظری اساس قائم کرنے والے محکم ستونوں میں سے ایک اہم اور آخری ستون بھی گرگیا۔شمس الرحمٰن فاروقی ۲۵؍ دسمبر ۲۰۲۰؁ء کو ۸۵ برس کی عمر میں وفات پاگئے۔فاروقی جیسی شخصیت کے جانے سے اردو زبان و ادب کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔تخلیقات اور تحقیقی کاموں کے لئے انھیں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔اپنے بے باک لہجے کے لئے بھی وہ یاد رکھے جائیں گے۔ایسے ادیب صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
ہوگا کسی فلک پہ وہ خورشید جلوہ گر
کہتے ہیں آفتاب کبھی ڈوبتا نہیں

محلہ پچھم طرف،جلال پور،امبیڈکر نگر(یو۔پی)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here