مالیر کوٹلہ. پنجاب : جب بھی ترقی پسند تحریک سے جڑے شعراء کی بات ہوتی ہے تو فیض کا نام سرِ فہرست آتا ہے. فیض احمد فیض کی پیدائیش تقسیمِ وطن سے قبل سیالکوٹ موجودہ پاکستان میں 13 فروری 1911ء کو ہوئی. آپ کے والدچودھری سلطان محمد خان اپنے وقت کے ایک نامی بیرسٹر تھے۔فیض نے ابتدائی تعلیم مولوی محمدابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی۔اسکے بعد 1921ء میں آپ نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں ایڈمیشن لیا اور 1927ء میں میٹرک کا امتحان پہلے درجہ کے ساتھ پاس کیا اس کے ساتھ ساتھ ہی آپ نے عربی اور فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی اور ایف ۔اے کا امتحان بھی وہیں سے پاس کیا ۔
شمس الحق جنھوں نے کبھی علامہ اقبال کو پڑھایا تھا ،اسی قابل استاد کی ذات سے فیض احمد فیض بھی مستفیض ہوئے .۔بی ۔اے اور ایم ۔اے انگلش کا امتحان اس وقت کے نامی ادارہ گورمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا ۔اسکے بعد فیض نے اورینٹل کالج لاہور سے 1932ء میں فارسی میں ایم ۔اے کی۔اسی بیچ آپ کی ملاقا ت ڈاکٹردین محمد تاثیر کی لندن نزاد بہن ایلسا سے ہوئی ،ایلساجو کہ کیمونسٹ پارٹی ایک فعال رکن تھیں ۔ آگے چل کر ایلسا سے ہی 1941میں آپ کی شادی ہوئی اور دو بیٹیاں سلیمہ اورمنیزہ پیدا ہوئیں۔فیض کی 1942ء میں بطور کیپٹن فوج میں تقرری ہوئی اور اس فیلڈ میں بھی آپ نے اپنی قابل قدر خدمات دیتے ہوئے لیفیٹینٹ کے عہدے تک ترقی پائی ۔چنانچہ 1947ء میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہو ر تشر یف لے آئے ۔فیض نے ایک مدت تک جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری، 9 مارچ 1951 ء کو آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معاونت کے الزام میں حکومتِ پاکستان نے گرفتار کر لیا۔اِس دوران فیض نے اپنی زندگی کے چار سال سرگودھا ،ساہیوال،حیدرآباد اور کراچی کی جیل میں کاٹے۔’’ زنداں نامہ‘‘ کی بیشتر نظمیں فیض کی جیل کے دنوں کی ہی سر گزشت بیان کرتی ہیں اسکے بعد آخر کار انھیں 12اپریل 1955 ء کو جیل سے رہا کر دیا گیا ۔1959ء سے 1962تک فیض نے پاکستان آرٹس کونسل میں بطور سیکریٹری اپنی خدمات دیں ۔پھر لندن چلے گئے اور واپسی پر 1964میںعبداللہ ہارون کالج کراچی میںبطور پرنسپل اپنی خدمات بحسنِ خوبی انجام دیں۔ادبی حلقوں میں فیض کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ وہ آزادی کے شاعر تھے۔انھیں مزاحمت کا شاعر گردانا جاتا ہے۔فیض نے جہاں ویت نام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کی حمایت کی وہیں انھوں نے فلسطین کی تحریک ِ مزاحمت کی بھی بھرپور حمایت کی اور اسکے لیے گیت بھی لکھے،اسکی شاید بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے قائد یاسر عرافات بھی ایک سوشلسٹ تھے اور انکی شہرت ایک روس نواز رہنما کی تھی۔بے شک فیض نے مظلوم کے حق میں اور ظالم کے خلاف اپنے قلم کا خوب استعمال کیا ۔لیکن اکثر ناقدین کی طرف سے فیض کے اس پہلو کولیکر نشانہ بھی بنایا جاتا رہاہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی تو فیض کی زبان و قلم خاموش رہے یعنی افغانستان کی جدو جہد آزادی کے لیے انھوں نے نہ کوئی نظم لکھی ،نہ مضمون تحریر کیا،نہ ہی کوئی بیان جاری کیا۔اس سے پہلے کہ ہم فیض کی شاعری کو مطالعہ میں لائیں۔ خود فیض شاعرو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں اس خیال کو دیکھتے ہیں کہ’’ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں،مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے،گردو پیش کے مضطرب قطروں میںزندگی کے دجلہ کا مشاہدہ، اسکی بینائی پر ہے،اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر،اس کے بہائو میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلاحیت اور لہوکی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش و جدو جہد چاہتے ہیں‘‘آئیے اب ہم فیض کے کلام کو دیکھتے ہیںجس کلام کی بدولت وہ اپنے ہم عصر شعراء کے بیچ موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے فن میں ان سے بالکل منفرد و جدا نظر آتے ہیں۔خزاں وبہار کو کس خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی
بہارجاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ایک اور جگہ فیض کا دلکش ومنفرد رنگ دیکھیں کہ
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے،جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگ ِ لب سے ہے
کہاں گئے شب فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہم کلام کب سے ہے
ایک جگہ فیض کہتے ہیں کہ
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
مفلسی کی تشریح کرتے ہوئے فیض کہتے ہیں کہ
مفلسی میں وہ دن بھی آئے ہیں
ہم نے اپنا ملال بیچ دیا
فیض کی معروف نظم ‘ہم دیکھیں گے’ کو جب ہم مطالعہ میں لاتے ہیں تو اس کے مختلف اشعار کی تعبیرات قرآنِ کریم سے مستعار لی ہوئی دکھائی پڑتی ہیں. لیکن اس میں فرق اتنا ہے کہ قرآن میں وہ تعبیرات حقیقی معنوں میں وارد ہوئی ہیں اور فیض نے ان کو مجازی معنی میں استعمال کیا ہے. نظم کی انھیں تعبیرات کا اثر ہے کہ جو بھی اس نظم کو پڑھتا یا سنتا ہے وہی اس پہ سر دھننتا ہے اور انسان پہ ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے . اشعار میں درج چند تعبیرات کے نمونے آپ قارئین بھی یہاں ملاحظہ فرمائیں :
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے: (الیوم الموعود)
کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے: (وتكون الجبال كالعهن المنفوش)
دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی: (إذا زلزلت الأرض زلزالها) (يوم ترجف الأرض)
جو لوح ازل میں لکھا ہے: (كان ذلك في الكتاب مسطورا)
مسند پہ بٹھائے جائیں گے: (على الأرائك متكؤون)
اور نام رہے گا اللہ کا: (ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام)
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے.
یہ اساسی جملہ بھی قرآن کریم کے اسلوب کی پیروی ہے. قرآن کریم میں بار بار اس طرح خطاب کیا جاتا ہے : “جب تم دیکھو گے”. اور سورہ تکاثر میں تو ایک جگہ مکرر کہا گیا ہے: (لترون الجحيم, ثم لترونها عين اليقين).
اردوادب کو اپنی منفر د قسم کی انقلابی شاعری سے روشناس کرانے والایہ شاعر اور ادب کی دنیا کامنور ستارہ فیض آخر کار 20نومبر1984کو لاہور میں اس دنیائے فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گیا ۔بھلے ہی فیض آج ہمارے بیچ میں نہیں ہیں لیکن فیض کی شاعری کی شعائیں و کرنیں آج بھی اپنے قارئین کے ذہن
و فکر کو روشن کرتے ہوئے ایک ہدایت و سیدھ دے رہی ہیں۔
رابطہ 9855259650