افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پہ ا سپیشل- Special on the withdrawal of US troops from Afghanistan‎

0
111

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Special on the withdrawal of US troops from Afghanistan‎

محمد عباس دھالیوال
– افغانستان سے فوج کی واپسی پر بائیڈن کا موقف اور افواج کی واپسی کے معنی – ۔۔۔امریکہ کے افغانستان سے فوج واپسی کے فیصلے پر اردو کے معروف شاعر و نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کا یہ شعر کتنا صادق آتا ہے کہ :
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر جس طرح سے یکایک دہشت گردوں نے حملے کیے تھے. اس کے بعد پوری دنیا میں جیسے ایک کہرام سا مچ گیا تھا اور ہر کسی کے من میں یہی سوال تھا کہ آخر دنیا کی اس سپر پاور کے خلاف ایسی گھناؤنی کارروائی کرنے کی جسارت کس نے اور کیوں کی . چنانچہ کچھ ہی گھنٹوں کے بعد میڈیا میں یہ خبریں گردش کرنے لگی تھیں کہ اس کاروائی کو انجام دینے میں افغانستان کے القاعدہ گروپ کا ہاتھ تھا. حالانکہ کے بعد ازاں ان حملوں کو لیکر مختلف طرح کی متضاد باتیں بھی سامنے آتی رہیں. لیکن میڈیا کی طرف سے ان پہ کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی.
چنانچہ ان مذکورہ حملوں کے بعد واشنگٹن نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان پر پے درپے کئی ہوائی حملے کیے اور بعد ازاں امریکی و اس کی اتحادی افواج نے افغانستان کی سر زمین پر مستقل طور پر اپنے ڈیرے جما لیے. بے شک اس دوران افغانستان میں مختلف منتخبہ حکومتیں بنتی اور تحلیل ہوتی رہیں. لیکن تب سے لیکر اب تک مسلسل امریکہ و اس کی اتحادی افواج نے افغانستان نہیں چھوڑا تھا . بے شک اس اثنا میں کئی بار افغانستان سے امریکی افواج انخلاء کی بات چلی لیکن ہر بار اس میں کوئی نہ کوئی مشکل یا رکاوٹ سامنے آتی رہی. اس ضمن میں گزشتہ سال بھی امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی تھی اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا معاہدہ کو قبول کیا تھا. جبکہ اسی درمیان امریکہ صدارتی انتخابات ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست کھا گئے. اس کے بعد اس سال 20 جنوری کو جو بائیڈن کی جیسے ہی حلف برداری کی تقریب مکمل ہوئی اور امریکہ میں بطور صدر جو بائیڈن کی جانب سے اپنا عہدہ سنبھالا گیا تبھی سے مختلف ماہرین کے ذہنوں میں افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کو لیکر تذبذب برقرار بنا ہوا تھا .
بالآخر امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے گیارہ ستمبر تک امریکی اور اتحادی افواج کی واپسی کا اعلان کر ہی دیا. اس دوران دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ منتشر ہو چکی ہے اور اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ کی اس طویل ترین جنگ کو انجام تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملے کے 20 سال بعد امریکی فوج کے افغانستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں۔
اپنے خطاب کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ میں افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی کی نمائندگی کرنے والا میں چوتھا امریکی صدر ہوں، جبکہ اس سے قبل دو ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹک صدر افغانستان کی جنگ کے خاتمے کی کوششیں کر چکے ہیں انھوں نے کہا کہ اب یہ ذمہ داری پانچویں صدر کے پاس نہیں جانی چاہیے۔
صدر بائیڈن نے اس دوران یہ بھی واضح کیا کہ امریکہ پرنائن الیون والے دہشت گردانہ حملے کے بعد جب اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اس کی تائید کی تھی۔ جبکہ بعد ازاں بذات خود وہ آٹھ سال کے بعد سابق صدر بوراک اوبامہ کی ایما پر افغانستان گئے تھے اور اس دوران انہوں نے کنڑ وادی جیسے علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا ۔
صدر بائیڈن اس ضمن میں واضح طور پر کہا کہ “میرا پہلے سے خیال پختہ ہو گیا تھا کہ افغانستان کے پائیدار سیاسی حل کے لیے افغان قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، امریکی اور اتحادی افواج میں اضافہ افغانستان میں مستحکم حکومت قائم نہیں کر سکتا۔”
اپنے خطاب کے دوران صدر جو بائیڈن نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اتحادیوں، فوجی لیڈروں، قانون سازوں اور نائب صدر کاملا ہیرس سے مشاورت کے بعد اس سال گیارہ ستمبر کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس ضمن میں انہوں نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ بھی اپنے فیصلے پر مشاورت کی ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اُن کی انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیامِ امن سے متعلق بات چیت اور افغان فوج کی تربیت کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔
جو بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ طالبان کو اس بات کے لیے جواب دہ ٹھہرایا جائے گا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دہشت گرد گروہ کے استعمال میں نہ آنے دینے کے وعدے کی پاسداری کریں۔ اس کے علاوہ اس موقع پر بائیڈن نے طالبان کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران حملے کیے تو امریکہ اور اتحادی مل کر اس کا سخت اور پوری قوت سے جواب دیں گے۔
صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ اُن کی انتظامیہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیامِ امن سے متعلق بات چیت اور افغان فوج کی تربیت کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔
آخر میں انھوں نے کہا کہ افغانستان میں 20 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ امریکہ کے مفاد میں ہے، وہ بھی ایسے میں جب بن لادن کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے اور القاعدہ افغانستان میں ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔
نیوز رپورٹ کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ افغانستان سے افواج کی واپسی اس وقت عالمی سطح پر درپیش ان مسائل پر نظر رکھنے کے لیے ناگزیر ہے ، جن کا سامنا امریکہ کو دو دہائیوں قبل نہیں تھا۔ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ عسکری طاقت سے افغانستان کے اندرونی سیاسی چیلنجز پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور اس سے افغانستان کے اندرونی تنازعات کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ لہٰذا افغانستان میں فوجی آپریشنز ختم کرنے کے بعد ساری توجہ سفارتی سطح پر امن مذاکرات کی کوششوں کی حمایت پر ہو گی۔
اس سے پہلے سابق صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس ہونے والے امن معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے نکلنے کی حتمی تاریخ یکم مئی مقرر کی گئی تھی۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے اور بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہ رکھنے کی یقین دہانی کرائی تھی.
اسی بیچ کچھ تجزیہ نگاروں نے اس بات کو لیکر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد مقامی شہریوں کو اس کے بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ادھر اس ضمن میں امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے مشاورتی بورڈ کے سابق رکن مائیکل اوہانلن نے خبردار کیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان مشرقِ وسطیٰ کے ملک شام کی طرح بن سکتا ہے جو دہشت گردوں کی مضبوط آماجگاہ ہے جہاں لاکھوں لوگ مر چکے ہیں اور لاکھوں مہاجرین ہیں۔
کل ملا کر اگر دیکھا جائے تو امریکہ کو اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز ہیں جہاں اس کا کوئی فیصلہ اس کے مفادات کے آڑے آتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو وہاں سے وہ صاف کنّی کاٹ جاتے ہیں.
دراصل کچھ برسوں سے جس طرح سے چین ایک بڑی اقتصادی قوت کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور دنیا میں اپنا دبدبہ بڑھا رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ کی اقتصادی صورتحال اب کوئی بہتر حالات میں نہیں دکھائی پڑتی اس کے علاوہ گزشتہ برس جس طرح امریکہ کے اندر نسلی فسادات رونما ہوئے اور اس جنوری میں بائیڈن کی حلف برداری تقریب سے قریب دو ہفتے قبل امریکہ کے کیپیٹل ہل میں ٹرمپ حامیوں نے کہرام بپا کیا ان سب حالات کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ کو خود اپنے ملک میں ہی بہت سے کرائسس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ان سب حالات پہ قابو پانے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے اس بات کو امریکہ کے عوام و انتظامیہ میں بخوبی سمجھتی ہے.
شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے امریکی عوام میں بے حد تشویش پائی جا رہی ہے اور اب امریکہ کے حکام بھی کہیں نہ کہیں اس بات کو محسوس کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک جیسے افغانستان عراق وغیرہ میں جو محاذ اپنی فوج کو بٹھا کر کھول رکھے ہیں وہ اب اس کے جی کا جنجال بن کر رہ گئے ہیں جتنی جلدی وہ ان محاذ کو اختتام پذیر نہیں کرتے اتنی دیر تک وہ اپنے ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ نہیں دے سکتے ہیں. افغانستان سے افواج کے انخلا کا فیصلہ کو بھی اسی کڑی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے. آخر میں اپنے مضمون کو اقبال کے ان اشعار کے ساتھ ہی اختتام پذیر کروں گا کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here