نام کتاب : مظفر کے نام(کچھ ادبی خطوط) جلد اول و دوم
مرتب : انجینئر فیروز مظفر
ناشر: مظفر حنفی میموریل سوسائٹی،نئی دہلی۔۲۵
ضخامت : 1184 صفحات
قیمت : 1000 روپے( دونوں جلد)
تبصرہ نگار : ڈاکٹر داؤد احمد
زیر تبصرہ کتاب ’’ مظفر کے نام‘‘(کچھ ادبی خطوط) ان خطوط کا مجموعہ ہے جو کثیر الجہات شخصیت مظفر حنفی (یکم اپریل 1936تا10؍اکتوبر 2020)کو وقفے وقفے سے مختلف شاعر و ادیب اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے لکھے ہیں۔یہ کتاب دو جلدوں ،پہلی جلد میں592 اوردوسری جلد بھی 592صفحات پر مشتمل ہے ۔مجموعی طور پر1184صفحات ہیںجسے ڈاکٹر مظفر حنفی کے لائق و فائق صاحبزادے انجینئرفیروز مظفر نے مرتب کیا ہے جو مظفر حنفی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔انجینئر فیروز مظفرپیشہ سے انجینئر ہیںمگر ذہنی اعتبار سے اپنے والد کی علمی و ادبی روایتوں کے وارث اور امین ہیں۔ تحقیق و ترتیب میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ اس صنف میں باضابطہ وہ کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ان کی اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ان کی کتابوں پر انھیں مختلف انعامات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔فی الوقت وہ عالمی تحریک اردو اور مظفر حنفی میموریل سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔
زیر نظر کتاب میں انجینئر فیروز مظفر نے ’’ کچھ اپنی سی‘‘ کے تحت ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں نہ صرف مرتب کردہ خطوط کے حوالے دیے گئے ہیں بلکہ مکتوب نگاری کی روایت،تاریخ،ادبی خطوط کی اہمیت اور ضرورت پر سنجیدہ گفتگو بھی کی ہے۔ان خطوط کے مطالعہ سے ہماری عصری ادبی تاریخ کی بہت سی انکہی داستان منظر عام پر آگئی ہے جو یقیناً ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔مرتب نے ان خطوط کا مطالعہ کیا تو ان کے افادیت کو محسوس کیا پھر اس کے بعد بذات خود اس کو ترتیب دینے کا فیصلہ کیا۔یہ مجموعہ ان خطوط پر مشتمل ہے جو اہل علم کی طرف سے مختلف مواقع پر پروفیسر مظفر حنفی کو موصول ہوئے تھے ان خطوط کو جمع کرنا آسان کام نہیں تھا ۔پروفیسر موصوف کو سرکاری اور غیر سرکاری ہر طرح کے خطوط ملتے تھے انھیں چھانٹنے میں انجینئر فیروز مظفر کو کوئی چھ مہینے لگ گئے۔خطوط کو چھانٹنے کے بعد ادبی خطوط تلاش کئے گئے جو بقول مرتب ’’ ایک پتہ ماری کا کام تھا۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ ایک خط کو پڑھنا،دیکھنا،تریب لگانا، اس کی کمپوزنگ کرنا اور پھر اس کو حرف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دینا کوئی آسان کام نہیں تھاتاہم انھوں نے اس مشکل ترین معرکہ کو سر کر لیااور ان خطوط کو منظر عام پر لاکر ادبی دنیا پر احسان عظیم کیا ہے۔
دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں 571 ادبی شخصیات کے خطوط شامل ہیں۔پہلی جلد میں 356 اور دوسری جلد میں کل
215 خطوط ہیں۔کتاب کی پہلی جلد میں شامل ادیب و شعراء میںپروفیسر آل احمد سرور،احمد ندیم قاسمی،اسلوب احمد انصاری،انور سدید،احمد سعید ملیح آبادی،پروفیسر ابوالکلام قاسمی،پروفیسرانیس اشفاق،اقبال مجید،افتخار امام صدیقی،ڈاکٹر بشیر بدر،بلراج کومل،پروفیسر بیگ احساس،پی پی شیریواستو رند،جگن ناتھ آزاد،حکیم عبد الحمید(ہمدرد)،حامد انصاری(صدر جمہوریۂ ہند)،عزیز قریشی (گورنر اترا کھنڈ)،پروفیسر حنیف نقوی،پروفیسر حامدی کاشمیری،خلیق انجم،ڈاکٹر سراج اجملی،پروفیسر صغیر افراہیم،دلیپ سنگھ،رشید حسن خاں،زبیر رضوی،شمس الرحمٰن فاروقی،شکیل الرحمٰن،شاہین بدر(پاکستان)،شہزاد منظر(کراچی)،شیخ مقصود احمد(لندن)،شاہین(کناڈا)،عاشور کاظمی(لندن)،عبد القدوس( والد محترم مظفر حنفی)،مدیر’شاعر‘ مرحوم افتخار امام صدیقی اور مرحوم عبد الاحد سازوغیرہ کے خطوط بھی شامل ہیں۔ایک ایک شخصیت کی کئی کئی خط ہیں۔مثال کے طور پر معروف نقاد آل احمد سرور کے خطوں کی تعداد 9ہے۔شمس الرحمٰن فاروقی کے خطوں کی تعداد 19ہے۔پروفیسر آفاق احمدکے خطوں کی تعداد 12ہے۔ایسے دیگر تمام اشخاص کے متعدد خطوط شامل ہیں۔
کتاب کی دوسری جلد 215خطوط پر مشتمل ہے۔شامل ادیب و شعراء میں عشرت قادری،پروفیسر عبد القوی دسنوی،پروفیسر عتیق احمد صدیقی،پروفیسر عنوان چشتی،پروفیسرعتیق اللہ،پروفیسر علی احمد فاطمی،عابد سہیل،علقمہ شبلی،غلام مرتضیٰ راہی،فرمان فتح پوری(پاکستان)،فضا ابن فیضی،پروفیسر فاروق بخشی،فراق جلال پوری،کاوش بدری،قتیل شفائی،پروفیسر قمررئیس،قیصر تمکین(لندن)،پروفیسر قاضی عبید الرحمٰن ہاشمی،پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی،قمر جمیلی(کراچی)،کشمیری لال ذاکر،کمال احمد صدیقی،کرامت علی کرامت،پروفیسر گیان چند جین،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسر لطف الرحمٰن،مسعود حسین خاں،قاضی حسن رضا،مشفق خواجہ(پاکستان)پروفیسر محمود الٰہی،پروفیسر ملک زادہ منظور احمد،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی،منور رانا،نشتر خانقاہی،نیر مسعود،وزیر آغا(پاکستان)وغیرہ اور بذات خود چند ذاتی خطوط پروفیسر مظفر حنفی نے اپنے اہل خانہ کو تحریر کیے ہیں۔اس جلد میں عبد القوی دسنوی کے 76 خطوط،پروفیسر عنوان چشتی کے 19خطوط،قاضی حسن رضا کے28خطوط،کاوش بدری کے15خطوط اور دیگر معروف ادباء و شعراء کے متعدد خطوط شامل کتاب ہیں۔علاوہ ازیں مظفر حنفی کے کچھ خطوط صغریٰ مہدی کے نام،منور رانا کے نام،ندیم صدیقی کے نام،عاصمہ خاتون(اہلیہ) کے نام،فیروز مظفر(بیٹے) کے نام،سہیل مظفر(بیٹے) کے نام،صبا تسنیم(بیٹی) کے نام بھی شامل ہیں۔مشاہیر ادب کے خطوط لکھنے کا انداز،القاب و آداب جدا گانہ ہیں۔خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی پروفیسر مظفر حنفی سے مشورے طلب کر رہا ہے توکوئی ان سے مضمون لکھنے کی درخواست کر رہاہے ،کوئی اپنی کتاب پرمقدمہ لکھوانا چاہتا ہے تو کوئی اپنی تحریری اصلاح کرنے کے لیے خط لکھ رہا ہے تو کوئی کسی اور چیز کے لیے ان کے در پر دستک دے رہا ہے اور وہ ہر ایک کی داد رسی کر رہے ہیں۔مجموعہ میں کچھ مختصر اور کچھ طویل خطوط بھی شامل ہیں۔مختصر خطوط میںحفیظ بنارسی،حکیم عبد الحمید(ہمدرد)،حامد انصاری(صدر جمہوریہ ہند)،انیس انصاری،عقیل شاداب،ظہور قاسم،رفیع الدین ہاشمی وغیرہ اور طویل خطوط میں جگن نا تھ آزاد،پروفیسرخالدمحمود،عشرت قادری،عبد القدوس(والدمحترم)،منشاء الرحمٰن منشا،کاوش بدری،نسیم شاہجہا ں پوری ، نجیب رامش وغیرہ کے نام نامی شامل کتاب ہیں۔
یہ خط کس نوعیت کے ہیں اس کا اندازہ دو ،تین مثالوں سے کیا جاسکتا ہے۔اقبال مجید کے ایک خط کی چند سطریں ملاحظہ کریں:
’’ اگر آپ نے پچھلے دس بیس سال کے افسانے پڑھے ہونگے تو یہ ضرورسوچا ہوگا کہ کم از کم اب اردو افسانہ فنی طور پر کہیں زیادہ چست درست ہوگیا ہے اور کیا لکھا جائے کہ کبھی زیادہ افسانہ نگارکیسے لکھا جائے پر خاصا زور دے رہا ہے جس کے سبب اظہار اور بیانیہ میں تازگی اور کساوٹ کا احساس معمولی قاری کو بھی ہونے لگا ہے۔‘‘
شمس الرحمٰن فاروقی کے ایک خط کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں :
’’ آپ نے ’’افکار ملی‘‘ میں یہ کیا بات لکھ دی کہ حالی نے تخلیق کے میدان میں ’’اپنی عدم استطاعت کا شعور ہو جانے کے بعد تنقید کا پیشہ اختیار کیا۔‘‘ مقدمہ تو دیوان ہی کا مقدمہ ہے،اگر کتاب کی حیثیت سے لوگ اسے اب جاننے لگے ہیں۔یعنی حالی بطور شاعر قائم اور مشہور تھے جب انھوں نے دیوان مرتب کیا اور حتماًاس کا مقدمہ لکھا۔وہ بذات خود کتاب کی حیثیت اختیار کر گیا،یہ الگ بات ہے ۔دیوان(1893ء)کی اشاعت کے پہلے وہ شاہکار ’’ مرثیہ غالب‘‘ لکھ چکے تھے۔‘‘
آل احمد سرور کے ایک خط کی چند سطریں دیکھیں: ’’میری علالت کو تو اب دس مہینے ہوگئے آہستہ آہستہ بہتر ہورہا ہوں۔آپ بخیریت ہونگے۔‘‘
ان خطوط میں ادب کے ساتھ اس وقت کے حالات اور مکتوب نگاروں کے حالات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس لیے ان خطوط کی نوعیت تاریخی ہوگئی ہے۔
خط لکھنا نہ صرف یہ کہ ہماری ایک پرانی ،مگر شاندار روایت رہی ہے بلکہ یہ ہردور میں ایک من پسند شغل بھی رہا ہے۔ خطوط زندگی کی قدروں کے امین و آئینہ دار ہوتے ہیں جن میں زماں و مکاں کے عکس کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔خطوط ادب کی تشہیر و تعمیر کا نمایاں اور بنیادی حصہ ہے۔خطوط کو نصف ملاقات کہا گیا ہے۔اردو میں مکتوب نویسی کو ایک متکلم روایت کی حیثیت غالبؔ نے عطا کی ۔ڈاکٹر مختار احمد لکھتے ہیں :
’’ خطوط نویسی کو اردو ادب میں غالب نے ایک منفرد مقام عطا کیا ہے اس سے قطع نظر خطوط کی اہمیت ایک تاریخی ماخذ کے طور پر مسلم ہے۔ عہد وسطیٰ کے صوفیائے کرام کے مکتوبات سے عہد حاضر کے مشاہیرکے خطوط تاریخی ماخذ کا یہ سرمایہ ادب و ثقافت اور سماجیات جیسے موضوعات پر کام کرنے والے محققین کے لیے انتہائی اہم اور وقیع حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (صفحہ۔9)
مرزا غالب اور داغ دہلوی کے علاوہ جن شعرا ء و ادباء نے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ ان گنت ادبی کارنامے کو آگے بڑھایا ہے اس میں پروفیسر مظفر حنفی کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔وہ رنگا رنگ شخصیت کے مالک تھے اور انھوں نے مختلف شعبوں میں اپنی کار کردگی کے نقوش ثبت کیے ہیں۔ان کا تعلق شاعری،تحقیق و تدوین،نثر نگاری،افسانہ نگاری،ترجمہ نگاری،سفر نامہ،صحافت نگاری اور مکتوب نگاری سے ہے۔جہاں تک مکتوب نگاری کی بات ہے تو اس ضمن میں کئی اہم شعراء اور ادباء کے خطوط اور ان کی مکتوب نگاری سامنے آجاتی ہے۔خصوصی طور پر غالب کی نثر نگاری میں ان کی مکتوب نگاری کو ایک اہم مقام اور اہمیت حاصل ہے۔مظفر حنفی نے مکتوب نگاری کے تحت اہم شخصیتوں کو خطوط لکھنے کے ساتھ ہی ساتھ اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ ذاتی خطوط بھی لکھے ہیںجن کو پڑھنے سے ایک ذمہ دار شوہر اور ایک مشفق باپ کی محبت عیاں ہوتی ہے۔ وہیں ایک خط اس میں ان کے والد محترم عبد القدوس کا ہے ۔ اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی فرمابردار اولاد تھے۔مظفر حنفی ایک منظم شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے زندگی کا ہر لمحہ بہت ہی منظم طریقے،سلیقے اور نپے تلے انداز میں گزارا۔یہ حقیقت ہے کہ ہر صنف میں انھوں نے کام کیا اور کامیاب رہے۔پروفیسر مظفر حنفی کی زندگی میںہی ان کے فن اور شخصیت پر بہت کام ہوچکے ہیں تاہم انتقال کے بعد اس میں مزید پیش رفت ہوئی۔ ان پر باضابطہ کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
خطوط کا مجموعہ’’مظفر کے نام‘‘ میں اپنے زمانے کے مشاہیر ادب دوستوں اور عزیزوں کی رنگارنگ تصویریں نظر آتی ہیںاور ان کے ساتھ مظفر حنفی کے تعلقات کی نوعیت معلوم ہوتی ہے۔کھٹے میٹھے تجربات ،ہدایات کا سخت لہجہ،کاروباری گفتگو کا انداز،پیار و محبت کے سریلے نغمے،غرض یہ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں مظفر حنفی کی شخصیت اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ان خطوط کے ذریعے ان کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو ان کی دیگر تحریروں میں تمام و کمال نہیں آسکتے تھے۔مثلاً ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ ان کے تعلقات،بے راہ روی کے لیے ان کی مذمت،جرأت اظہار کی مدافعت وغیرہ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ ان خطوط میں ملتا ہے۔
انجینئر فیروز مظفر کا مرتب کردہ زیر تبصرہ خطوط کا مجموعہ میں شامل خطوط کو پڑھ کر مجھے غالب کا گمان ہونے لگا۔خطوط کے اس مجموعہ میں ہمارے اس زمانے کے ادبی،سماجی اور اقتصادی حالات کی منھ بولتی تصویریں ہیں۔ان خطوط میں نامہ نویسندہ نے اپنے ذاتی احساسات اورجذبات و کیفیات کا اظہار کیا ہے۔آج کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب سماجی رابطے کے مختلف وسائل جیسے فیس بک،واٹس ایپ کے علاوہ موبائل فون ہر ایک کے دسترس میں ہے ۔ اس کے باوجود بھی خطوط کے ذریعہ اپنے روز و شب کی احوال نویسی نہ صرف یہ کہ قابل تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔یہاں میں ایک بات بھی ضمناً عرض کرتا چلوں کہ الیکٹرانک میڈیا کچھ بھی ہو ،آخر یہ سب کچھ ہوا میں اڑ ہی جاتا ہے ۔اس کے برعکس پرنٹ میڈیا کتاب ایک زندہ ریکارڈ ہے جو آسانی سے مٹنے والا نہیں ہے۔علاوہ ازیں کتاب پڑھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔
کتاب کی دوسری جلد کے آخر میں مرتب نے مظفر حنفی کا سوانحی اشاریہ پیش کیا ہے جس میں موصوف کی کل کائنات دیکھی جا سکتی ہے۔دونوں جلدکے ٹائٹل کور دیدہ زیب ہیں۔فلیپ کور میںفیروز مظفر کے نام کچھ خطوط کے اقتباسات اور عکس دیے گئے ہیں۔جلد اول کے بیک کورپر انجینئر فیروز مظفرکی تصویر و کوائف،جلد دوم کے بیک کور پر موصوف کی تصویر کے ساتھ پروفیسر حنیف نقوی اور شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے خط کے اقتباس کا عکس کتاب کی خوبصورتی کو دوبالا کردیا ہے۔
مظفر کے نام(کچھ ادبی خطوط) یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس میں نئی نسل کے لیے سبق بھی ہے اور نصیحت بھی۔یہ کتاب لائبریریوں میں رکھے جانے کے لائق ہے۔یہ صرف خطوط نہیں ایک زمانہ کی روداد ہیں۔انجینئر فیروز مظفر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے والد محتر م پر وفیسر مظفر حنفی کے نام آئے اتنے سارے خطوط کو یکجا کر کتابی جامہ پہنا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو
فخرالدین علی احمدگورنمنٹ پی جی کالج محمود آباد،سیتاپور
[email protected]