اسی اتر پردیش حکومت نے آج ایک بار پھر ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے تین آئی پی ایس افسروں کو سبک دوش کر کے ایک بار اپنے ارادے ظاہر کر دیے ۔اس فیصلہ پراکثر سرخیوں میں رہنے والے آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حیرت انگیز ہے۔ مجھے آج دوپہر ہی اس کے بارے میں پتہ چلا۔ حکومت کو اب میری ضرورت نہیں ہے۔ میں اب یہ سوچ رہا ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘‘اتر پردیش کے انتہائی مشہور آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر کو ریاست کی یوگی حکومت نے ریٹائر کر دیا ہے۔ امیتابھ ٹھاکر اکثر مفاد عامہ کے ایشوز کو اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کی بیوی سماجی کارکن ایڈوکیٹ نوتن ٹھاکر بھی اکثر کئی معاملوں میں اپنی مداخلت کو لے کر سرخیوں میں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی پی ایس راجیش شنکر اور راجیش کرشن کو بھی ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ انھیں تین مہینے کی پیشگی تنخواہ دے کر ریٹائر کیا گیا ہے۔
تینوں آئی پی ایس افسران کو ریٹائر کرنے کا حکم آج ہی بھیجا گیا ہے۔ حکم نامہ اتر پردیش حکومت کے چیف سکریٹری برائے داخلہ اونیش اوستھی کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے ذریعہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ لوگ مفاد عامہ میں سروس کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تینوں ہی افسران سروس کے لیے نااہل تھے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ امیتابھ ٹھاکر اس وقت ’رولس اینڈ مینوئلس‘ میں آئی جی کے طور پر اپنی خدمات دے رہے تھے۔ یہ وہی افسر ہیں جنھوں نے اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے خلاف دھمکی دینے کی ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ امیتابھ ٹھاکر حکومت کے خلاف اکثر آواز اٹھاتے رہے ہیں، چاہے وہ حکومت کسی کی بھی ہو۔
جہاں تک دوسرے افسران راجیش شنکر اور راجیش کرشن کا معاملہ ہے، ڈی آئی جی (اسٹیبشلمنٹ) راجیش شنکر پر دیوریا شیلٹر ہوم میں مشتبہ کردار کا الزام ہے اور راجیش کرشن پر اعظم گڑھ میں ہوئی پولس تقرری میں دھاندلی کا الزام ہے۔ حالانکہ امیتابھ ٹھاکر پر اس طرح کا کوئی الزام نہیں ہے، پھر بھی انھیں ریٹائر کر دیا گیا۔ عوام میں ان کی شبیہ ایماندار ہے۔ ان کے بارے میں بس یہ بات کہی جا رہی ہے کہ وہ اکثر حکومت کے خلاف کھل کر بولتے ہیں۔اس معاملے میں خاتون کانگریس کی نائب سربراہ عروشہ کا بیان سامنے آیا ہے جنھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومت سب کچھ تاناشاہی طریقے سے کر رہی ہے۔ جو انھیں پسند نہیں آتا ہے وہ اس کے خلاف کھل کر کارروائی کرتے ہیں۔ وہ دوہرے نظریے سے دیکھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’خصوصاً امیتابھ ٹھاکر والے معاملے میں یہی ہوا ہے۔ وہ اکثر غلط چیزوں پر کھل کر بولتے ہیں۔ اتر پردیش حکومت کا یہ فیصلہ در اصل دوسرے افسروں کے تئیں ایک اشارہ بھی ہے کہ حکومت کی نہ ماننے والے افسر اب محتاط ہو جائیں۔لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا کسی افسر کو اس طرح وقت سے پہلے ریٹائر کر دینے کی روایت کا سلسلہ نہ چل پڑے اور دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کیا حکومت قانونی طور سے کسی بھی سرکاری ملازم کو وقت سے پہلے ریٹائر کر سکتی ہے۔اگر الزامات ہیں تو الزامات کی جانچ کیوں نہیں۔اس کا یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ حکومت صرف اپنے مطلب کے افسروں اور ملازمین کو ہی سروس کرنے کی اجازت دے گی۔بہر حال حکوت کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے جس کے دور رس نتائج سے انکار نہیں کیاجا سکتا۔