بنگال، آسام اور کیرالہ کی سیاسی اٹھا پٹخ- Political upheavals in Bengal, Assam and Kerala

0
100

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں


ڈاکٹر سلیم خان
ملک میں اگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماوں سے اعتماد اٹھ جائے تو بھلا ان کے منشور کی کیا بساط؟ مینی فیسٹو فی الحال خبروں میں رہ کر اشتہار بازی کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیاہے ۔ اس میں کیے جانے وعدوں کی بابت نہ تو پارٹیاں سنجیدہ ہوتی ہیں اور نہ عوام کو اس سے کوئی توقع وابستہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال میں منشور جاری کرتے وقت بی جے پی کے صوبائی صدر دلیپ گھوش ، کیلاش وجے ورگیہ ، بابل سپریو ، دنیش ترویدی سمیت کئی لیڈران موجود تھے مگر کس نے کیا کہا کوئی نہیں جانتا ۔ ذرائع ابلاغ نے ان کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ فی الحال وزیر اعظم یا وزیر داخلہ اگر کسی تقریب میں موجود ہوں تو اشتہار نہ ملنے کے خوف سے کسی اور کی بات نہ اخبارات میں چھپتی ہے اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتی ہے۔ وزیر داخلہ کا کام صوبوں کے منشور جاری کرنا نہیں ہے لیکن جب پردھان منتری خود ایک وزیر اعلیٰ کو ہرانے کی خاطر پرچار منتری بن جائے تو امیت شاہ کس کھیت کی مولی ہیں ؟ انہیں تو یاد بھی نہیں ہے کہ اب پارٹی کے صدر جے پی نڈا ہیں اور شاید بی جے پی کے صدر بھی اس بات کو بھول گئے ہیں اس لیے غیر اہم ریاستوں مثلاً آسام اوت تمل ناڈو وغیرہ میں گھومتے پھرتے ہیں۔ مغربی بنگال جانے کی جرأت نہیں کرتے۔
بنگال کا مینی فیسٹو جاری کرتے وقت امیت شاہ نے خو د اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے فرمایا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کا عزم ہے۔ بی جے پی اگر واقعی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے تو اسے نیکر دھاری امیدوار وافر مقدار میں کیوں نہیں ملتے ؟دیگر جماعتوں سے لوگوں کو بدعنوانی سے بچ نکلنے کا لالچ کیوں بلایا جاتا ہے؟ مخالفین کو ڈرا دھمکا کر اپنی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ کیوں دیا جاتا ہے؟ رسوائی کی انتہا یہ ہے کہ دو لوگ ٹکٹ ملنے پر بھی الیکشن لڑنے سے انکار کردیتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کانگریس کے آنجہانی رہنما سومن مترا کی بیوی شکھا مترا ہے۔ سومن بعد میں ترنمول کے اندر شامل ہوکر چورنگی سے رکن اسمبلی بھی تھے ۔ بی جے پی نے جب ان کو ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تو انہوں نے ایک ویڈیو جاری کرکے کہا میں نہ تو بی جے پی میں شامل ہوئی ہوں اور انتخاب لڑنا چاہتی ہوں ۔ میرے لیے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا ممکن نہیں ہے۔ بڑی بڑی ڈینگ مارنے والے خود ساختہ چانکیہ نے اپنی پارٹی کی ایسی بے عزتی کرادی جو اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ ویسے یہ نعرہ درست ہی ہے کہ مودی ہے توکچھ بھی ممکن ہے۔
شکھا مترا کے علاوہ ترون ساہا نے بی جے پی کے کمل کو اس کے منہ پر دے مارا۔ ہوا یہ 2011 سے کاشی پور بیکگھاچیا سے ٹی ایم سی کی نمائندگی مالا ساہا کرتی تھیں لیکن اس بار ٹی ایم سی نےان کا ٹکٹ کاٹ کر کولکاتا کے ڈپٹی میئر اتن گھوش کو امیدوار بنادیا۔ بی جے پی نے سوچا مالا کی مقبولیت کے سہارے کامیاب ہونے کا اچھا موقع ہے اس لیے اس نے ان کے شوہر ترون ساہا کو ٹکٹ دینے کا اعلان کردیا ۔ ترون ساہا خودمعروف میونسپل کونسلر ہیں اور بی جے پی ان کے طفیل اپنی ایک سیٹ بڑھانا چاہتی تھی ۔ اس پر ترون ساہا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اخباری کانفرنس میں بتایا میں تو اپنے امیدوار اتن گھوش کی تشہیر میں مصروف تھا کہ مجھے بی جے پی کے امیدوار ہونے کی اطلاع ملی ۔ ان لوگوں نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی میرے نام کا اعلان کردیا ۔
بی جے پی کے قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ اس نے چار ارکان پارلیمان کو اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا اور ان میں سے ایک سوپن داس گپتا چونکہ تقرر شدہ رکن تھے اور ان کو کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے سبب استعفیٰ دینا پڑا یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ۔ امیت شاہ کی گیدڑ بھپکی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے دو خطابات عام منسوخ کرنے پڑے اور ان کے علاوہ وزیر اعظم کے جلسوں میں بھی میدان نہیں بھرسکا۔ ان تلخ حقائق کی روشنی میں بڑی بڑی ہانکنا بے معنیٰ ہے ۔ امیت شاہ نے جس وقت کہا کہ یہ صرف اعلانات نہیں عزائم ہیں تو بہارمیں ان کی حکومت بغیر وارنٹ کے پولس کو گرفتاری کا حق دینے والا قانون بنارہی تھی اور حزب اختلاف نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ امیت شاہ کو بتانا چاہیے کہ کیا اس قانون کی بات بہار کے منشور میں تھی اور اگر اپنے ان عزائم کا اعلان کردیا جاتا تو کیا ان کی حکومت بن پاتی؟ اگر نہیں تو یہ دھوکہ کیوں کیا گیا؟
بی جے پی مغربی بنگال کے منشور پر ایک غائر نظر ڈالنے سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی باولہ ہو کر ہذیان بک رہا ہے۔بقول وزیر داخلہ بی جے پی ملک کی 16 ریاستوں میں برسرِ اقتدار ہے اس کے باوجود ایک بھی ایسا صوبہ نہیں ہے جس میں اس انتخابی منشور کی کسی ایک بھی شق پر عمل در آمد ہورہا ہو ۔ گجرات جہاں وہ ربع صدی سے حکومت کررہی ہے وہاں بھی ایسا کچھ نہیں ہوا تو آخر بنگال میں کیسے ہوجائے گا ؟ یہ نہ کوئی سوچتا ہے اور نہ پوچھتا مثلاً سیکورٹی، انفرااسٹرکچر اور ملازمت میں خواتین کو33فیصد ریزرویشن اور ہر ماہ 500روپےنیز ایس سی و ایس ٹی خاندان کو ہر ماہ ایک ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ KG سے لے کر PG تک خواتین کو مفت تعلیم دی جائے گی ۔خواتین کو رجھانے کی خاطر سرکاری بس میں ان سے کرایہ نہیں لیا جائے گا ۔ بی جے پی کو پتہ ہے بنگال کی خواتین ممتا بنرجی پر فدا ہیں ۔ ان کو وہیل چیئر پر دیکھ مردوں سے زیادہ خواتین کے اندر ہمدردی کے جذبات پیدا ہوئے ہیں اس لیے یہ حربہ آزمایا جارہا ہے۔ اس سے مر نے کا بہت آسان حل بی جے پی کے پاس پہلے سے موجود ہے ۔ اقتدار میں آنے کے بعد سرکاری بس سروس نجی سرمایہ داروں کو بیچ کر وہ کہہ دے گی کہ پرائیویٹ بسو ں کے بارے میں تو کوئی وعدہ نہیں تھا۔اس طرح نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی ۔
پہلے بی جے پی یہ کہتی پھرتی تھی کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے روپیہ بانٹ کر لوگوں کو بھکاری بنادیا ہے ۔ بی جے پی ان کو خود کفیل بنانے کے لیے سرکاری سبسڈی بند کردے گی لیکن بنگالی عوام کو رجھانے کی خاطر بی جے پی وہی کھیل کھیل رہی ہے جس پر وہ کل تک تنقید کرتی تھی۔اب کہا جارہا ہے کہ سونار بنگلہ کیلئے 11ہزار کروڑ روپے مختص کئے جائیں گے یعنی مغربی بنگال کے لوگ بی جے پی کو کامیاب نہیں کرتے تو انہیں اس حق سے محروم کردیا جائے گا۔ یہ تو سراسر بلیک میلنگ ہے اور تضاد بیانی بھی کیونکہ مرکز نے صوبوں کو خصوصی درجہ دینے کے قانون کو ایوان پارلیمان میں منسوخ کردیا ہے ایسے میں خصوصی پیکیج کیسے جاری ہوسکے گا؟ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کی اسکیم مثلاً کسان نیدھی یوجنا کے تحت 75لاکھ کسانوں کو ہر سال 6ہزار روپئے دیئے جائیں گے ۔حد تو یہ ہے کہ جن در اندازوں کو امیت شاہ ایک زمانے میں جونک کہا کرتے تھے اب ہر سال مہاجر خاندان کو 5 سال کیلئے 10ہزار روپے دیئے جائیں گے ۔
آسام میں اس بار کانگریس کے پاس ترون گوگوئی جیسا تجربہ کار رہنما نہیں مگر اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کانگریس نے مولانابدرالدین اجمل کے ساتھ الحاق کیا ہے اور اب کھل کر سی اے اے کی مخالفت کررہی ہے۔ کانگریس کے منشور میں سی اے اے کی منسوخی کے علاوہ ، پانچ لاکھ سرکاری نوکری ، گھریلو خواتین کو ماہانہ دو ہزار روپےمدد اور 200 یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے کا وعدہ بھی ہے۔ آسام سے ایک خوشخبری یہ آئی کہ ، بوڈو لینڈ پیپلز فرنٹ بھی کانگریس کے عظیم اتحاد میں شامل ہوگئی ہے ۔ اس اتحاد میں کانگریس کے ساتھ کی اے آئی یو ڈی ایف،بائیں بازو کی پارٹیاں آنچلک گن مورچہ پہلے سے شامل ہے۔بی پی ایف کے سربانند سونوال کی بی جے پی حکومت میں تین وزیر ہیں اور اب وہ سب الگ ہوگئے ہیں۔ اس کے سربراہ ملی ہاری نے جب بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کیا تو آنچلک گن مورچہ کے رکن پارلیمان اجیت بھویان نے ان کا خیر مقدم کیا ۔ اس بار بی جے پی نے اپنے پرانے محسن اے جے پی رہنما پرفل کمار مہنت کے ساتھ دھوکہ کرکے ان کے حلقۂ انتخاب پر اپنا دعویٰ ٹھونک دیا ۔ اس طرح وہ بھی بی جے پی سے ناراض ہو کر الگ ہوگئے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ یہ اتحاد کیا رنگ لاتا ہے۔
کیرالہ کی بات کریں تو بی جے پی کے تمام تر دعووں کے باوجود سارے اوپینن پول اسے ایک سے زیادہ نشست نہیں دے رہے ہیں ۔ کیرالہ پھر سے کمیونسٹ اتحاد کے اقتدار میں آنے کا قوی امکان ہے۔ اس کی بہترین وجہ بی جے پی کے واحد رکن اسمبلی او راج گوپال نے بتادی ہے۔ انہوں نے کہا کیرالہ ایک مختلف ریاست ہے ۔ یہاں خواندگی کی شرح ۹۰ فیصد ہے۔ اس مطلب یہ ہے کہ جہاں لوگ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں وہاں بی جے پی کی دال نہیں گلتی۔ مغربی بنگال اور کیرالہ میں سرخ پرچم یکساں مدت تک لہرا چکا ہے لیکن بنگال میں ان لوگوں نے تعلیم کی جانب توجہ نہیں دی بلکہ قوت کے بل بوتے پر انتخاب جیتتے رہے فی الحال وہی غنڈے بی جے پی میں شامل ہوکر اس کا سر کچل رہے ہیں ۔ راج گوپال نے یہ بھی کہا کہ یہاں کے لوگ سوچنے سمجھنے والے ہیں۔ یہ کام بھی کمیونسٹوں نے بنگال میں نہیں کیا بلکہ صرف زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگواتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کل تک لال سلام کرنے واے والے اب جئے شری رام کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان دو صوبوں کا کارکردگی میں بائیں بازو کے اتحاد کی خاطر بہت سامان ِ عبرت ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here