کسی کی دستِ طلب کو پکارتا ہوں میں
اُٹھا ئو ہاتھ مجھے مانگ لو ، دعا ہوں میں
کہتے ہیں موجودہ صدی فکشن کی صدی ہے اور ایک طرح سے دیکھیں تو یہ بات سچ بھی لگتی ہے کیونکہ آج کل فکشن ہی ادب کا سکۂ رائج الوقت ہے۔ہاں مشاعروں کے ذریعے کچھ شعرا پیسے اور شہرت کما رہے ہیں لیکن ادب کا عصری منظر نامہ فکشن سے ہی عبارت ہے۔ ایک ایسے دور میں اگر کوئی شعری مجموعہ متوجہ کرتا ہے تو ظاہر ہے اس میں شامل شعری تخلیقات فن کے اعتبار سے پختہ اور اظہار کی سطح پر پرکشش ہوں گی ۔میری مراد ڈاکٹر قمر صدیقی کے شعری مجموعے ’’شب آویز‘‘ سے ہے۔ خوبصورت سرورق اور معنی خیز عنوان کے ساتھ شروع سے ہی یہ مجموعہ قاری کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ اسی طرح اس مجموعے میں شامل حمد، نعت ،غزلیں اور نظمیں بھی ایسی اثر انگیز ہیں کہ قاری اس مجموعے کو ایک نشست میں پڑھ لیتا ہے۔
اچھی شاعری کی کیا خصوصیات ہیں؟ یہ سوال کلاسک کے زمانے سے کیا جاتا رہا ہے اور ہر زمانے میں اس کے جوابات الگ الگ دیئے جاتے رہے ہیں۔ ایہام گوئی ، معنی آفرینی ، مضمون آفرینی ، کلاسیکیت ، نو کلاسیکیت ، ترقی پسندی ، جدیدیت اور مابعد جدیدیت ہر دور میں اچھی شاعری کی تعریف بدلتی رہی ہے۔ دراصل شعر فہمی کا پیمانہ زبان و بیان کے علاوہ عصری حسّیت سے مشروط ہے۔ اگر کوئی شاعر زبان و بیان کے رموز سے واقف ہو اور اس کے اشعار میں عصری حسّیت بھی پوری طرح توانائی کے ساتھ موجود ہوتو بلا شبہ وہ اپنے عہد کا معتبر و مقبول شاعر تسلیم کیا جائے گا۔ڈاکٹر قمر صدیقی کی شاعری میں عصری حسّیت زبان و بیان کی پوری لطافت کے ساتھ موجود ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
متاعِ درد کو آخر کہاں کہاں رکھتے
سو میرے گنجِ گراں مایۂ ہُنر میں رہے
نیند کے شہرِ طلسمات مبارک ہوں تمہیں
جاگتے رہنے کی افتاد ہمارے لیے ہے
یہ لمحہ لمحہ زندگی کچھ اس طرح سے کٹ گئی
کہاں پہ خرچ کیا ہوا کوئی حساب بھی نہیں
اس مجموعہ کے دیباچے میں قمر صدیقی نے تحریر کیا ہے کہ : ’’ ادب ، خصوصاً شاعری دراصل تنہائی کی لذت اور تنہائی کی دہشت کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ میں نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے تنہائی کی اس دہشت اور لذت کے درمیان توازن قائم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔‘‘قمر صدیقی مذکورہ بالا رائے دراصل ہمارے آج کے سوشل میڈیا کلچر کو آئینہ دکھاتی ہے۔ ان کے اشعار میںبھی آج کی روبوٹیک اور ڈیجیٹل زندگی کے مسائل کوموثر ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قمر صدیقی معاصر زندگی کے تضادات کو پیش کرنے والے شاعر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔مثلاً
کھل اٹھتا ہے گھر آنگن کا سنّاٹا
شام کو جب اسکول سے بچے گھر آتے ہیں
بُرا سا خواب دیکھا تھا جو شب میں
یہ دن اُس خواب کی تعبیر سا ہے
تمام عمر اسی جسم سے شکایت تھی
تمام عمر اسی جسم کے کھنڈر میں رہے
ڈاکٹر قمر صدیقی کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے ، ان کا شعری کینوس وسیع ہے۔ وہ حساس جذبات کے بے باک شاعر ہیں۔ زندگی کے تلخ تجربات اور رشتوں کی شکست و ریخت ان کے شاعری کے غالب موضوعات ہیں۔موضوعات کی اِن نیرنگیوں میں زندگی اور خلاقی پیدا کرنے کے لیے انھوں نے روایتی تشبیہوں اور استعاروں کے با وصف نئی تشبہیات و استعارے بھی خلق کیے ۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
زوال آگیا رشتوں کے چاند سورج کو
وہ بھی خاموش تھا ، میں بھی چپ رہااب کے
وہ کہر کہر سے چہرے ، دھواں دھواں سی فضا
قمر میں کیسے کوئی خواب دیکھتا اب کے
ہمارے خواب کوئی اور دیکھ لیتا ہے
ہماری آنکھ خلا، انتظار ، سناٹا
ڈاکٹر قمرصدیقی نے اپنے اشعار میں مختلف صنعتوں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔’’دشمن وشمن نیزہ ویزہ خنجر ونجر کیا‘‘ یعنی صنعتِ تابع مہمل میں ان کی غزل پورے ہندوستان میں مشہور ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کئی اشعار میں صنعتِ تلمیح کوبھی اس خوبی سے برتا ہے کہ قاری کے ذہن میں واقعات کسی فلم کی طرح چلنے لگتے ہیں ۔
پھر وہی قہر وہی فتنۂ دجال کے دن
پھر ہی قصۂ اصحابِ کہف کھینچتا ہے
کیا رنج کہ یوسف کا خریدار نہیں ہے
یہ شہر کوئی مصر کا بازار نہیں ہے
یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا
ہر فاتح ایام سکندر نہیں ہوتا
ایک یہ تاریخ ہے پڑھتے ہیں جس کو آج ہم
اک الگ تاریخ بھی ہے رام کے بابر کے بیچ
شاعر کا دل در اصل صرف دل نہیں ہوتا بلکہ سازِ دل ہوتا ہے ۔ اس ساز میں محبت کے تار لگے ہوتے ہیں۔جب شاعر عالم ِ مستی میں ان تاروں کو چھیڑتا ہے تو فردوس گوش نغمے پیدا ہوتے ہیں جو ایک الگ رومان انگیزاور پر اسرار دنیا کی سیر کراتے ہیں۔غزل کی اس رومانیت اور پراسراریت کامنبع اس کی ایمائیت اور رمزیت میں پوشیدہ ہے ۔ یہی ایمائیت و رمزیت بلکہ کبھی کبھی تو ابہام بھی غزل کے معنوی انسلاکات کے دائرے کو وسیع تر کر دیتے ہیں۔گویا غزل اشارے اور علامت کا فن ہے اور غزل گو شاعر اسی فن کا سہارا لیتے ہوئے اشاروں ہی اشاروں میں وہ سب کچھ کہہ جاتا ہے جسے نثر میں بیان کرنے کے لیے خاصی تفصیل درکار ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر ڈاکٹر قمر صدیقی کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
جس طرح کھلونوں سے بہل جاتے ہیں بچے
یوں تیرے تصور سے بہل جائیں گی راتیں
تم اگر آؤ تو مل جائے گی تم کو بھی پناہ
گو عمارت دل کی ٹوٹی پھوٹی ہے مسمار ہے
میں ناپ آتا تری ذات کے سمندر سب
قدم قدم پہ ڈوبنے کا خطرہ تھا
ترک ِ تعلقات میں اس کی خطا تو تھی
تھوڑی بہت وفا میں ادھر بھی کمی رہی
ڈاکٹر قمر صدیقی کی شاعری وقتی یا ہنگامی شاعری نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری تو زندگی اور حرارت کی شاعری ہے لہٰذاان کے اشعار قاری کے ذہن پر نقش ہو جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔غزلوں کی طرح ان کی نظمیں بھی موضوع کے اعتبار سے معاصر زندگی کے تضادات کو منعکس کرتی ہیں۔ شاید آج کی زندگی کے دو رُخے پن کو ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی نظموںکے عنوانات بھی مختلف زبانوں میں تحریر کیے ہیںجیسے: جیون کیا ہے ، ورچوئل ریالیٹی ، خبرم رسید امشب وغیرہ ۔اس مجموعہ میں قمر صدیقی نے کچھ غزلیں اپنے استاد اور اہم شخصیات کے نام منسوب کی ہیں جن میں شکیب جلالی ، عبد الاحد ساز ، پروفیسر صاحب علی اور عرفان صدیقی کے نام شامل ہیں ۔
اگر ڈاکٹر قمر صدیقی کے اس شعری مجموعے کی خوبیوں کو مختصراً بیان کرنا ہو تو اتنا تو بلا تکلف کہا جاسکتا ہے کہ ’’شب آویز‘‘ نئی شاعری اردو شاعری کا روشن استعارہ ہے۔اس مجموعہ کے ذریعے قمر صدیقی نے جدید تر شاعری کا ایک معیار قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور کامیاب رہے ہیں۔
ہزاروں خواب کے رشتے تھے اس وابستہ
وہ کھو گیا کہاں سب نے جسے پکارا تھا
(ریسرچ اکالر، شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی)
٭٭٭