Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldگوپی چند نارنگ کی جدید افسانوی تنقید

گوپی چند نارنگ کی جدید افسانوی تنقید

مہتاب عالم فیضانیؔ
مت سہل ہمیںجانوپھر تاہے فلک بر سوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
غیر مسلم اردو لکھنے والوں میں ’’پروفیسرگوپی چند نارنگ‘‘ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔گیا رہ فروری ۱۹۳۱؁ء کو پنجاب میں پیدا ہونے والے غیر مسلم پروفیسر گوپی چند نارنگ کو عہد حاضر میں صفِ اول کا اردو نقاد،محقق اور ادیب گر دانا جاتاہے۔بچپن کو ئٹہ میں گزارا ،اور پھر ۱۹۵۴؁ء میں دہلی یونیورسٹی سے ایم۔اے کرکے ۱۹۵۸؁ء میں لسانیات میں پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی ۔ انہوں نے سَن۱۹۵۷؁ء میں ’’سینٹ اسٹیفین کالج‘‘ دہلی میں پڑھانا شروع کیا اور ۱۹۹۵؁ء تک دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔گو وہ ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ان کی علمیت کو نہایت عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھاجاتاہے۔ اردو محفلوں،جلسوں اور مذاکروں میں شرکت کے لیے وہ پوری دنیا کا سفر کرتے رہتے ہیں اس لیے شاید ان کو اردو کا سفیر بھی کہا جاتا ہے۔ موصوف کو اپنی چو نسٹھ تصنیفات جن میں بارہ انگریزی اور سات ہندی پر جہاں ہندوستان میں پدم بھوشن سے نوازہ جا چکا ہے وہیں پاکستان و دیگر ممالک میں متعدد انعامات و اعزازات سے سرفراز کیا گیا ہے۔
 اردو زبان و ادب میں پروفیسرگوپی چند نارنگ کے خدمات کثیرالجہات ہیں۔ وہ نہ صرف ایک محقق ،مفکر اور مشہور دانشور ہیں بلکہ بہترین اور شہرت یافتہ نقاد بھی ہیں۔وہ اب کے بدلتے رجحانات سے باخبر ہونے کے ساتھ ان کو اپنانے اور ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔تحرک ان کی طبیعت کا لازمی جز ہے اسی لیے وہ قدیم وجدید دو نوں نسلوں کو ہر نئے جدید نظریے پر کھل کر بحث و مباحثہ کرنے کا مواقع فراہم کرتے ہیں۔
یوں تو گوپی چندنارنگ کے مشہور ہونے کے کئ وجوہات ہیں لیکن اردو زبان و ادب میں انہیں ایک بلند پایہ نقاد کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتاہے۔ اردو تنقید کے میدان میں اردو شاعری اردو نثر، اسلوبیات، ساختیات اور لسانیات کے علاوہ ان کا پسندیدہ موضوع اردو افسانے کی تنقید ہے۔ اردو تنقید کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کہ تنقید کاتعلق زیادہ تر شاعری سے ہی رہاہے۔فکشن کوہمیشہ ثانوی درجے پر رکھاگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوگی کہ شاعری کے مقابل فکشن کی تنقید زیادہ مشکل ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کے لفظوں میں ’’ اچھے شعر کا معاملہ نسبتاً اتنا مشکل نہیں ، اچھی کہانی کے ساتھ بہت کچھ جھیلنا پڑ تاہے‘‘ پرو فیسر نارنگ کے اس قول سے صاف معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے شاعری سے زیادہ فکشن پر تنقید کی ہے۔ اور فکشن کی تنقیدہی ان کا اصل میدان ہے۔ انہوں نے پریم چند، بیدی، کرشن چندر، انتظار حسین،سریندر پرکاش،بلراج مینرا،سلام بن رزاق اور کئ دوسرے فکشن نویسوں پر جس انداز میں لکھا ہے وہ افسانے پر ان کی گرفت کا آئینہ دار ہے۔
افسانے سے اپنی خاص دلچسپی کی وجہ سے انہوںنے کئ اہم سیمنار اور مذاکرے کر وائے جس میں’’ اردو افسانہ روایت اور مسائل‘‘ کے موضوع کے تحت ہونے والے سیمنار کی مرتبہ کتاب کے ابتدائیے میں افسانے سے متعلق یوں لکھتے ہیں’’جدید افسانے کے اظہاراتی تجربے، فنی بلندیاں اور نئے نئے مسائل ہیں جو قابل غور ہیں‘‘اس طویل ابتدائیے میں انہوں نے اردو افسانے کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ان کے مقالے ’’نیاافسانہ،روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ‘‘کوپڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ افسانے میں علامتی اور استعاراتی انداز ان کے نزدیک قابل تعریف ہے۔ اس ضمن میںوہ ہرکس و ناکس کو نہیں شمار کرتے بلکہ قرۃالعین حیدر،انتظار حسین، غیاث احمد گدی اور عبداللہ حسین جیسے فن کاروں کو ہی اہمیت دی ہے۔ان کے خیا ل میں باقی لوگوں نے علامت و استعارے کے نام پرپیچید گی اور ژولید ہ بیانی کوہی افسانہ سمجھ لیاہے۔فرماتے ہیں:
’’جوبات تشویک ناک ہے؟ وہ اوسط درجے کی ذہنیت Mediocrity کی یلغار ہے ،جس کے باعث علامتی اور تمثیلی کہانی کے مقلدین کی تعداد اتنی بڑھ گئ ہے کہ ان کے ہاتھوں اِس کہانی کے مستقبل کو شدید خطرہ در پیش ہے۔اب علامتی تمثیلی کہانی بھی ایک فیشن اور فارمولا بن گئ ہے اور بہت سے نئے لکھنے والوں نے اِسے رواجاً اختیار کر رکھاہے۔اس لیے نئے لکھنے والوں کی تخلیقیت اور نئ کہانی دونوں کو نقصان پنچا ہے۔‘‘(اردو افسانہ روایت اور مسائل ص:۴۷۰)
مذکورہ اقتباس سے لگتاہے کہ پروفیسر نارنگ ادرو ادب میں نئے تجربات کے مخالف ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ان کا ماننا ہے کہ تجربے ضرورہونے چاہیے لیکن ضروری ہے کہ وہ تجربات درست،صحت مند اور کسی نہ کسی اعتبار سے روایت سے جُڑے ہوئے ہوں۔کیوں کہ اب ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ نئے تجربات کرتے ہوئے فن کے لوازمات اور اصولوں کو ہی بدل دیا جائے۔ ان کا مانناہے کہ نئے تجربات ہونے چاہیے لیکن اس میں فن کے اصول و قواعد کی مکمل پاسداری ہونی چاہیے۔
علامت اور استعارات کو فن میں بخوبی استعمال کرنا اتنا آسان نہیں ہوتاہے۔ لیکن جب علامت و استعارات اور اس کے مانند دوسرے اوزار کسی ماہر فنکار کے ہاتھ لگتے ہیں تو وہ ان علامات وا ستعارات کو اپنی فنکاری کے لیے استعمال کرکے فن کی خوبی میں چار چاند لگادیتاہے۔ اور جب ایسا نہیں ہوتاہے تو کہانی اور فن کا چہرہ مسخ ہو جاتاہے اور اس کی روح دم توڑ دنے لگتی ہے۔
بظاہر ایسا لگتاہے کہ پروفیسر نارنگ کا رویہ مختصر کہانی ،علامتی اور استعاراتی افسانوں کے متعلق بہت سخت ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے واضح لفظوں میں ان فنکاروں اور اتخلیق کاروں کوتنبیہ کی جو فن ،افسانہ یاکہانی کو علامت اور استعارے کے نام پر اس قدر گنجلک اور پیچیدہ بنادیتے ہیں کہ بعض وقت کئ بار پڑھنے کے بعد بھی کہانی سمجھ سے بالا ترہے۔ بسااوقات یہ بھی ہوتاہے کہ نام نہاد و علامتی کہانی کے گرد میں اصل علامتی تمثیلی کہانی ہی گُم ہو جاتی ہے۔ کہانی اور افسانے میں تمثیلی انداز اختیار کرنا مشرقی مزاج کا لازمی حصہ ہے۔ یہ ہماری صدیوں کی روایت کا حصہ ہے۔ وارث علوی اس کے بارے میں جب یہ کہتے ہیںکہ’’ تمثیلی کہانی افسانہ نگاری کا اسفل طریقہ ہے اور اس کا رد ہوناچاہیے‘‘تو پروفیسر نارنگ افسانوی تنقید ی شعور کا اظہار کرتے ہوئے مدلل انداز میں وارث علوی کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ قدیم ہندوستان کی روایت میں پنج تنتر،جاتک،ہتواپدیش،شگاسپ تتی وغیرہ کے علاوہ اسلامی روایت میں مثنوی رومی، منطق الطیر،حکایات وغیرہ اِن سب کا تمثیلی انداز ہمارے بیانیہ کا جز وِ لاینفک ہے‘‘اس لیے تمثیلی انداز ہر گز اسفل نہیں ہوسکتا کیو ں کہ اس کے ذریعے علامتی تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو ادب میں فکشن کی جس خوبی ،معیار اور بلندی کے قائل ہیں اس کے پیش نظر وہ کسی قسم کی نرمی نہیں برت تے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وارث علوی کے اس طرح کے بیانات کو انہوں نے مغربی ادب اور مغربی علامت پسندی سے مرعوب ہونا بتایاہے او رفرمایا اگر وہ اپنے ثقافتی و رثے،اجتماعی لاشعور اور اپنے ادبی سرمائے کی روایت کو نظر میں رکھتے تو اس طرح تمثیلی اندازِ بیان کو رد نہ کرتے۔وہ ۱۹۸۵؁ء میں ہونے والے اِس سیمنار میں مزید کہتے ہیں ’’وارث علوی کو شاید معلو م نہیں کہ Primitire کہانیاں صرف سادگی اور سادہ لوحی کا اظہار نہیں ، ان میں بھی تجربے کی صدیاں سمٹی ہوئی ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ Realism کے چکر میں پڑ کر ان میں پوشیدہ معنیاتی خزانوں کو دیکھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے سے محروم ہیں۔
اردو افسانے پر پروفیسر نارنگ نے بہت کچھ لکھا اور خاص کر جدید افسانے کے بار ے میں جو کچھ لکھا اس کو اس مختصر سے مضمون میں مفصل بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ مگر یہاں تجرید، علامتی اور جدید افسانے کے بارے میں ان کے اس مضمون کا ذکرکرنا ضروری سمجھتاہوںجہو انہوں نے’’اردو میں تجریداور علامتی افسانہ‘‘کے عنوان سے لکھاتھا۔ اس مضمون کو جدید افسانوی ادب میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس مضمون کی اہمیت اس لیے ہے کہ نارنگ صاحب نے یہ مضمون اس وقت لکھا جب اردو ادب کے بیشتر نقاد اردو افسانے کو قابل نقد سمجھتے ہی نہیں تھے،ان کی نظر میں افسانے کی تنقید تضعیع اوقات کے مماثل تھی۔ اور اس مضمون کی اہمیت اس معنی کر کے بھی ہے کہ انہوں نے جدید افسانہ نگاروں میں سے سُریندر پرکاش او ربلراج مینراکے بعض فسانوں کے حوالے سے جو بحث کی ہے وہ فضیل جعفری کے بقول عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہے۔
افسانے اور خاص کر جدیدد افسانے میں علامتو اور استعاروں کی تکنیک او ران کی معنوی جہات کو گرفت میں لینا اور ان پرسیر حاصل گفتگو کرنا بہت مشکل اور محنت طلب ہے یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ مگر پروفیسرنارنگ کا اردو زبان کے تئیں محنت و محبت نے اسے بحسن خوبی انجام دیا۔ بیدی ،کرشن چندر، منٹو،بلراج مینرااور سریندر پرکاش وغیرہ کے افسانوں پر پروفیسر نارنگ کی تنقید اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اردو زبان و ادب کی ترویج ترقی اور خاص کر جدید افسانے کی نوک پلک سنوارنے میں کیا کچھ نہیں کیا۔
افسانے کی تنقید کے لیے پروفیسر نارنگ نے تنقید کا جو پیمانہ او راسلوب اپنایا ہے اس کی وجہ سے انہیں اپنے ہم عصروں میں درجۂ امتیاز حاصل ہے۔تنقید کے مروجہ روایتی اسالیب اور میلانات سے انحراف کرتے ہوئے انہو نے اسلوبیاتی اور ساختیاتی طرز تنقید کی طرح ڈالی۔ انہو ںنے اپنے نفرد تنقیدی میلان اور اسلوب سے افسانے کی فنی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی کے لیے جو طریقہ اختیار کیا اس کی انفرادیت مسلم ہے۔
جدید افسانے کے تنقید میں پروفیسر نارنگ کی کئ تحریریں گراں قدر ہیں جن میں ایک ’’فکشن کی شعریا ت اور ساختیات‘‘بہت اہم ہے کیوںکہ پر فیسر نارنگ نے اس مضمون میں افسانے کی ساختیاتی اور پسِ ساختیاتی پہلو پر بہترین تنقید کی ہے۔ اس مضمون میں پلاٹ اور کہانی کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے انہو ںنے روسی ہیئت پسندوں کی باریکیوں سے بحث کی ہے۔ روسی ہیئت پسندوں کا کہناہے کہ پلاٹ اصل میں ادبی حیثیت رکھتاہے جبکہ کہانی صرف خام مال ہے جِسے فنکار کا ذہن وشعور منظم کرکے فنی حیثیت عطاکرتاہے۔ پرفیسرنارنگ نے ’’شلوسکی‘‘کے نظریے کو پیش کیاہے جس نے ٹرسٹرم شینڈی سے بحث کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ پلاٹ محض واقعات کی فنی ترتیب کا نام نہیں ہے بلکہ وہ تمام لسانی پیرائے اور وسائل بھی پلاٹ کی فنی تنظیم کا حصہ ہوتے ہیں جو واقعات کے تسلسل اور سُست رفتاری پر اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ مضمون کافی طویل ہے جس میں پرفیسر گوپی چند نارنگ نے جدید افسانے اور خاص کر فکشن کی شعریات پر دیگر ساختیاتی مفکروں اور نقادوں کی رائے پیش کرتے ہوئے تفصیلی نظر ڈالی ہے۔ساختاتی طریقۂ کار بیانیہ کے مطالعے کے لیے خاص طور پر موزوں ہے کیوں کہ بیانیہ کا ایک سِرا اگر مِتھ، اساطیر، کتھا ،دیومالائی اور لوگ کہانیوں سے جڑتاہے تو دوسرا سِرا ایپک، ڈرامے، ناول اور افسانے سے ملتاہے۔ اس لیے جس فن میں بیانیہ کی کثرت ہو اس کا ساختیاتی مطالعہ بے حد ضروری ہے۔
گوپی چند نارنگ کے ذریعے فکشن کی شعریات سے متعلق اسلوبیاتی اور ساختیاتی مباحث سے تنقید میں ایک نئ راہ سامنے آتی ہے۔معانی کے تہوں کو کھولنے او رپرکھنے کا ایک نیاپیمانہ سامنے آتاہے ۔کہانی کی معنویت کی جستجو کا انداز، اظہار و اسلوب کے نئے نئے نقشے، ترتیب کی نئ نوعیت سامنے آتی ہے۔ اس طرح سے تنقیدی میدان کے بہت سے نئے اصول سامنے آئے ہیں۔
گوپی چند نارنگ کی تنقیدی تحریروں میں جہاں عمیق النظری،فسلفیانہ استدلال او رگہری بصیرت ملتی ہے وہیں اسلوب ِنگارش کا ایسا حسن بھی پایا جاتاہے جو ان کی تنقیدی تحریروں میں تخلیق کی سی کیفیت پیدا کرتاہے۔شہاب ظفر اعظمی اپنی کتاب میں جانے مانے نقاد پروفیسر ردولوی کا قول نقل کرتے ہیں:
’’گوپی چند نارنگ کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا شگفتہ اسلوب ہے۔ تنقید میں قدم قدم پر اختلاف کی گنجائش ہے لیکن وہ جو بات کہتے ہیں اپنے دائرہ کار میں پورے استدلال اور مدلل انداز سے کہتے ہیں۔ان کے تجزیات کو تنقیدکی استدلالی ساختیتArgementative Structure کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتاہے۔‘‘(جہانِ فکشن،ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی ص:۹۷)
یہ قول پروفیسر نارنگ کی غیر معمولی ناقدانہ ذہانت و صلاحیت کے ساتھ ان کے استدلالی اسلوب ِ تحریر کا شاہد ہے۔ یہی صلاحیت ہے جو ان کو اردو ادب کے دیگر نقادوں سے منفرد بناتی ہے۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو ادب کے ایسے نقاد ہیں جن کی تحریروں میں سادگی ،سلاست،فکر و نظر اور حسن بیان کی خوبی شامل ہے۔ ادب کے کئ پہلؤں سے ان کی تحریریں اہم اور دلچسپ ہوتی ہیں یہاں تک کہ لسانیات جیسے خشک موضوع پر بھی تنقید کرتے ہیں تو اپنے اسلوبِ بیان سے اس میں سلاست و روانی کے ساتھ حلاوت بھر دیتے ہیں۔اس سے اندازہ لگا یا جا سکتاہے کہ فکشن اور جدید افسانے کی تنقید میں ان کی ادبی اور جمالیاتی شان کس قدر نمایاں ہوتی ہوں گی۔
پروفیسر نارنگ کا نظریہ ہے کہ نقاد کا کام صرف فن پارے کے تجزیے او رخوبی خامی بتانے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ خلاق سے اور تخلیق کار کی طرح تخلیقِ معنی بھی کرتاہے۔ اس نقطۂ نظر سے تنقید نگار کی زبان اور اسلوب میں بھی و ہ حلاوت ہونی چاہیے جو قاری کو کسی فن پارے کی طرح اپنی گرفت میں لے سکے۔پروفیسر نارنگ کی تحریر یں اس نظریے کا آئینہ ہے۔
الغرض پروفیسر گوپی جند نارنگ کا تنقیدی میدان بہت وسیع ہے ۔فکشن کی تنقید کے حوالے سے ان کے خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتاہے۔ جدید افسانے کے تعلق جو تنقیدی تصورات ،اصول و نظریات انہوں نے جو پیش کیے ہیں وہ واقعی اردو ادب کو اور خاص کر فکشن کو خوب سے خوب تر بنانے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
آخر میں ،میں کہنا چاہوں گا کہ موجودہ دور کا المیہ ہے کہ انسانوں سے لے کر زبان، جانور ،کپڑے تک کو بھی مذہب سے جو ڑدیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں ایک غیر مسلم ادیب کا ادرو زبان کی اس قدر خدمت انجام دینا ان حضرات کے لیے سبق آموزی کا ذریعہ ہے جو اردوزبان کو صرف مسلمانوں اور ہندی زبان کو غیر مسلموں کی زبان قرار دیتے ہیں۔ مذہب کے نام پر زبانو ں کا بٹوارہ کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ابھی موجوہ دو رمیںسب سے بہترین سنسکرت جاننے والے کا نام ’ڈاکٹر سیدطارق عبداللہ ‘ہے، جس کی گواہی دیتے بڑے بڑے ہندورہنما ؤں کوناچیز نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اور حال ہی میں ایک بارہ تیرہ سال کی مسلم لڑکی نے ’بھگوت گیتا ‘‘میں اول نمبر لائی تھی۔راجستھان کے ایک غیر مسلم نوجوان نے قرآن اور حدیثوں کو مارواڑی زبان میں لکھ ڈالا۔اور ہند ی اردو کی بات کی جائے تو پریم چند، راہی معصو رضا، اپیندر ناتھ اشک، کرشن چندر ، نظیر اکبر آبادی،فراق گھورکھپوری،رحیم، رسکھان اور خو گوپی چند نارنگ وغیرہ بہت سے ایسے مسلم ادیب ملیں گے جنہوںنے ہندی کی بے بہاخدمات انجام دیے اور بہت سے غیر مسلم جنہوں نے اردو زبان کو عشر ِ معلی تک پہنچادیااور بہت سے ایسے ادیب جن میں مسلم غیر مسلم دونوں ہیں ،گنگا جمنی تہذیب کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں قابل قدر خدمات انجام دیے۔
 احمد آباد گجرات
اسکالر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular