Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکچھ دانشؔ بھائی کے بارے میں

کچھ دانشؔ بھائی کے بارے میں

سید خورشید انور رومی نواب

۲۲؍مئی کو صبح میرے ایک عزیزجناب رئیس حسین صاحب سے خبرملی کہ ’’دانش صاحب‘‘ کا انتقال ہو گیا۔ یہ ایسی خبر تھی جس کو دل و دماغ قبول کرنے کو تیار نہ تھا دل کو نتہائی صدمہ ہوا۔ کیونکہ ۱۲گھنٹے قبل یعنی ۲۱؍مئی شام پانچ بجے میں نے جناب دانش صاحب کو اپنے عزیز دوست جناب رئیس حسین صاحب کے گھر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ان کے وہاں بلا ناغہ ملاقات کرنا گویایہ اُنکا روز کامعمول تھا۔وہاں وہ پہلی فرصت میں آپ اپنے عزیز دوست سے ملنے ضرور آتے تھے۔ رئیس صاحب کی معرفت معلوم ہوا کہ موصوف شام ۷؍بجے نماز مغربین پڑھنے کے لئے اُنکے گھر سے مسجد مفتی ا عظم یہ کہتے ہوئے نکلےکہ ابھی واپس آکر آپ کے ساتھ چائے پیوں گا۔ مگر وہ تو اپنے دوست کے گھر نہ آئے بلکہ اُنکے انتقال کی خبر آئی۔
وہ مغربین کے بعد گھر جا رہے تھے کہ اکبری گیٹ پر ’’ایرا اسپتال‘‘ کے پاس دماغ کی نس پھٹ جا نے سے گر گئے۔ تقریباً ساڑھے آٹھ کا وقت تھا ۔ کچھ لوگوں نے دوبجے رات کا وقت لکھا ہے وہ غلط ہے۔ اُن کو فوری طبّی مدد پہونچائی گئی مگر وقت موعود آچکا تھا۔
جناب سیّد علی احمد دانش صاحب ’’دانش تخلّص فرماتے تھے ۔ در حقیقت اُنکا تخلّص ہی انکا پیکر تھا۔ آپ واقعی ایک دانش ور تھے آپ پوری زندگی اردوزبان و ادب کی بے لوث خدمت میںلگے رہے۔آپ ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔نظم اور نثر پر آپ کو عبور حاصل تھاکیوں نہ ہو آپ خاندان انیسؔ کے چشم چراغ تھے۔
آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ ناظمیہ میں ہوئی۔آپ نے اردو زبان میں کوئی بڑی ڈگری تو حاصل نہ کی کیونکہ کچھ مجبوریوں کی بنا آپ فنِ کتابت(کاتب)سے وابستہ ہوگئے تھے اور اُس وقت اُنکے قلم سے اس زمانے کے مشاہیر جیسے مسعود حسن صاحب ادیبؔ،صباح الدین عمرؔ صاحب، نیّر مسعود صاحب، ڈاکٹر اکبر حیدری صاحب وغیرہ کے مسودےانہوں نے لکھے۔وہ خود بھی مطالعہ کرتےرہتے تھے اس سے اُن کی نظر میں وسعت پیدا ہوگئی کیونکہ آپ کثیر المطالعہ تھےاور جا نشین انیسؔ بھی۔ اسلئے اردو مرثیہ پر تحقیق کرنے والےافراد جو کہ ملک و بیرون ملک سے آپ کے پاس آتے توآپ بہت خوش ہوتے اور خاطر تواضع کے علاوہ مواد کی فراہمی میں اس طرح مصروف ہو جاتے گویا یہ امر اُن پر واجب ہو گیا ہو۔یہ کا م وہ صرف اردو کی محبّت میں کرتے تھے۔ایسی شخصیت اب ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ وہ اپنی تحقیق و جستجو کے سلسلہ میں اپنے سے چھوٹے سے بھی رائے مشورہ ومدد مانگنے میں شرمندگی محسوس نہیں کرتے تھے۔اُنکو اپنی علمی اور ادبی خدمات اور وراثت پر ذرّہ برابر بھی غرور نہ تھا۔آپ ایک کھلی کتاب کی طرح تھے۔
دانش ؔ صاحب بڑے ہی خوش مزاج اور غریب پرور انسان تھے۔خود تو صاحب ثروت نہ تھے مگر وہ غریبوں کی اس طرح مدد فرماتے جیسا کہ شریعت میں حکم ہے کہ ’’ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے‘‘۔ آپ خدائے سخن میر ببر علی انیسؔ طاب ثرہ کے علمی خزانہ کے واحد وارث تھے ۔ یہاں پر لفظ واحد سے مراد یہ ہے کہ علمی ورثہ منتقل تو ہوسکتا ہے تقسیم نہیںہو سکتا۔آپ خدائے سخن میر انیسؔ کی چھٹی پُشت میں تھے۔
آپ دیکھیں کہ لکھنو میں بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی شکل میں میر ؔصاحب کے نام کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کر کےجھوٹی شہرت حاصل کی مگر دانشؔ صاحب نے کبھی بھی اپنے قلم سے اپنے نام کے ساتھ میرؔ صاحب کے نام کو نہیں جوڑا بلکہ دوسروں نے انہیں ’’جا نشین انیسؔ‘‘کے لقب سے یاد کیاجو انکی علمی منزلت کی دلیل ہے اور اُن کا حق بھی کیونکہ وہ خانوادۂ انیسؔ کے حقیقی جا نشین تھے باقی مانگے کے اُجالے سے اپنے قلب کےاندھیروں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ایک بھونڈی حرکت ہے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ واقعی ’’جانشین انیسؔ‘‘ تھے انہوں نے میر انیس ؔ پر بہت کام کیا جسکی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ موصوف اکثر ایک مرثیہ کا ذکر کیا کرتے تھےجس کا مطلع ہے’’ تلف ہوئی جو شہ خوش خصال کی دولت‘‘۔ تین شعبان کو جب وہ میرے غریب خانہ پر نظر مولا کے سلسلہ میں تشریف لائے تو اس مرثیہ پر انسے گفتگو ہوئی تھی۔ یہ اُنسے میری آخری ملاقات تھی۔
اس مرثیہ کے سلسلہ میں جناب دانش صاحب فرماتے تھے کہ بہت سے محققین و مفسرین حضرات نے اس مرثیہ کو میر انیسؔ کا بتایا ہے۔ مگر میں اس کو میر صاحب کا نہیں مانتاہوں۔ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جسکی نظر وسیع ہواورجسکی معلومات لا محدود۔
اس سلسلہ میں موصوف نے ایک مضمون بھی لکھا تھا جس کے اقتباسات پیش خدمت ہیں جن کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ موصوف کتنی محنت کرتے تھے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ : پروفیسر ڈاکٹر حیدر ی کشمیری نے ۱۸۸ مرثیوں پر مشتمل مراثی انیسؔ کی نشاندہی کی ……………لیکن راقم السطورتقریباً ۴۰؍سال سے جس مرثیے کی تلاش میں سر گرداں رہا جس کا مطلع: ’’تلف ہوئی جو شہ خوش خصال کی دولت‘‘اس میں نہیں ملا میں نے خاندان انیس کے قلمی مرثیوں میں اسے تلاش کیا لیکن یہ مرثیہ نہ مل سکا۔ پھر امروہہ والوں کی فہرست دیکھی اس میں بھی اس مطلع سے کوئی مرثیہ نہ ملا۔صاحب شمس آباد نواب محمد صادق صفوی کو بھی خط لکھا موصوف نے اپنے ذخیرہ مراثی کی فہرست بھیج دی اس میں بھی یہ مرثیہ نہ ملا۔ یہاں تک کہ دبیر ؔصاحب کے اخلاف میں جناب گوہر آغا صاحب سے رجوع کیا لیکن وہ بھی مذکورہ مرثیہ کی نشاندہی میں قاصر رہے…………الغرض دانشؔ صاحب آگے لکھتے ہیں کہ وقت گُزرتا رہا گُزرتا رہا اتفاق سے ایک دن پروفیسر سید یوسف حسین صاحب موسوی کے یہاں جانا ہو گیا۔ قریب ہی اُن کی ایک ہردلعزیز شاگردہ محترمہ جبیں زیدی صاحبہ رہتی ہیں ان سے بھی ذکر کیا ان کاواسطہ نوابین اودھ کے پرانے گھرانوں سے ہے۔ انہوں نے اپنے گھر میں رکھے ہوئے کچھ مرثیہ عنایت فرمائے۔ میں انہیں اپنے گھر لے آیا ۔ جب انہیں دیکھا تو ان میں میر انیسؔ، میر مونسؔ، مرزا دبیرؔ، میر نفیسؔ ، عاقمؔ، حسینؔ، احسنؔبہادر اور شبیبؔ زیدپوری وغیرہ کے مرثیہ تھے۔ اس قلمی ذخیرے میں ہمیں وہ مرثیہ مل گیا جسے میں چالیس سال سے تلاش کر رہا تھا۔ اسکےسر ورق پر لکھا تھا: ’’ ازبستہ نواب اصغر علی خاں صاحب قبلہ‘‘ مرثیہ دبیرؔ ’’ تلف ہوئی جو شہ خوش خصال کی دولت‘‘۔آپ نے ملاحظہ فرمایا ان کے طلب علم کی جنونی کیفیت کو۔
اسی طرح مرحوم نے کچھ اہم ادبی انکشافات اور بھی کئے ہیں جو اُنکی محنت کا نتیجہ ہیں ۔ ایسا ہی ایک سلام کے جسکا مطلع’’ جب چمن گُلزارِ جنّت کے سنوارے جائیں گے‘‘۔ اس سلام کے سلسلہ میں مشہور ہے کہ یہ سلام اودھ کے اخری تاجدار نواب واجد علی شاہ کا ہے۔ مگر اس سلسلہ میں دانشؔ صاحب لکھتے ہیں کہ’’ میں کافی زمانے تک اس سلام کے سلسلہ میں سرگرداں رہا آخر یہ کس کی تصنیف ہے جسے اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ خوشی یا غم ہر موقع پر مستورات پڑھا کرتی ہیں۔
۱۹۷۶ء؁ میں مہذبؔ لکھنوی سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ’’یہ سلام پیارے صاحب رشیدؔ کا ہے۔ جناب سراجؔ کہ شاگرد تجسسؔ اعجازی سے پوچھا تو انھوں نے اسے صدقؔ لکھنوی کا قرار دیا۔ جتنے منھ اُتنی بات۔ یہاں تک کہ میرے ایک بُزرگ دوست جناب ڈاکٹر سید مجاہد حسین صاحب حسینیؔ الٰہ آبادی سے ذکر کیا تو انھوں نے اپنی دادی کی بیاض سے نقل کر کے پورا سلام مع مقطع کے ہمیں بھیج دیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ سلام جناب جلال ؔ لکھنوی صاحب کا ہے۔
ان اقتباسات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دانشؔ صاحب صرف نام کے ہی دانش نہیں تھے بلکہ انہوں نے جو بھی کام کئے وہ ایک دانشور ہی کر سکتا ہے۔صرف ایک مرثیہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے انہوں نے چالس سال تحقیق کی جو انکی کاوشوں اور انکی دانشوری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اسکے علاوہ انہوں نے بہت سی کتابیں بھی لکھیںجنکے نام ہیں:عکس زار، خطوط مشاہرہ، ادبی میراث ، اسلاف و اخلاق میر انیسؔابھی ہال ہی میں اُنکی ایک اور کتاب منظر عام پر آئی جسکا نام ہے ’’لکھنو جو ایک شہر تھا‘‘ ۔ یہ تمام کتابیں اُنکے اُن مضامین کا ذخیرہ ہیں جو اُنہوں نے وقتاً فوقتاً لکھے تھے۔اُنکا یہ علمی ذخیرہ ایک تاریخی و تحقیقی دستا ویز ہیں۔آخر میں میں انکے ایک مسدس کا مقطع پیش کر رہا ہوں جو انہوں نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالبؑ کی شان میں کہا تھا۔
دانشؔ خموش اب کہ نہیں طاقتِ بیاں
فیضِ انیسؔ ہے کہ جو پائی ہے یہ زباں
حسرت یہی ہے دل میں کہ اب جائیں ہم وہاں
مولا کے روبرو ہو تمنّائوں کا بیاں
دم گھٹا رہا ہے شاہِ نجف کام آیئے
ہندوستاں سےروضے پہ اپنے بُلایئے
۹۰۳۹۴۸۰۸۹۸

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular