Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکچھ خبریں بلا تبصرہ !

کچھ خبریں بلا تبصرہ !

عالم نقوی

آج صرف کچھ خبریں ملاحظہ ہوں جن پر کسی تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں ۔

عبرانی زبان کے ایک اسرائلی  ٹی وی چینل’ ٹِن۔نیوز ‘نے ۸ نومبر کو ایک خفیہ سفارتی کیبل کا انکشاف کیا ہے جو لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کے اچانک مستعفی ہو جانے کے بعد دنیا بھر میں اسرائلی سفیروں کو بھیجا گیا ہے ۔اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ سعد حریری کے اس غیر متوقع استعفے کے پس منظر میں نہ صرف حزب اللہ اور ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بنائیں  بلکہ یمن میں ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف سعودی عرب کی فوجی کارروائیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی ہر ممکن سفارتی طریقے بروئے کار لائیں کیونکہ ایران خطے میں تخریب کاری میں مصروف ہے ۔ اسرائلی سفرا سے کہا گیا ہے کہ وہ ایران اور حزب ا للہ کو لبنان کی سیکورٹی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کریں’براک ریوڈ‘ نام کے اسرائلی صحافی نے اس خفیہ کیبل کو افشا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ  اسرائل اور سعودی عرب جو اس وقت پوری طرح متحد ہیں  اس بات سے بہت متفکر  ہیں کہ شام میں بشار ا لاسد کے خلاف ان کی جنگ نے حزب ا للہ   کو کمزور کرنے کے بجائے مزید طاقتور بنا دیا ہے ۔

دوسری خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سعد حریری  سعودی عرب  میں نظر بند ہیں !کچھ روز قبل ریاض میں انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا تھا ۔ انہوں نے استعفے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ بیروت میں ان کی جان کو خطرہ ہے ۔ اگرچہ ابھی تک لبنان کے صدر نے ان کا استعفے منظور نہیں کیا ہے  لیکن وہ ریاض ہی میں ’نظر بند ‘ ہیں ۔ایک لبنانی افسر نے بیروت میں اخبار نویسوں کو یہ اطلاع دیتے ہوئے بتا یا کہ لبنان نے سبھی عرب ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ وزیر اعظم حریری کی رہائی کے لیے سعودی عرب پر دباؤ ڈالیں کیونکہ اس کا یہ اقدام لبنان کی خود مختاری پر حملے کے مترادف ہے لبنانی عوام کی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ سعد حریری نے سعودی عرب کے دباؤ میں استعفے کا اعلان کیا تھا

تیسری خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کی جانب سے ’دہشت گردی کی عملی حمایت روکنے کے لیے عالمی ادارہ مناسب اقدامات کرے کیونکہ ایرانی کارروائیوں  سے مملکت سمیت پورے علاقے کی سلامتی کو خطرہ ہے ۔ بدھ۸ نومبر ۲۰۱۷  کو اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کمیٹی کی میٹنگ سے قبل سعودی مندوب نے جو خط عالمی ادارے کے نام لکھا ہے اس میں یمن کے انسانی بحران کی ساری ذمہ داری ایران اور حوثیوں پر عائد کی گئی ہے ۔سعودی بمباری ،گولہ باری اور یمن کی معاشی ناکہ بندی کا اس میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔

چوتھی خبر  خود اقوام متحدہ کی ہے جس کے انسانی حقوق سے متعلق  انڈر سکریٹری جنرل مارک لوکوک نے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ اگر  یمن کی معاشی ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو وہاں ایسا بھیانک قحط پڑے گا جس کی تاریخ میں شاید دوسری کوئی مثال نہ ملے ۔کئی کروڑ یمنی اس قحط اور بھکمری کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی پندرہ رکنی  سلامتی کونسل نے مارک لوکوک  کے اس بیان کے بعد سعودی قیادت میں قائم فوجی اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ یمن  کے ہوائی اڈے اور بندرگاہیں فوری طور پر کھولی جائیں تاکہ جنگ سے متائثرہ افراد تک انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کو یقینی بنا یا جا سکے ۔ مارک لوکوک نے بعد میں پریس کو بتایا کہ انہوں نے بند کمرے میں ہونے والی سلامتی کونسل کی میٹنگ میں سبھی پندرہ رکن ممالک کو متنبہ کر دیا ہے کہ یمن کی ناکہ بندی ختم کیے بغیر وہاں کے قحط سے نہیں نپٹا جا سکتا ۔

تین سال سے جاری یمن کی جنگ کا بنیادی سبب یمن کے تین اضلاع پر سعودی عرب کا  قبضہ ہے ۔صدی کے آغاز میں یہ تینوں ضلعے سعودی عرب کو پٹّے پر دئیے گئے تھے ۔برسوں پہلے لیز کی مدت ختم ہوجانے کے بعد جب یمن نے اپنا علاقوں  کا قبضہ واپس مانگا تو  عملاً جو ہوا وہ آج یمن کے انسانی بحران کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے ۔

یمن میں اس وقت ایک کروڑ ستر لاکھ افراد کو خوراک کی شدید اور فوری فراہمی کی ضرورت ہے ۔ان میں سے ستر لاکھ افراد تو بھکمری اور قحط کے شکار ہیں ۔ وہاں ہیضے کی وبا پھیلی ہوئی ہے جس میں اب تک دو ہزار افراد موت کے منھ میں جا چکے ہیں ۔ ریڈ کراس کی جس امداد کو سعودی ناکہ بندی نے روک رکھا ہے اس میں غذائی سامان کے علاوہ دوائیں بھی ہیں ۔

آخری خبر تہران کی ہے۔ایران کے صدر سید حسن روحانی نے سعودی عرب سے کہا ہے کہ وہ علاقائی ریاستوں کے لیے مسائل پیدا کرنے کے بجائے اپنے داخلی مسائل حل کرنے کی کوشش کرے تو شاید  زیادہ اچھا ہوگا۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ یمنی ’’باغیوں ‘‘ کو ہتھیار اور میزائل دے رہا ہے جبکہ ایران اس سے انکار کرتا ہے ۔

شام اور یمن کا المیہ یہ ہے کہ ظالم و مظلوم دونوں ایک اللہ ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں ! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ۔جہاں اقلیت میں ہیں وہاں اپنی نا اہلی  کے باعث مختلف ا لنوع مسائل کے شکار ہیں اور جہاں اکثریت میں ہیں وہاں اپنی اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں جس کے ہم ان ملکوں میں شاکی ہیں جہاں ہم اقلیت میں ہیں ! یاد رہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ظالموں کی کبھی ہدایت نہیں کرتا ۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular