Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکتاب:غبارِ شوق شعری مجموعہ

کتاب:غبارِ شوق شعری مجموعہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

(خان محمد رضوان)

شاعر :احمد سجاد ساجد قاسمیؔ
ناشر :فرید بک ڈپو(پرائیویٹ) لمیٹڈ، نئی دہلی
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۸ ،صفحات : ۲۰۵، قیمت۱۵۰/-روپے

’غبارِ شوق‘ احمد سجاد ساجدقاسمی کا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں صرف ذوق کی تسکین کا ہی سامان نہیں ہے ، بلکہ روح کی تسکین کا بھی سامان ہے۔ علم کے انمول نگینے اشعار کی شکل میں موجود ہیں۔ شاعر موصوف کے والد مفتی ظفیر الدین ، جید عالم دین تھے ، دارالعلوم دیوبند میں استاد اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے فعال رکن تھے۔
احمد سجاد قاسمی دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس وقت بہار کے ضلع دربھنگہ کے ایک اسکول میں بحیثیت استاد خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ ان کے اندر شاعری کی خدا داد صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اس کی تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔ان میں نظمیں،غزلیں، شخصی مر ثیے اور منظوم خطوط شامل ہیں ۔ ان کی شاعری میں نظموں اورغزلوں کا رنگ جدا جدا ہے ۔ ان کے یہاں غزلوں میں موضوع کا تنوّع پایا جاتا ہے ۔ وہ ایک موضوع کوسورنگ سے باندھنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ انہوں نے روایت سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے اورفطری زبان میں شعر گوئی کی ہے ۔ وہ سادگی اور صفائی سے بات کہنے کےقائل ہیں، چنانچہ بڑی سے بڑی بات بھی آسان اورعام فہم زبان میں کہہ جاتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
اب تو بے خانماں ہیں عنادل
بجلیوں نے جلائے نشیمن
بجھ گئے آرزوؤں کے سارے دیے
دل میں بس یاد کی روشنی رہ گئی
جس نے بخشا ہے شرف میری جبیں کوساجدؔ
ساری دنیا سے حسیں مجھ کو وہ در لگتا ہے
یہ فرقہ پرستی ہے یا ظلم کی ہے ناگن
معصوم جوانوں کوچن چن کے یہ ڈستی ہے
اس مجموعے میں شامل غزلوں کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سیاسی ، سماجی معاشی ، معاشرتی اورتہذیبی پیکر کے اشعار بھی ہیں اور عشق حقیقی اورعشق مجازی کے اشعار بھی ، مگر کمال یہ ہے کہ شاعر نے ہر موضوع کوحالات اور زمانے سے اس طرح مربوط کرکے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے کہ وہ آج کا معلوم ہوتا ہے ۔ شاعر جوکچھ کہتا ہے، پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ میرے دل کی بات ہے ۔ لفظوں کا برتاؤ نیا ہے، لہجے میں فرسودگی نہیں۔ مولانا روم ، حافظ ، سعدی ، خسرو،اقبال، فیض اورمومن وغیرہ کا عکس ان کی شاعری میں جگہ جگہ نمایاں ہے ۔ حالات جتنی تیزی سے بدلے ہیں، ہماری قدریں اسی تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہوئی ہیں ،انہوں نے اس کیفیت کو بھی محسوس کیا ہے۔
شاعر موصوف نے اپنی نظموں کو مافی الضمیر کے اظہار کا خوب صورت وسیلہ بنایا ہے ۔ ایک بند ملاحظہ کریں:
آج کے اس دور میں سستا ہے انساں کا لہو
آج کچلی جارہی ہے ہر امید و آرزو
آج چھینا جارہا ہے ہرگلی کا رنگ وبو
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے گرچہ فرقہ واریت
پھر بھی اے اہلِ وطن آؤ منائیں حرّیت
ساجد قاسمی کی شاعری رواں اورعام فہم ہے ۔ یہ وہ شاعری ہے جس سے فکروفن کے دریچے وا ہوتے ہیں ۔ اس عمدہ شاعری پہ ساجد قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
qq

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular