Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldچند باتیں خطوط کی زبانی

چند باتیں خطوط کی زبانی

شارب ردولوی

خطوط ہمارے لئے صرف کسی شخصیت کے نہاںخانوں تک پہنچنے کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ وہ اپنے زمانے کی ایسی تاریخ ہیں جوخود تاریخی کتابوں میں نہیں ملتی۔ خطوط اپنے عہد کے خواب بھی ہیں اور تعبیر بھی۔ اس میں محبتیں بھی ہیں اورشکائتیں بھی، اس میں ایک تصنع سے بری انسان سے ملاقات ہوتی ہے۔ یہ ایسا علمی ، ادبی اور تاریخی خزانہ جس کی دوسری مثال مشکل سے ملے گی۔خطوط کے مطالعہ میں اگر مکتوب نگار ایک ہو تو اس کی شخصیت اور اس سے متعلق بہت سی ایسی باتوں کو سمجھنے میں مددملتی ہے جن تک کسی دوسرے ذریعہ سے رثائی ممکن نہیں۔ لیکن اگر مکتوب الیہ ایک ہے اور مکتوب نگار بہت سے ہیں تو خطوط اس پورے عہد کے مزاج، حالات ۔تاریخ وتہذیب تک پہنچنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ان کی اس اہمیت کے علاوہ خطوط کی حیثیت ایک نثری اسلوب کی بھی ہے اور اس اسلوب میں غالب سے چودھری محمد علی ردولوی تک مولانا آزادہوں اقبال ہوں یاشبلی ۔سب کے خطوط اپنے زمانے کے خوبصورت اسلوب کے مطالعے کا ایک ذریعہ ہیں۔
ہمارے عہد کی ایک بہت اہم شخصیت مفتی رضا انصاری کی تھی جوعربی فارسی کے عالم بھی تھے، صحافی اور ادیب بھی جنھیں اپنے دینی علم کی بنا پر مفتی کا مرتبہ حاصل تھا اور اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے پورے ملک کے مذہبی علمی و ادبی حلقے میں ان کی بڑی اہمیت تھی اور اُس وقت کے اہم لوگوں میں کوئی ایسا مشکل سے ملے گا جس سے ان کی خط وکتاب نہ رہی ہو۔ یہ خطوط خواہ کتنے ہی ذاتی اور کسی فرد کی ضرورت سے متعلق کیوں نہ ہوں لیکن آج یہ ایک عہد کی تاریخ کے اوراق ہیں۔ ان خطوط سے مکتوب نگار کے مزاج اور اس کی نجی ضروریات کا اندازہ ہوتا ہے اسی لئے خطوط کو شخصی مطالعے کے علاوہ کسی عہد یا اس عہد کے لوگوں کے مزاج ، عقائد اور سیاسی و تاریخی حالات کو سمجھنے کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔ مفتی رضا انصاری کے نام آئے ہوئے خطوط کو برسوں کی سخت محنت اور تگ و دو کے بعد ان کی بیٹی فرزانہ اعجاز نے بہت خوش اسلوبی سے ترتیب دے کر ’خطوط کی زبانی ‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ یہ خطوط ایک عہد کے اہم ترین اشخاص کے لکھے ہوئے ہیں۔ مفتی رضا انصاری صاحب جن کو ہم اتنے بڑے نام کے بجائے صرف رضا بھائی کے نام سے جانتے تھے وہ ایک عالم دین بانی درس نظامی کے مصنف اور مفتی کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے ایک فعال رکن تھے۔ جب کوئی حلقہ اعتراض کرے کہ یہ تحریک مذہب مخالف ہے تو اس کا جواب مفتی رضا انصاری اور مولانا اسحاق سنبھلی ہوتے تھے ۔ کچھ مذہب مخالف رویہ ہندوستان کے کمیونسٹ پارٹی کے بعض ممبروں میں بھی تھا لیکن سارے ترقی پسند کمیونسٹ پارٹی کے ممبر نہیں تھے سجاد ظہیر ضرور کمیونسٹ تھے اور ترقی پسند تحریک کے بانی تھے لیکن انھوں نے کبھی مذہب مخالف رویہ نہیں اختیار کیا بلکہ جن لوگوں نے ایسی بات کی اس کی مخالفت کی۔ ندو ہ کے نصاب تعلیم کے سلسلہ میں مفتی رضا انصاری اور مولانا سید سلیمان ندوی میں کچھ اختلاف رائے ہو گیا جس پررضا انصاری صاحب نے ایک مضمون لکھ کر اپنے اختلافات کا اظہار کیا اس مضمون پر ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور رضا انصاری صاحب کو ’ہمدم‘ کی ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اگر سجاد ظہیر یا ترقی پسند تحریک مذہب مخالف ہوتی تو سجاد ظہیر اس مسئلہ کو اور ہوا دیتے اس کے بجائے وہ رضا انصاری صاحب کو لکھتے ہیں :-
’’ بھائی میں نے ایک ہفتہ تک اس پر غور کیا آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اس معاملے کو رفع دفع کر ڈالو۔ سید سلیمان (ندوی) سے معذرت مانگ لو یہ بڑی چیز نہیں وہ عالم ہیں اور بزرگ ہیں۔ہمارے ان کے خیالات میں بہت اختلاف سہی پھر بھی ان کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے‘‘(خطوط کی زبانی ، ص 203-4)
اپنے اختلاف کے اظہار کے باوجود خود معذرت کرنا مشکل کام تھا لیکن انقلابی ہونے کے باوجود سجاد ظہیر نے علم اور بزرگی کے احترام میں ایک مشکل راستہ اپنانے کا مشورہ دیا۔
مجھے نہیںمعلوم کہ اس خط پر رضا انصاری صاحب کا رد عمل کیا ہوا لیکن اس سے مذہب اور علم کا احترام ضرور ظاہر ہوتا ہے اس خط پر 18اگست لکھا ہے لیکن سن درج نہیں ہے پھر بھی میرے اندازے کے مطابق یہ خط 1938-39 کا ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ دوسری جنگ عظیم کے خطرے کی طرف اس میں اشارہ ہے جو ستمبر 1939میں شروع ہوئی جو جرمنی ، جاپان اور اٹلی کے خلاف تھی اور ہندوستان، انگلینڈ کناڈا، امریکہ چین، سوویت یونیئن کے ساتھ ستمبر 1939 میںشامل ہو گیا تھا۔ اپنے ایک دوسرے خط میں مولانا عبدالحئی کے بارے میں لکھے ایک مضمون کی تعریف کرتے ہوئے رضا انصاری صاحب سے فرمائش کرتے ہیں:-
’’کیا تم ہمارے ’حیات‘ کے لئے ایک مضمون فرنگی محل اور علمائے فرنگی محل کے متعلق لکھ سکتے ہو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ الگ مضمون میں یہ بتایا جائے کہ فرنگی محل میں کب سے ان علماء نے قیام شروع کیا ، ان میں کون کون سی نامور ہستیاں تھیں اور اودھ کی حکومت کے ساتھ ان کے کیسے تعلقات تھے اور پھر ہندوستان کی تحریک آزادی میں ان میں سے کن کن نے نمایاں حصہ لیا۔’’( 27جنوری 1965صفحہ 207)
اس طرح سجاد ظہیر نے ہمیشہ مذہب اورعلما دین کا احترام کیا، لیکن اس اعتراض کو قطعی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ مارکسزم میں ایک پہلو مذہب مخالف تھا ہمارے کچھ شاعر ادیب ایسے ضرور تھے جن کی تحریر میں مذہب مخالف جذبات کا اظہار مل سکتا ہے لیکن ہر ترقی پسند نقطہ نظر رکھنے والے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ بات تھوڑی سی بڑھ گئی لیکن ان خطوط کی یہی اہمیت ہے کہ ان میں بیشتر خط ایسے ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہئے۔
ان خطوط کی علمی و ادبی جو اہمیت ہے اس سے الگ ان سے اس کا بھی اندازہ ہوتاہے کہ اس وقت کے لوگوں کو دینی امور میں کتنی دلچسپی تھی۔ یہ اتفاق ہے کہ رضا انصاری صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو تھے وہ فرنگی محل جو مشترکہ ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا دینی مرکز تھا اس کے مفتی تھے۔ جہاں تک ادب کا تعلق تھا وہ ہندوستان کی سب سے بڑی ادبی تحریک کے فعال رکن تھے اور اردو کے ایک بے حد مقبول روزنامہ اخبار قومی آواز سے متعلق تھے اس لئے ان کے پاس آنے والے خطوط میں طرح طرح کے سوالات سامنے آتے ہیں یہ ضرور ہے کہ خود رضا انصاری صاحب کی رائے (جواب خط) سامنے نہ ہونے کی وجہ سے تشنگی بلکہ ایک طرح کی بیچینی کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کا جواب کیا دیاہو گیا لیکن اس کا علم ضرورہوتا ہے کہ اس وقت کا پڑھالکھا طبقہ مذہب کے معاملے میں تنگ نظر نہیں تھا۔ غیر مسلم بھی مسلمانوں کی مذہبی کتابیں پڑھتے تھے اور مختلف باتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے اردو ، ہندی کے مشہور افسانہ ، ناول نگار اوپیندر ناتھ اشک ایک عجیب و غریب شخصیت کے مالک تھے ان کی شہرت پریم چند کی طرح ہندی میں جتنی تھی اتنی ہی اردو میں تھی ترقی پسند ادیب تھے۔ انھیںرسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات پر ہندی میں ایک کتاب ’پوترن جیون‘ ارتھات جگت گرو شری محمد جی مہاراج کا جیون برتانت‘ کہیں سے مل گئی انھوں نے کتاب کی تعریف کرتے ہوئے رسول اللہ کی زندگی ، ازواج اور قبیلہ قریش کی بت پرستی بتوں کی تعداد، خانہ کعبہ میں لگے سنگ اسود وغیرہ کے بارے میںرضا انصاری صاحب کو ایک طویل خط لکھا :-
’’سنگ اسود کے بارے میں اس میں کوئی اطلاع نہیں، نہ خانۂ کعبہ کے بارے میں تفصیل سے کچھ درج ہے صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ قریش کے قبیلے بت پرست تھے اور ہر قبیلے کا کوئی نہ کوئی دیوتا ہوتا تھا اور خانہ کعبہ میں 360بت تھے۔۔۔۔ یہ کتاب پڑھ کر میرے من میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اگر اردو میں کوئی مستند کتاب حاصل ہو سکے تو میں پڑھوں۔ اگر آپ ندوی صاحب سے کہکر وہ کتاب ’وی پی‘ سے بھجواں سکیں تو بہت مشکور ہوں گا۔ (ص 123-24 )
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک اچھی فضا میں لوگ ایک دوسرے کے دین کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تھے۔
مفتی کے مرتبے پر فائز ہونے کی وجہ سے اس طرح کے بہت سے خطوط اہل علم حضرات کے ہیں جن میں انھوں نے ان سے مذہبی معاملات اور فقہی مسائل میں رہنمائی چاہی ہے لیکن ایک بہت دلچسپ خط کا ذکر ضروری ہے یہ خط مشہور صاحب طرز ادیب ، اودھ کی ایک بڑی تہذیبی و علمی شخصیت چودھری محمد علی ردولوی کا ہے۔ ان کے کئی خط ہیں ایک طویل خط میں انھوں نے معجزے اور احادیث کے بارے میں سوال بھی اٹھائے ہیں اور رضا انصاری صاحب سے خود ان کی رائے طلب کی ہے۔
چودھری محمد علی ردولوی کے عقائد کے بارے میں آج کے قاری کا کوئی خط یا تبصرہ پڑھ کر فیصلہ کرنا غلط ہوگا جب تک ان کی کتاب ’میرا مذہب‘ نہ پڑھ لے وہ ایک آزاد خیال عالم تھے۔ چودھری محمد علی نے اپنے خط میں اپنے مخصوص اسلوب میں بعض سوال اٹھائے ہیں جس پر میرے دوست حفیظ نعمانی نے اپنے مضمون مطبوعہ ’اودھ نامہ ‘ (اردو روزنامہ) 3,4مئی 2018تفصیل سے بحث کی ہے۔ چودھری محمد علی بہت سے سوالات اور اپنے شکوک بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
’’بہت دن پہلے میں نے ایک مضمون ’معلومات‘ میں لکھا تھا صرف یہی ایک صفحہ باقی ہے اس کو پڑھ کر برائے مہربانی واپس کر دیجئے گا ایک جاہل کی تحریر پڑھ کر آپ پر کیا اثر ہوگا مگر آپ نے کہا اور میں نے لکھ دیا۔ ‘‘(صفحہ428)
چودھری محمد علی کا یہ مضمون معلومات دسمبر 1934جلد 1نمبر 6میں شائع ہوا تھا مضمون کا عنوان ’مذہب کا موجودہ دائرئہ عمل ‘‘ ہے جسے میں سہ ماہی اردو ادب دہلی میں اپنے مضمون کے ساتھ شائع کر چکا ہوں۔
خطوط کے اس مجموعے کی ایک خوبی یہ بھی ہے اس میں سیاسی رہنمائوں میںمہاتما گاندھی سے لے کر مولانا آزاد، چودھری خلیق الزماں اور دوسرے اہم رہنمائوں کے خطوط بھی ہیں ، علماء میں مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریاآبادی،مولانا منظور نعمانی، صوفی خانقاہوں سے متعلق شاہ آفاق احمد احمدی، مجتبیٰ حیدر تکیہ شریف کاکوری ادیبوں اور شاعروں میںمالک رام، حیات اللہ انصاری،جوش، جذبی، سردار جعفری ، مجاز غرض ایک عہد کی تمام بڑی ہستیوں کے خطوط موجود ہیں ان خطوط میں جذبی کے خط سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجازؔ کے انتقال کے فوراََ بعد وہ کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اُس خط کے جواب میں کیا ہے جو رضا انصاری صاحب نے مجازؔ کے انتقال کی خبر دیتے ہوئے لکھا تھا ۔ جذبیؔ لکھتے ہیں
۔۔۔تمہارے خط کا جواب میرے پاس کیا ہوسکتا ہے جو دل و دماغ پر بیت گئی اس کا ذکر کس سے کروں۔اللہ ایک عمرکا ساتھ بچھڑ گیا اب لوگ مجازؔ کے سوگ میں خوب خوب جلسے کریںگے اس کی شرافت ،انسانیت اور زندگی پربلند پایہ مضامین شائع ہوں گے اس کی تصویر یں جگہ جگہ لگائی جائیں گی اور نہ جانے کیا کیا ہوگا لیکن زندگی میں ۔۔۔۔آج چار دن سے وہ فلم دیکھ رہا ہوں جو پچیس سال کی مدت میں تیار ہوئی ہے سوچ رہا ہوں کہ اس فلم کو اپنی زندگی میں دوسروں کو بھی دکھادوں یہ اس کے حضور میں میرا خراج ہوگا خدا کرے شایان شان ہو۔
اس کام میں تم میرا ہاتھ بٹائو مجازؔ کے جتنے واقعات اور حالات مجاز کے دوستوں اور پرستاروں سے حاصل ہو سکیں مجھے برابر بھیجتے رہو ۔۔۔۔میں خود بھی اسی سلسلہ میں مختلف مقامات کا دورہ کروں گا ۔دعا کرو یہ کام مجھ جیسے ناکارہ انسان سے جسے مجازؔ نے دوستی کا شرف بخشا تھا انجام پا جائے۔‘‘(خطوط کی زبانی ص 475-76)
یہاں پر جذبی کے ایک اور خط کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں تخلیقی عمل اور خاص طورسے اپنی بعض نظموں کی تخلیق اور ٹکنیک پر گفتگو ہے یہ خط طویل ہے لیکن اس لئے بہت اہم ہے کہ اس میں اس بات سے بحث ہے کہ بلند آہنگ سیاسی یا سماجی مسائل پر نظمیں لکھی جا سکتی ہیں یا نہیں۔ جس کے ساتھ جذبیؔ نے اپنی تین نظموں ’کوئی‘، ’موت‘، اور’ طوائف زادی‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کی تکنیک کے بارے میں لکھتے ہیں
’’ یہ سب نظمیں در اصل تجرباتی قسم کی ہیں ، تکنیک پر ابھی پورا پورا قابو نہیں نقطہ نظر بھی ابھی کائناتی نہیں ہے۔۔۔سماجی اور سیاسی ہیجانی اور اقتصای بے اطمینانی کی وجہ سے نئے نئے موضوعات از خود سامنے آرہے ہیں لیکن جب تک کوئی شاعر اس ہیجان اور بے اطمینانی کو واقعی محسوس نہ کرے اس کے اشعار میں کبھی ہر گز وہ ہیجان اور بے اطمینانی نہیں پیدا ہو سکتی‘‘(صفحہ 475)
اس خط پر تاریخ نہیں درج ہے لیکن دسمبر کا ذکرہے پتہ ’نیا ادب‘ کا دیا ہوا ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ خط ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے کا ہے۔ نظموں کے سلسلہ میں جو بحث ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی پسند شعرا نے سماجی و سیاسی موضوعات پر نظمیںلکھنے پر زور دیا لیکن جذبیؔ کا کہنا ہے کہ جب تک کہ خود اس کو کوئی محسوس نہیں کرتا اچھی نظم نہیں لکھی جا سکتی۔ جذبیؔ، راست شاعری کے قائل نہیں تھے جس پر اس زمانے میں زور دیا جانے لگا تھا جذبیؔ اس کو فن کے خلاف سمجھتے ہیں انہوں نے اس خط میں لکھا ہے کہ
’’۔۔۔ اگر آپ نے کوئی بنیادی مسئلہ ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا تو آرٹ کی لطافت جاتی رہے گی۔ کسی بنیادی مسئلہ کے پیش کرنے کا میں قائل نہیں اس مسئلہ کی طرف اشارے کا قائل ہوں۔‘‘ (صفحہ 471)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی ترقی پسند طبقہ کے شعرا میں اظہارو بیان کے سلسلہ بیچینی تھی کہ فن کسی بات کا صرف منظوم اظہار نہیں ہے۔
یہ خطوط مختلف خیالات کے لوگوں کے ہیں بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ متضاد خیالات کے لوگوں کے ہیں جن سے خود رضا انصاری صاحب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہر طرح کے لوگ ان سے تعاون اور رہنمائی چاہتے تھے۔ اور کس طرح انہوں نے مختلف مزاج، مختلف خیال اور مختلف عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے یکساں طور پر محبت و احترام کا رشتہ قائم کر رکھا۔
اس مجموعے میں مجاز کے بھی تین خط ہیں۔ ان خطوں سے بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے اب تک مجاز کے سوانح نگاروں نے (بشمول شارب ردولوی) یہی لکھا ہے کہ پہلے دورے (1940) کے بعد وہ لکھنؤ میں رہے، لیکن صحیح طور پر نہیں معلوم کہ کتنا عرصہ ہے۔
’’ پہلے دورے سے صحت یاب ہونے کے بعد ہونے کے بعد مجاز لکھنؤ ہی میں تھے کہ 1943میں ایک مشاعرہ میں انھیں آگرہ جانے کا موقع ملا انھوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور آگرے کے مشاعرے سے دہلی آگئے (اسرار الحق مجاز شارب ردولوی صفحہ 56)
لیکن مجاز کے یہ خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ وہ 1942میں دہلی میں تھے وہ دہلی کب آئے تھے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے قیام سے خوش تھے اس لئے کہ وہ رضا انصاری صاحب کو لکھتے ہیں
’’بھیا رضا بہت شرمندہ ہوں کیا کروں؟حالات ایسے ہی ہیں۔ دوغزلیں لکھ چکا ہوں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ ایک نظم کل شروع کی ہے جس کا ریکارڈ ’بی بی سی‘ سے براڈ کاسٹ ہوگا اب لندن تک مشاعرہ پہنچا دیا گیا۔ ان حالات کی روشنی میں تم میری ہر خطا معاف کردو گے سوائے تمہارے اور۔۔۔ مجھے ابھی یہیں رہنا ہے گھر لکھ دیا ہے‘‘ (ص 388)
اس کا مطلب ہے کہ انھوں نے رضا انصاری صاحب کے علاوہ بھی کسی کو لکھا تھا جس کا نام نہیں لکھا ظاہر ہے کہ رضا انصاری کے لئے یہ اشارہ کافی تھا۔ اس خط میں نصف خط سبط (سبط حسن) کے نام ہے جس میں بمبئی کانفرنس میں ان کی شرکت کے بارے میں معلوم کیا ہے اس خط سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سجاد ظہیر(بنّے) بھی اس زمانے میں دہلی ہی میں تھے۔ دوسرا خط جنوری 1943کا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجاز مسلسل نہیں تو کافی دنوں سے دہلی میں تھے لیکن پریشان تھے اس لئے کہ اس دوسطری خط میں صرف اتنا لکھتے ہیں کہ
’’دہلی میں ہوں اور حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آسکوں‘‘ (صفحہ 386)
1943کا ہی ان کاایک طویل خط ہے جس میں جذبی کے کسی آپریشن اور اپنے ’’عہد وفا کے ابدی‘‘ ہونے کے ذکر کے ساتھ ملازمت کا ذکر بھی کیا ہے ۔ یہ زمانہ وہ تھا جب سرکاری (انگریزوں) ملازمت کا بائکاٹ کیا گیا تھا اس لئے لکھتے ہیں ۔
’’۔۔۔اب صورت یہ ہے کہ وہی ہوا جس کا میری طرف سے اندیشہ تھا یعنی۔۔ہر نوکری کرلی۔ مگر ا س سے قبل بنّے وغیرہ سے مشورہ کر لیا تھا لہٰذا ضمیر اور دل مطمئن ہے۔ معاملہ سرکاری نہیں اس لئے کوسنانہیں کوسنے کی کوئی اور وجہ ہو تو دریغ بھی نہ کرنا۔ (صفحہ386)
مئی 1943ہی میں بمبئی میں کانفرنس بھی تھی اور مجازؔ کو کانفرنس میں شرکت کی سخت بیچینی تھی انھوں نے ملازمت میں بھی یہ شرط رکھی تھی کہ انھیں کچھ دن کی چھٹی دی جائے یہ ملازمت ہارڈنگ لائبریری کی تھی جس کا نام انھوں نے نہیں لکھا ہے وہ خط میں لکھتے ہیں
’’اب صورت یہ ہے کہ 15مئی سے کام شروع کر رہا ہوں اس شرط پر کہ مئی کی کانفرنس کے لئے چار پانچ دن کی چھٹی مل جائے اس عرصے میں یہ کر رہاہوںکہ 9کو ایک دن کے لئے امرتسر کے ترقی پسندون کے مشاعرے میں پھر۱۰،۱۱کو لاہور، اپنی وفا کا حتی الامکان ثبوت دیاجائے گا۔پھر بالکل اسی سلسلہ میں ۱۳ کو دہلی واپسی ہو جائے گی اور ۱۵کو ذمہ داریوں کی قبر میں دفن ہو جانے کا مصمم اور غالباََ نیک ارادہ ہے۔۔۔ فیض کل آیا تھا میرے ساتھ بلکہ اسی کے ساتھ امرتسر جارہا ہوں وہ بمبئی نہ جا سکے گا (ص386-87)
مجاز کا یہ خط خاصہ طویل ہے اس سے کچھ اور اشارے بھی ملتے ہیں مثلاََ جذبی اور ان کے والد کے درمیان بعض اختلافات ہو گئے تھے جس کی وجہ سے دونوں کے درمیان ملنا جلنا نہیں تھا مجاز نے دونوں میں مفاہمت کرا دی اس کے علاوہ ایک جگہ ’’نورائوں‘‘ذکر ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی نظم ’نورا‘ اسپتال کی کسی نرس کے بارے میں ہے مجاز لکھتے ہیں
’’جذبی کا آپریشن کامیاب رہا ۔ پرسوں گیا تھا آج پھر جائوں گا۔ ان کے والد سے سمجھوتا کرادیا وہ بھی دہلی آگئے ہیں۔ پندرہ روز میں بالکل ٹھیک ہو جائے گا آج کل چہرے پر بڑی آب و تاب ہے ہسپتال میں ’’نورائیں‘‘ تلاش کر لی ہیں مگر جرأت رندانہ نہیں ہے‘‘ (ص 387)
ان کے خط سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی جماعت تھی کی کانفرنس میں بھی ہمارے اداباشریک ہوتے تھے اور ان کانفرنس کا ایک دلکش پہلو مشاعرہ بھی تھا۔مخدوم محی الدین اپنے ایک خط میں ایک بڑی دلچسپ بات لکھتے ہیں
’’میری متاع شعرحقیر و قلیل ہے جتنی نظمیں آپ کی نظر سے گزری ہیں اتنی ہی یا ایک آدھ اس سے زیادہ لکھی ہیں۔۔ ’حویلی‘ اب تک کہیں شائع نہیں ہوئی ہے۔اگر نیا ادب میں آسکتی ہے تو کہئے تاکہ میںدوسری جگہ نہ بھیجوں اس نظم کا کیا عجیب حال ہوا۔
زاہد تنگ نظرنے مجھے کافرجانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
اگر اس نظم میں کچھ ’کفریہ کلمات‘ ہوں تو ’نقل کفر کفر نہ باشد‘ہی سہی۔ سبط سے کہنا کہ مخدوم نے سلام تک نہیںلکھا‘‘
نوٹ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ناگپور میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی چھٹی کانفرنس ہو رہی ہے شاید آپ لوگوں کے پاس بھی دعوت نامہ آئے۔ جوش کو مشاعرے کی صدارت کی دعوت دی جا رہی ہے آپ بھی آمادہ کیجئے کہ وہ دعوت قبول کر لیں۔‘‘ (صفحہ 429-30)
میں ذاتی طور پر رضا صاحب کو دور سے بھی چانتا ہوں اور بہت قریب سے بھی۔ جب لکھنؤ میں طالب علم تھا تو رضا صاحب ترقی پسند نوجوانوں کے لیڈر تھے اس لئے ہم لوگوں کی ان سے اور قومی آواز کے پورے عملے سے ایک خاص طرح کا احترام کا رشتہ تھا لیکن اس کے بعد ایک موقع ایسا آیا کہ رضا صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے اور ان کی علمیت سے واقف ہونے کاموقع ملا جب حیات اللہ انصاری صاحب نے انھیں ترقی اردو بورڈ کے ترجموں کی نثر(زبان) درست کرنے کے لئے دہلی بلا لیا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ انھیں تاریخ ، مذہب اور ادب پر کتنا عبور ہے بہت عرصہ میرا ان کا دن بھر ساتھ رہا اور بہت سے مسائل پر ہم لوگ گفتگو کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے تھے۔ میں نے ان میں دو باتیں خاص طور محسوس کیں کہ وہ اپنے خردوں کے قدر شناس بھی تھے اور ان کی رائے کو اہمیت دینابھی جانتے تھے اس کے علاوہ خود انھیں ترجمے پر بلا کی قدرت تھی اور زبان کبھی ان کے لئے کسی معاملے میں رکاوٹ نہیں بنی۔ ایک بات اور جو ان کے کردار کی خوبی تھی کہ وہ کبھی کسی غیر متعلق معاملے میں نہیں الجھے۔ورنہ سرکاری اداروں میں زیادہ وقت اسی طرح کی الجھن میں گزر جاتا ہے لیکن رضا انصاری صاحب کو نہ ہم نے دور رہ کر جانا اور نہ قریب رہ کر جتنا ’’خطوط کی زبانی‘‘سے انھیں سمجھا اور پہچانا کہ واقعی وہ اپنے عہد کی کتنی بڑی ہستی تھے۔
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا

شارب ردولوی
21.05.2018

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular