Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldپہلا جوتا

پہلا جوتا

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 عارف نقوی
برلن
’’ بھگوان تمھارابھلا کرے ۔‘‘
ایک جوان عورت گود میں چھوٹی سی بچّی کو لئے میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔
’’ بھوکی ہے۔ دودھ کے لئے کچھ مل جائے۔ بھگوان بھلا کرے گا۔‘‘
تیس پینتیس برس کی عمر ہوگی۔ سانولی رنگت، گداز جسم، گھٹنے تک میلی پھٹی ہوئی ساری۔ بلائوز ناف تک اٹھا ہوا کہ سینے کا ایک حصّہ نظر آرہا تھا۔ جھبڑے جھبڑے دھول جمے بال اور گود میں ایک مریل سی بچّی اس طرح دبی ہوئی جیسے کسی بندریا سے چمٹی ہے۔
میں آگے بڑھ گیا۔ عورت ایک یوروپین جوڑے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
میرے پیچھے اب دو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں چل رہی تھیں۔ سات آٹھ برس کی عمر ہو گی۔ لہنگا پہنے، بالوں میں دھول بھرے، گالوں میں گڑھے پڑے ہوئے تھے۔
’’ کھانا کھانا ہے صاحب۔۔۔‘‘
سامنے سے ایک دس بارہ برس کا لڑکا کچھ اخبارات ہاتھ میں دبائے میری طرف بڑھ رہا تھا۔
’’  ایوننگ نیوز ، ایوننگ نیوز۔ آج کی تازہ خبر۔۔۔‘‘
میں ان سب سے پیچھا چھڑانے کے لئے کپڑوں کی ایک دوکان میں داخل ہو گیا اور اس بات پر حیرت کرنے لگاکہ اب ہندوستان میں اتنے نفیس کپڑے بنتے ہیں۔
میں ایک سال کے بعد چھٹیاں گزارنے کے لئے برلن سے آیا تھا۔ اس ایک سال میں کناٹ پلیس میں بہت سی تبدیلیاںآگئی تھیں۔ چیزیں زیادہ نفیس تھیں۔ لباس زیب دیدہ اور ماڈرن تھے۔ ان میں ورائٹی تھی۔ شوکیسوں کی دلکشی بڑھ گئی تھی۔ سوونیروں کی بھر مار تھی۔ چاروں طرف نئی نئی عمارتیں کھڑی ہو گئی تھیں۔ بہت سی بن رہی تھیں۔ ایک بڑے سے پارک میں فوارہ طرح طرح کے رنگ ابل رہا تھا۔ سبز، لال، نیلے، نارنجی۔ ’’ مونگ پھلی، گرماگرم چائے، تیل مالش‘‘  ہاکر چلّاتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹا سا ٹیلہ سبز گھاس سے ڈھکا ہو ا تھا۔ اس کے نیچے ایک ائرکنڈیشن بازار تھا ’’ پالیکا بازار‘‘۔
 دنیا کی ہر شے وہاں پر دستیاب تھی۔ ٹیپ ریکارڈروں اور ریڈیو کی آوازوں سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ کندھے سے کندھا چھل رہا تھا۔ دوکاندار گاہکوں کو بلا رہے تھے۔ مول تول ہو رہا تھا۔ وہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک سنیما گھر کی دیوار پر بڑےبڑے پوسٹر چسپاں تھے۔ ہیرو ہیروئن ایک دوسرے کو اپنے بازوئوں میں بھینچے ہوئے تھے۔ رات کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ کناٹ پلیس کے چاروں طرف لگے ہوئے قمقمے جگنوئوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔
مجھے یاد آیا ایک بار مغربی برلن کے سب سے بڑے سنیما گھر زوپالاسٹ میں ایک فلم دیکھی تھی  ’’ دنیا کے ٹابو‘‘ ۔ اس میں صرف ہندوستان کی غربت، جہالت، طوائفوں، فقیروں، مرگھٹ پر جلتی ہوئی لاشوں اور ان کو نوچتے ہوئے گِدھوں کی منظر کشی کی گئی تھی اور ہم شرم سے گڑ گئے تھے۔
نہ جانے کتنی دیر میں انھیں خیالات میں گھومتا رہا۔ اچانک ایک آواز نے مجھے ٹوکا:
’’ بابو جی ، پالش۔ فرسٹ کلاس پالش۔‘‘
یہ ایک دس بارہ برس کا لڑکا تھا۔نیکر اور قمیض پر پھٹا ہوا سوئٹر پہنے۔ سانولے رنگ کا۔ گول چہرے پر  چپٹی ناک، چھوٹی چھوٹی چینی آنکھیں۔، خشخشی بال۔ دانت باہر کو نکلے ہوئے ۔ ربر کی چپل پہنے، جس کا ایک پَٹّا پھٹا ہوا اور ہاتھ میں میلا سا جھولالئے ہوئے۔
’’  بابو جی ، پالش۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آگے بڑھ گیا۔
’’ بابو جی، فرسٹ کلاس پالش۔‘‘
’’ نہیں بھائی جائو۔ پریشان مت کرو۔ نہیں کرانی ہے۔‘‘  میں نے جلدی سے کہا۔
’’ صاحب، جوتا چمکا دوں گا۔ بہت اچھی پالش ہو جائے گی۔۔۔دیکھئے دھول جمی ہوئی ہے۔‘‘
مجھے الجھن ہونے لگی۔
’’ ابھی ابھی پالش کروائی ہے۔ اب نہیں کروانی ہے۔‘‘ میں نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
کناٹ پلیس کی رونق ماند ہونے لگی تھی۔ جی چاہتا تھا ، جلدی سے وہاں سے بھاگ جائوں۔
’’ کروا لیجئے صاحب، آپ کا بھلا ہوگا۔۔۔بابو جی، آج کوئی گاہک نہیں ملا ہے۔‘‘
میرے قدم رک گئے۔ اس کی آواز میں درد تھا۔
’’ صاحب بڑی دیر سے پھر رہا ہوں۔ کوئی گاہک نہیں ملا۔ فرسٹ کلاس پالش کر دوں گا۔
لڑکا کبھی صاحب کہکر مخاطب ہوتا، کبھی بابو جی ۔ شائد اسے یقین نہیں تھا کہ میں ہندو ہوں کہ مسلمان یا عیسائی۔ کبھی کبھی ۔
وہ انگریزی کا ایک لفظ ’’فرسٹ کلاس‘‘ جڑ دیتا تھا۔ مجھ پر اثر ڈالنے کے لئے۔ حالانکہ اسے انگریزی نہیں آتی تھی۔ میں نے اسے ایک روپیہ دے کر پیچھا چھڑانا چاہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ روپیہ لیتے وقت اس کے چہرے کی کیا کیفیت تھی۔ میں اس سے نظریں ملانا بھی نہیں چاہتا تھا۔
’’ صاحب ‘‘  ،  لڑکے نے جھولے میں سے ایک کپڑا نکالتے ہوئے کہا۔ ’’ کم سے کم جوتا تو پونچھ لینے دیجئے۔ ورنہ یہ میرے لئے بھیک ہو جائے گی۔‘‘ ’’ اچھا چلو، تم پوری ہی پالش کر دو۔  میں ایک روپیہ اور دیدوں گا۔‘‘  میں نے اپنا پیر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
لڑکا خوش ہو گیا۔ اس نے اُکڑوں بیٹھ کر جھاڑن اپنے گھٹنے پر رکھا اور پھر مجھ سے کہا کہ میں اپنا دایاں پیر اس پر رکھ دوں۔
اس نے بڑی احتیاط سے برش سے جوتے کو صاف کیا۔ پھر کریم کی شیشی کھول کر جوتے پرسفید سفید کریم رگڑی۔ برش سے اسے برابر کیا اور پیر کو گھٹنے پر سے ہٹا کر دوسرا پیر اس پر رکھنے کو کہا۔ پھر اس پر سے بھی گرد پونچھ کریم لگائی اور اس کو ہٹا کردایاں پیر پھر سے اپنے گھٹنے پر رکھ لیا۔ پھر اس نے پالش کی ڈبیا کھولی۔ اس پر ایک شیشی سے پانی کی چند بوندیں ٹپکائیں۔ پھرجوتے  پر ٹپکائیں۔  اپنی بیچ کی تین انگلیوں پر ایک چھوٹا ساسفید کپڑا لپیٹا اور اسے پالش کی ڈبیا پر رگڑ کر اور پھر جوتے پر رگڑ کر اسے چمکانے لگا۔ یہاں تک کہ جوتا شیشے کی طرح چمکنے لگا۔ پھر اس نے جھولے میں سے ایک اور کپڑا نکالا۔ اس کی تہہ بنائی اور دونوں سِروں کو پکڑ کر جوتے پرتیزی سے رگڑنا شروع کر دیا۔ جوتا اور بھی چمکنے لگا۔ پھر اس نے جوتے کو ٹھونک کر پیر ہٹانے کیلئے اشارہ کیا اور دوسرا پیر اپنے گھٹنے پر رکھ لیا۔
’’ کتنے جوتوں پر پالش کر چکے ہو آج؟‘‘  میں بھول گیا تھا کہ اس نے کہا تھا:  ’’ بابو جی آج کوئی گاہک نہیں ملا ہے۔‘‘
’’ یہ پہلا جوتا ہے، بابوجی۔ آپ پہلے آدمی ہیں۔ آج کوئی گاہک نہیں ملا ہے۔‘‘
’’کیوں، کیا ابھی نکلے ہو؟‘‘
’’ نہیں صاحب نکلا تو دیر کا ہوں۔ بڑی دیر سے پھر رہا ہوں۔ مگر مجھ سے کوئی پالش نہیں کراتا۔ میرے پاس بکسا جو نہیںہے۔ پورا سامان نہیں ہے۔  دوسرے لڑکوں کے پاس بکسے ہوتے ہیں۔ ان میں سب طرح کی پالش کی ڈبیاں، کریم اور برش ہوتے ہیں۔ پیر رکھنے کے لئے پائدان ہوتا ہے۔‘‘
’’ تمھارے پاس کیوں نہیں ہے؟‘‘  میرا یہ سوال بھی واقعی احمقانہ تھا۔ مجھے فوراً ہی محسوس ہوا۔
’’ بابو جی، بکسا بہت مہنگا آتا ہے۔‘‘
’’ کتنے کا؟‘‘
’’ پچیس روپئے کا، بابوجی۔‘‘
اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ پچیس روپیوںکی خاطر اس کی بہت سی آرزوئیں جوان ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ کتنے ہی وقت اسے فاقے کرنے پڑتے ہیں۔
’’ یہ لو۔ خرید لینا بکسا۔‘‘
میں نے بٹوے میں سے کچھ نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’ اُڑا مت دینا۔‘‘
لڑکا حیرت سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ چہرے پر زندگی نمودار ہو گئی تھی۔ نوٹ لیتے وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ شکریہ بھی نہ کہہ سکا۔ میں سننا بھی نہی چاہتا تھا۔ آگے بڑھ گیا۔
’’ بابو جی۔‘‘  لڑکے کی آواز نے مجھے پھر ٹوکا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
’’ کیوں  اب کیاہے؟‘‘  مجھے غصّہ آگیا۔ آخر اب کیا چاہتا  ہے؟
’’  کل کہاں ملوں بابو جی؟ ‘‘  لڑکے نے کچھ اس معصومیت سے پوچھا کہ میں غصّے کا اظہار نہ کر سکا۔ ہنسی آگئی۔
’’  کیوں کیا ابھی کوئی کسرباقی ہے؟‘‘
’’  نہیں بابو جی، آپ کو بکسا جو دکھانا ہے۔ ورنہ آپ کہیں گے، میں نے پیسے اُڑادئیے۔ آپ مجھے جھوٹا سمجھیں گے ، بابوجی۔‘‘
میرا جی چاہا ، اسے گود میں اٹھا کر پیار کر لوں۔
میں اس سے پھر کبھی نہیں ملا۔ میں چاہتا بھی نہیں تھا ،کہ اس کو یہ احساس ہو کہ مجھے اس پر بھروسہ نہیں۔ اس کے الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں:
’’  بابو جی ، کم سے کم جوتا پونچھ لینے دیجئے، نہیں تو یہ میرے لئے بھیک ہو جائے گی۔ بابو جی، آپ کو بکسا جو دکھانا ہے۔ ورنہ آپ کہیں گے میں نے پیسے اُڑا دئیے۔ آپ مجھے جھوٹا سمجھیں گے۔‘‘
دس بارہ برس کی عمر، سانولی رنگت، گول سے چہرے پر چپٹی ناک اور چھوٹی چھوٹی چینی آنکھیں، خشخشی بال اور باہر کی طرف جھانکتے ہوئے دانت اور ہاتھ میں میلا سا جھولا۔
میری نظروں میں اب وہ شہزادہ ہے۔ وہ لڑکا جس کا نام بھی مجھے معلوم نہیں۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ میرےوطن کا ایک ٹکڑا ہے۔
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular