Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعــذاب دانــش پــر ایک نظــــر

عــذاب دانــش پــر ایک نظــــر

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

ایچ۔ایم۔یٰسین
عذاب کسی عمل کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اور اپنے حقیقی معنی میں عذاب شرح پاتا ہے کسی فیصلے سے ، اور فیصلہ بھی ایسا جو ہوتا ہے یا آتا ہے مالک دو جہاں رب العلی سے۔ حقیقت میں اس کا صحیح اطلاق جب ہوگا جب دنیا فنا ہو جائے گی اور ذمہ دار فرشتے حساب کتاب کا دفتر کھول کر بارگاہ الٰہی میں پیش کریں گے۔ یہ بات بالکل الگ ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی عبقریت کے سبب اسے دیگر مصادر سے متصل کر لیں اور لفظ عذاب کو دیگر پریشانیوں کا بدل بنا لیں۔ میرا ماننا ہے کہ عذاب قبیح بالمقابل عذاب دانش زیادہ ایذا رساں ، جگر پاش اور پریشان کن ہوتا ہے لیکن یہ مقدور ہے صرف اور صرف ذی حس انسانوں کے لیے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو عذاب قبیح یا عذاب دانش دونوں میں سے کسی سے واسطہ نہیں۔عذاب دانش جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ انہیں کو زیادہ ہوتا ہے جو جتنا دانشور ہے۔ بلکہ وسیع القلب ہے ۔ دوسروں کے درد میں سرگرداں ہے۔ ملک و قوم کی فکر میں ، بقول شخصے ’’شیخ جی کیوں دبلے، شہر کا اندیشہ‘‘ گھلتا جا رہا ہے فکر مند ہے۔جس کو کسی کی فکر نہیں اس کو کیسا عذاب؟ اس عذاب دانش کو برادر مکرم عالم نقوی صاحب نے اتنی محنت سے تیار کردہ ۷۰۵ صفحات کی ۱۸۶ عنوانات پر مشتمل اپنی کتاب ’’عذاب دانش‘‘ میں سمویا ہے جو مختلف النوع ہیں۔ کچھ درد بھرے ، کچھ تیکھے، کچھ نصیحت آمیز، قابل عمل ۔ عالم بھائی نے یہ کتاب مجھ کو بھی دی ۔ہم نے انداز لگایا کہ شاید اس پر ہماری رائے درکار ہے۔کتاب کو جب دیکھا تو اس کا حجم و وزن دیکھ کر سر ہی پکڑ کر رہ گئے، لرز گئے یہ لرزہ جب اور بڑھا جب کتاب سے معلو م ہواکہ ان کی دیگر چار چھ تصانیف پر دانشوران قوم ،مشاہیر ادب و صحافت جناب رشید انصاری ، ڈاکٹر سلیم خاں، محمد مجاہد سید، وصیل خاں، منظور الحسن منظور، لبیب فلاحی،احسن ایوبی اور رضوان الحق جیسی ہستیوں نے تبصرے کیے ہیں۔ تو ہم نے ادھر ادھر بغلیں جھانکی اور آئیں بائیں شائیں شروع کیا۔
لکھنؤ والوں کی ادا ہے وہ قابل احترام اور علم دوست لوگوں کی ہمدردی کی قدر نہیں کرتے، یہاں کی اقدار میں تضاد ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے ’’مسکرائیے کہ آپ لکھنؤ میں ہیں‘‘ اور دوسری طرف ’’ ڈرتا ہوں اے انیسؔ کہیں لکھنؤ نہ ہو‘‘ ۔ بقول منور رانا’’ یہاں دلوں میں فاصلے ، لب پر مگر آداب رہتا ہے‘‘۔ قصہ مختصر لکھنؤ والوں نے ان کی قدر نہ کی انہیں علی گڑھ جانے دیا ۔
عالم نقوی صاحب کی پیدائش منصور نگر لکھنو کے ایک محلہ میں ہوئی تھی ۔ وہ عالیہ خاتون صاحبہ زوجہ سید محمد کاظم نقوی صاحب کے پہلوتھی کے بیٹے تھے۔ فرزانہ اعجاز صاحبہ نے ان کے بارے میں صحیح کہا ہے کہ وہ علم و دانش ، ہمت استقلال، شرافت و ذہانت کا ننھا سا نگینہ نہیں بلکہ اردو ادب کا دمکتا کو ہ نور ہیں۔ عالم نقوی صاحب اسم بامسمیٰ شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ وسیع علم کے مالک ، درجنوں کتابوں کے خالق، پند و نصائح سے متصف، دین و دنیا سے واقف، سمجھانے میں ماہر، جیسا باطن ویسا ظاہر، مصلح (اصلاح گر) صحافت کے زورآور، تہذیب اور نفاست سے بہرہ ور، ایک اساطر دان یعنی علم الاساطیر کاماہر فن، مختلف مائتھیلیوجیوں کا ممبع و مخزن ،آج کل کی باطل متششدد، کاذب اور بے ایمان دنیا سے بر سر پیکار، سیدھا سادھا سپہ سالار پر اثر، اور نئے نئے عقدہ کھولنے والا، بھولا بھالا، الفت و محبت کا شیدا ، ہمدردی اس کے ہر عمل سے ہویدا، دوسروں کی خوشیوں سے خوش اور ان کے رنج و الم میں مخزوں ، مشکلوں میں پر سکوں اور ہر حال میں جیوں کا تیوں، یہ ہیں ہمارے عالم نقوی صاحب۔ ان کی ذہانت خدا داد ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سات سال کی عمر میں جب ان کو کے۔جی۔ میں داخل کرایا گیا تھا تو وہ ناظرہ قرآن، اسماعیل میرٹھی کی تیسری کتاب ، قصص الہند، آمد نامہ اور گلزار دبستاں پڑھ چکے تھے۔
عذاب دانش عالم نقوی صاحب کے مختلف مضامین کالم اور اداریوں کا مجموعہ ہے اور جو جیسا کہ عرض کیا جا چکا ۷۰۵ صفحات میں ۱۸۶ مضامین کااحاطہ کرتا ہے ۔کتاب کے شروع میں ہی انہوں نے فرما دیا ہے کہ دنیا میں حق و باطل کو آپس میں گڈمڈ کر دیا گیا ہے اور چونکہ شیطان کے دوست بہت ہیں جن پر وہ چھا گیا ہے۔ الاّ ان کے جن کو توفیق الٰہی حاصل ہو بالکل اسی طرح عذاب و ثواب بھی ایک دوسرے میں پیوست ہیںاورچونکہ انسانی پیدائش کے ساتھ ایک شطونگڑا بھی پیدا ہوتا ہے ، انسان جلد بہکاوئے میں آ جاتا ہے( جب اس نے اما حوا کو بہکا لیا تو ہم کیا چیز ہیں۔) لہٰذا انسان دنیا وی رغبت کی وجہ سے اس کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور عذاب کا مستحق بنتا جاتا ہے۔
عالم بھائی کی نو کتابوں : لہو چراغ، مستقبل، بیسویں صدی کا مرثیہ ، اذان، زمین کا نوحہ، بازار، اُمید اور لا تفرقو اور نویں عذاب دانش میں سے کم از کم پانچ چھ تو میرے پاس ہیں ، لیکن تف مجھ پر جو ساری مکمل طور پر پڑھی ہوں۔ اپنے ہی میں لگا رہتا ہوں اور پھر کالج کی ذمہ داری ، خانہ داری۔ میں الحمداللہ آج بھی پچاسی سال میں فعال ہوں۔ تاہم وقت کی تنگی تو رہتی ہی ہے۔ لیکن عالم بھائی کی شخصیت سے چیدا چیدا مضامین کے مطالعے سے میں نے جو کچھ سمجھا یا اخذ کیا یا جو جملہ مجھے بے حد پسند آئے یا پھر جن سے میں نے سبق حاصل کیا وہ کچھ اس طرح ہیں:
دہشت گردی اور اسلام میں فرمایا گیا’’ دہشت انصاف ہی کی ایک شکل ہے جو زیادہ زود اثر ہے ‘‘  ’’دہشت ایک طاقت ہے جو دو دھاری ہتھیار کی طرح ہے وہ دہشت پھیلانے اور روکنے دونوں کے لیے ہوتی ہے۔ یہ محض سیاسی مقاصد تک محدود نہیں ہے۔ یہ دوسروں کی آزادی پر حملہ کے لیے ہے ، آزادی سلب کرنے کے لیے ہے اور حصول آزادی یا تحفظ کے لیے بھی ہے ‘‘
اسلام کو دہشت پسندی سے جوڑنے والوں کو یہ پیغام دیا جانا ضروری ہے کہ جو مذہب عدل کا حکم اور دشمن کے ساتھ بھی زیادتی کرنے کو منع کرتا ہے وہ خود دہشت گردی کیسے کر سکتا ہے۔ قرآن کریم تو زیادتی کرنے والوں کو مارنے کا حکم دیتا ہے اور ظالموں کے علاوہ کسی سے بھی جنگ کو جائز نہیں سمجھتا۔
اپنی تیس سالہ صحافی و ادبی زندگی میں انہوں نے دنیا والوں ، بالخصوص امت مسلمہ کے لیے کیا کچھ نہیں لکھا۔
ایک جگہ مسلم قوم کے بہترین دفاع کے لیے سورہ انفعال آیت ۶۰ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عزت وعافیت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے اپنی استطاعت بھر ’’حصول قوت‘‘ ہی سدا سے مطلوب اور مستحسن طریقہ ہے اور اس میں ہر مسلم و مومن کو اپنے امکان بھر قوت کے حصول کا حکم دیا گیا ہے اور جو علم عمل کی معاشی و اقتصاوی ، داخلی خارجی آلات حرب وضرب نیز قوت بازو بشمول ثابت قدمی اور اللہ کو یاد رکھنے پر محمول ہے۔ ان کا آگے فرمانا ہے کہ ہم قرآن اور حدیث کو صحیح طور پر نہ پڑھتے اور سمجھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے درکار تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ بس یہی ہماری پامالی پستی، گراوٹ اور دبائیے  جانے کی واحد وجہ ہے ہم کو اسی سمت میں اقدام کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہمارا بہترین دفاع ہے۔
یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے بک ریک کی زینت نہیں، اس میں آپ کو تبصرے اور ریویو بھی ملیں گے ، قومی امراض کی تشخیص و علاج بھی ، آج کی دنیا کے سیاسی ٹوٹکے و پریشانی اور اس کا حل بھی اور ادبی چاشنی کے پکوان بھی۔ غرض کہ یہ سب کچھ جس کے ہم متلاشی رہتے ہیں اس میں پائیں گے۔
پرور دگار عالم سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمارے عالم بھائی کو صحت و فرحت سے بھرپور طویل زندگی عطا کرے جس سے وہ اپنے قلم کے جلوے بکھیرتے ہوئے ہم سب کی رہنمائی کرتے رہیں اور ان کے درس و تدریس سے ہم اپنی اصلاح کر لیں۔آمین ۔یا رب العالمین!!!
٭٭٭
سابق رجسٹرار انٹگرل یونیورسیٹی، لکھنؤ
(موبائل  9839569575)
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular