Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim World’ عصری افکار‘ حساس مصنف کے قلبی احوال کی سرگزشت

’ عصری افکار‘ حساس مصنف کے قلبی احوال کی سرگزشت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

اسلم مرزا

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج میری موجودگی میں ناندیڑ کی دو مایہ ناز شخصیات کی کتابوں کی رسم اجراء عمل میں آئی۔ میں ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین صاحب اور پروفیسر یونس فہمی صاحب کو بہ صمیم قلب مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ایڈوکیٹ بہاء الدین صاحب کی کتاب ’’ عصری افکار‘‘ میں شامل مضامین کے مطالعے کے بعد محسوس ہوا کہ ٹھوس موضوعات پر لکھے گئے یہ مضامین فکری انبساط کے حامل ہیں اور کتاب کا نام؍ عنوان بھی اسم بامسمّیٰ ہے۔
اردو ادب کی صورت حال یہ ہے کہ آپ کوئی بھی رسالہ اٹھاکر دیکھ لیجئے یا پھر آئے دن جو درجنوں کتابیں آرہی ، انہیں پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر پیش پا افتادہ موضوعات سے لبریز ہیں۔ میں یہاں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ’’ عصری افکار‘‘ ایک استثناء ہے۔ ایڈوکیٹ بہاء الدین عمدہ قلمکار ہی نہیں، بالیدہ و پختہ تنقیدی شعور بھی رکھتے ہیں جو ان کی روشن ضمیری کا ترجمان بن کر ہر صفحہ پر منور و درخشاں ہیں۔ان مضامین کا خاص وصف موصوف کا دلنشین طرز ِنگارش اور منفرد اسلوب ہے جس نے خشک موضوعات کو دلچسپ اور قابل مطالعہ بنایا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بے شمار قوانین نافذ ہیں جن سے عام شہری کی واقفیت شاذ ہی ہوتی ہے۔ ایڈوکیٹ بہاء الدین صاحب کی قانونی بصیرت اور بصارت کی داد دیجئے، انہوں نے بعض ایسے قوانین پر قلم اٹھایا ہے جن کا علم ایک عام شہری کے لئے ازحد ضروری اور سودمند ہے اور ادق اور مشکل قانون کو آسان لیکن ادبی زبان میں پیش کرنا بڑی پتہ ماری اور ہنرمندی کا کام ہے۔ ’’عصری افکار ‘‘میں 13 مضامین مختلف قوانین دستاویزات پر سے بوجھل پردے ہی نہیں اٹھاتے بلکہ ان قوانین کی افادیت ، مقصدیت اور عمل آوری کو سہل انداز میں بیان کرتے ہوئے عام قاری پر غوروفکر کے دروازے بھی کھولتے ہیں۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ موصوف نے ان قوانین کا عمیق اور گہرا مطالعہ کیا ہے۔
ایڈوکیٹ بہاء الدین صاحب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں وہ کوئی نقطہ پیش کرتے ہیں اُس کی دلیل میں پختہ اور ناقابل شکست حوالے اور ثبوت بھی پیش کرتے ہیں جو ایک مدبر، محتاط، روشن دماغ وکیل کی شناخت ہے۔ ان مضامین کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ موصوف نہ ہی مصلحت پسندی کا شکار ہیں اور نہ ہی کسی ذاتی مفاد کے خواہاں۔ اسی لئے وہ بیباک اور دو ٹوک لہجے میں جب تنقید کرتے ہیں تو کسی قسم کا تامل نہیں برتتے۔ اُس کی بیشمار مثالیں مختلف مضامین میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال ان کے مضمون ’’ آر ٹی ای کی عمل آوری میں حکومت مہاراشٹر کا دوہرا سلوک‘‘ سے نقل کرتا ہوں۔ تیور ملاحظہ کیجئے ’’ اگر آبادی کا معتبدہ طبقہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جائے تو مرکزی قانون آر ٹی ای کا منشاء و مقصد ہی فوت ہوجائے گا جس کے لئے مہاراشٹر کی دفتر شاہی جو عصبیت کا شکار ہے اسے کیفرکردار تک پہنچانا چاہئے اور مہاراشٹر میں نافذ Official Delay Act کے تحت کارروائیاں کی جانی چاہئیں اور عہدیداران کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جانی چاہئے۔‘‘
’’مضمون قانون حق معلومات کی ضرورت و جدوجہد‘‘میں وہ مسلمانوں کی مختلف تنظیموں، جماعتوں کو نشانہ بناتے ہوئے بلیغ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ان تنظیموں اور جماعتوں نے خاموشی کو اپنا بنیادی شعار بنالیا ہے یعنی حقِ اظہار نہ کرنے کو بھی ایسا لگتا ہے کہ ان کی سمجھ کے مطابق یہ بھی دستور کی آرٹیکل 19 میں مضمر ہے۔‘‘
ایڈوکیٹ بہاء الدین صاحب اپنی قوم کے تئیں بے حد حساس ہیں۔ گہری درد مندی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان کا مضمون ’’ مہاراشٹر میں اردو مدارس اور اردو والوں کی صورتحال‘‘ پر بہت ہی اہم اور چشم کشاں ہے۔ اس میں ایک نیک دل شخص نے جو مشورے دئے ہیں وہ برسوں تک مشعل راہ بنے رہیں گے۔ مسلمانوں کا ایک سلگتا ہوا موضوع اوقاف کئی برسوں سے زیربحث ہے۔ اوقافی جائیدادوں کی جو بندرباٹ ہورہی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں اوقاف سے متعلق تین فکر انگیز مضامین شامل ہیں۔ جو سنجیدگی سے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ موصوف نے کس قدر باریک بینی سے اوقاف کے موجودہ قانون، مختلف مسائل کا جائزہ لینے کے بعد کیسے کیسے کارآمد مشورے پیش کئے ہیں جن پر آسانی سے عمل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف قوانین سے متعلق یہ چودہ مضامین تنقیدی بصیرت کے ساتھ سپرد قلم کئے گئے ہیں۔ وقت کم ہے۔ اس لئے ان پر تفصیلی گفتگو کا یہاں موقع نہیں ہے لیکن چند دیگر موضوعات پر ایڈوکیٹ بہاء الدین نے جو مضامین لکھے ہیں ان کا صرف انام ہی نہیں آپ پر یہ منکشف کردیں گے کہ یہ مضامین کتنی افادیت کے حامل ہوں گے۔
(۱)پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
(۲)کانگریس پارٹی و مسلم قیادت
(۳)نیا جال لائے ہیں پرانے شکاری
(۴)سیکولر بھارت میں مخصوص لہر
ان تمام مضامین میں ایک دردمند شخص کے دل کی دھڑکنوں کو آپ بخوبی سن سکتے ہیں جو اپنی قوم و ملت کے تئیں فکر و تدبر اور دلسوزی کا Perspeceit ہے۔ یہ مضامین ہمیں ذی ہوش اور دانشمند بنانے کے مشکل کام کی جانب راغب کرتے ہیں۔
(۱)مسلم تحفظات کے سلسلے میں سرکار کے ذہنی تحفظات
(۲)انسداد فرقہ وارانہ و منصوبہ بند تشدد
(۳)ہندوستانی پارلیمنٹ میں عورتوں کے 33 فیصد تحفظات کے بل کا سفر
(۴)انتخابی اصلاحات
(۵)والدین و معمر شہریوں کے نفقہ و بہبودی کے قوانین
یہ مضامین فکر انگیز اور پُراز معلومات ہیں۔
ایڈوکیٹ بہاء الدین نے قوانین سے جڑے مضامین کے علاوہ ایسی بارہ شخصیات پر بھی اظہار خیال کیا ہے جن کے اخلاق و آداب، حسن معاشرت، سیاسی اور ادبی بصیرت، نیز انسان دوستی سے وہ مرعوب ہوئے۔
یہاں تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں ہے لیکن ایک بات کہتا چلوں کہ موصوف کی یہاں اخلاقی قدروں کا اہتمام ایک روشن لکیر ہے۔ جو ہمیں ذی ہوش اور دانشمند بنانے، غوروفکر کرنے اور درپیش مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کی جانب راغب کرتی ہے۔
میں یہاں منہ دیکھی کی تعریف نہیں کررہا ہوں۔ میری دانست میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہ عظیم نعمت ایڈوکیٹ محمد بہاء الدین کی شخصیت میں مسلمانان شہر ناندیڑ کو عطا ہوئی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے مفکر، مدبر اور ہمدرد قوم کا نہ صرف احترام کریں بلکہ ان سے مسلسل استفادہ کرتے رہیں۔ ان کے افکار و نظریات کا مطالعہ اور ان کی تشہیر کریں۔ اُن کے مشوروں پر عمل کریں۔ وماتوفیق الاباللہ۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular