Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldزینب!ہم شرمندہ ہیں

زینب!ہم شرمندہ ہیں

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حمیراء عالیہ

حادثہ بہت دور ہواہے…میلوں دور…سرحد پار۔لیکن تکلیف اتنی ہی شدت کی ہوئی ہے جتنی اس کے ہم وطنوں کو۔زینب کی خبر سن کر آنکھوں میں ویسے ہی آنسو آئے جیسے آج سے پانچ سال قبل دلی میںاپنی جیسی ایک لڑکی کے قتل کے بعد آئے تھے۔
تم تو اپنا حصہ الگ لے گئے تھے یہ کہہ کر کہ جہاں ہم امن و سکون سے رہیں گے،جہاں ہماری بیٹیوں کی چادریں ان کے سروں پر محفوظ رہیں گی،جہاں خوف و دہشت کے سائے نہ ہوں گے۔ایک کشور حسین…پاک سرزمین۔پھر اس ارض پاکستان میں یہ درندے کہاں سے آگئے؟؟
قصور ،پاکستان سے تعلق رکھنے والی سات سالہ زینب انصاری جس کی مسلی ہوئی لاش زیادتی کے چار دن بعد کچرے کے ڈھیرپر پائی گئی…اس کا دوش کیا تھا؟ یہ سوال نہیں ایک تازیانہ ہے۔اس کی جگہ اگر کوئی دوشیزہ ہوتی تو پھر آپ آسانی سے اس پر الزامات اور تہمتوں کی بوچھار کرکے خود بری الذمہ ہو جاتے۔لڑکی نے غلط لباس پہنا تھا،اس کا کردار اچھا نہیں تھا، وہ تنہا کیوں نکلی وغیرہ وغیرہ۔لیکن جب بات ایک فرشتوں جیسی معصوم بچی کی ہو جسے اس بے رحم دنیا کی کچھ خبر ہی نہ تھی کیونکہ اس کی دنیا تو صرف ٹافیوں ،چپس اور گڑیوں تک محدود تھی،پھر آپ کسے قصوروار ٹھہرائیں گے؟
یہ صرف ایک ننھی بچی کی لاش نہیں تھی۔یہ انسانیت کی لاش تھی۔یہ لاش اس گلے سڑے تعفن زدہ معاشرے کی ہے جو پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ ایک سوئی ہوئی شہزادی کا جنازہ نہیں تھا بلکہ یہ جنازہ تھا پاکستان کے ضمیر کا۔اس کے بے حس سماج کا جو آئے دن کے حادثوں کے بعد بھی بیدار نہیں ہوتا۔ایک سال کے اندر صرف قصور ڈسٹرکٹ میں یہ بارہواں ریپ کیس تھا جو رونما ہوا۔نواز شریف اور عمران خان سے فرصت ملے تو کبھی اپنی بنیادیں بھی دیکھ لینا پاکستان والوںجو کھوکھلی ہو کر تباہ ہونے کے درپے ہیں۔
ابھی تو قصور کا ماتم ختم بھی نہیں ہوا کہ فیصل آباد میں میٹرک کا اسٹوڈنٹ زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔یہ کیسی بے حسی طاری ہوگئی ہے کہ یکے بعد دیگرے حوادث بھی تمہیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔تمہاری دیواریں مردانہ کمزوری کے اشتہارات سے بھری پڑی ہیں۔حکیموں کے پروگرامز میں تو لگتا ہے سارا پاکستان اسی کا شکار ہے۔کبھی اللہ نہ کرے تمہارا ملک کھنڈر بنا تو آنے والی نسلیں کھنڈرات کی دیواروں کو دیکھ کر یہ تو سمجھیں گی کہ نامردوں کا ملک تھا۔
میں کہوں گی اور ببانگ دہل کہوں گی کہ میرے ملک نے مجھے کہنے کی آزادی دی ہے۔میں یہاں اقلیت میں شمار ہوتی ہوں اور تمہاری نظر میں شاید غیروں کے درمیان ہوں لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے میں تم لوگوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہوں۔ ہاں کچھ حادثے ہوئے ہیں ہمارے ساتھ لیکن اس کے باوجود ہمیں کم از کم یہ افسوس تو نہیں کہ ہمیں اپنوں نے تباہ کیا۔تم تو خود اپنے ہاتھوں سے اپنی ماؤں ،بیٹیوں کی لاشیں نوچ رہے ہو۔ایک جمعہ ایسا نہیں گزرتا جب کہیں دھماکہ نہ ہوتا ہو۔آپسی انتشار نے تمہارے ذہنوں کو مفلوج کردیا ہے۔تمہاری غیرت و حمیت تو جیسے مر ہی گئی ہے۔یہ کیسا چہرہ ہے جسے تم اسلامی ملک کے نام سے پیش کررہے ہو؟
قول ہے کہ جس کا قاتل کوئی نہیں ہوتا اس کا قاتل حکمران ہوتا ہے۔اور یہ سچ ہے۔پاکستان کا عدالتی نظام کس حد تک کمزور ہوچکا ہے ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں۔یہ حادثے کیوں کر اتنے تواتر سے رونما ہورہے ہیں؟ کیونکہ حکمرانوں نے اداروں کی باگ ڈور ان کے ہاتھوںمیں تھما دی ہے جو اس کے اہل ہیں ہی نہیں۔پولیس کا ادارہ،عدلیہ کا ادارہ۔جس ملک کے حکمران صرف خود کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں وہ کمزور لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کو سونپ دیتے ہیں تاکہ خود ان کے جرائم کی پردہ پوشی ہو سکے۔
اور زینب کے والد کا بیان اس بات کی مکمل تائید کرتا ہے جب انہوں نے کہا کہ:
’’عام آدمی کے لئے کوئی تحفظ نہیں ہے اور سیکورٹی صرف حکمرانوں کے لئے ہے۔ہم تو کیڑے مکوڑے ہیں۔‘‘
جبکہ اس کے چچا کا کہنا ہے’’ہمیں قاتل زندہ چاہئے۔یہ نہ ہو کہ اپنے سر سے بوجھ اتارنے کے لئے پولیس کسی بے گناہ کا قتل کردے اور پھر ہم سے کہے ،یہ لو ہم نے تمہیں انصاف دلا دیا۔‘‘
ساحل نامی ایک آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں صرف۲۰۱۷ء کے شروعاتی چھ مہینوں میںایک ہزار سات سو چونسٹھ child abuseکے کیس درج کئے گئے۔جن میں 62 فی صد کیس صرف صوبہ پنجاب سے تھے۔27فی صد کیس سندھ کے علاقوں سے جبکہ بلوچستان ،خیبر پختون خواہ اور آزاد جموں کشمیر سے 76,42 اور9کیس سامنے آئے تھے۔اور ان سبھی کیسیز میں 15 فیصد کیس اجنبی اشخاص کے ذریعے انجام دئے گئے۔جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد 4139 کی تھی جس کی رو سے دیکھا جائے تو ایک دن میں گیارہ زیادتیوں کے کیس سامنے آتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق قصور میں ہونے والے سبھی حادثے تقریبا ایک ہی طرز پر انجام دئے گئے ہیں۔جن میں کم عمر بچیوں کو اغوا کرکے ان کا استحصال کرنے کے بعد قتل کردیا جاتا ہے۔اور بعد میں ان کی لاشیں زیر تعمیر عمارتوں اور کچروں کے ڈھیروں پر پائی جاتی ہیں۔لیکن لاء انفورسمنٹ جیسے اس بات کو اب تک نوٹس ہی نہیں کررہا یا جان بوجھ کر انجان بن رہا ہے۔
اس کے علاوہ اور کیا چیز ہوتی ہے جو کسی انسان کو جرم کرنے سے روکتی ہے؟
وہ ہے خوف…سزا کا خوف۔
کیونکہ وہاں کے مجرم سزا کے خوف سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔انہیں اپنے کرپٹ سسٹم پر بالکل بھی یقین نہیں۔انہیں ظالم حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔وہ جانتے ہیں کہ جرم کرنے کے بعد کچھ دن ہنگامے ہوتے ہیں پھر وہی بے حسی۔ورنہ آپ کو وہ چھ سالہ طوبی تو یاد ہی ہوگی جس کی زیادتی کے بعد اس ہاتھوں اور گلے کی نسیں کاٹ دی گئیں تھیں اور اس حادثے کے بعد پاکستانی عوام پاکستان پریمئر لیگ میں مگن ہوگئی تھی۔ایک دس سالہ طیبہ بھی تھی ،جو جج صاحب کے گھر کام کرتی تھی…چائلڈ لیبر۔جسے خون منجمد کردینے والی سردی میں اسٹور میں بند رکھا جاتا تھا اور رات میں ایک وحشی درندہ اس سے اپنی ہوس پوری کرتا تھا۔کیا ہوا اس کے کیس کا؟؟ اس کے جعلی والدین نے دودن کے اندر عدالت میں صلح نامہ داخل کردیا۔بات ختم۔اور وہ آٹھ سالہ عمران…بھولا بھالا…ننھا فرشتہ۔ فیصل آباد کے ایک مدرسے میں اجتماعی زیادتی کے بعد اسے برہنہ حالت میں تیسری منزل سے پھینک دیا ظالموں نے۔اس بچے کا لاشہ پانچ گھنٹوں تک یونہی گلی میں پڑا رہا تھا۔
جن اس طرح کے لگاتار حادثے آپ کے ضمیر کو بیدار نہ کرسکے تو زینب کا قتل کیوں کر آپ کو جھنجھوڑے گا؟جب آپ اس جیسے دوسرے معصوموں کو انصاف نہ دلا سکے تو زینب کی قربانی بھی شاید رائیگاں ہی جائے گی۔کچھ ہنگامے ہونگے،جلسے جلوس نکالے جائیں گے،کینڈل مارچ ہونگے،دعوے،وعدے ،سب کچھ۔پھر شاید کچھ دن بعد سب سرد پڑ جائے گااور آپ پھر سے کسی میچ،کسی مارننگ شو،کسی سیاست دان کی شادی کی خبروں میں الجھ کر زینب کو فراموش کر ہی دیں گے۔
لیکن کوئی زینب کی ماں سے بھی تو پوچھے۔جس نے نہ جانے اپنی پیاری بیٹی کے لئے کتنے خواب دیکھے ہونگے۔وہ بڑی ہوگی،اسکول جائے گی،پڑھے گی،والدین کا نام روشن کرے گی،اس بیچاری نے تو شاید تصور ہی میں اسے دلہن بنے بھی دیکھ لیا ہوگا۔عمرے کے دوران کیسی بے قرار ہوگی وہ کہ جب صفا مروہ کے درمیان چکر لگارہی ہوگی تو اسے اپنی پیاری شہزادی یاد آرہی ہوگی۔اتنا بڑا ظلم کیسے کرڈالا؟ کیا تمہیں ایک دفعہ بھی رحم نہ آیا؟لیکن نہیں ۔ایسا کرتے ان کے ہاتھ کیونکر کانپتے ،دل کیوں کر ڈرتا کہ انہیں سزا کا خوف جو نہ تھا۔زینب کو تو شاید کبھی نہ کبھی انصاف مل ہی جائے لیکن اس ماں کا کیا ہوگا جو جب جب اپنی گزری ہوئی بیٹی کے کھلونے دیکھے تب تب خون کے آنسو روئے گی۔
آپ کہہ رہے ہیں وہ اپنی بچی چھوڑ کر گئے ہی کیوں؟تو سن لیجئے! جس بچی کے والدین کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوا آپ ان کی اذیت کم نہیں کرسکتے تو آپ کو ان پر طنز کے تیر چلانے کابھی کوئی حق نہیں۔بجائے اس کے کہ آپ ان کے عمرے پر انگلیاں اٹھائیں آپ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ کیا آپ کا معاشرہ اس حد تک وحشی ہو چکا ہے کہ ایک سات سالہ معصوم بیٹی کو بھی نہ بخشے؟بچیاں سب کے گھروں میں ہوتی ہیں۔کل کو خدا نہ کرے یہ وقت آپ پربھی آیا تب آپ کس کو مورد الزام ٹھہرائیں گے؟
کچرے کے ڈھیر پر ملنے والا وہ ننھا سا لاشہ جس کی مٹھیاں دم آخر ملنے والی اذیتوں کے باعث بھنچی ہوئی تھیں،وہ پاکستان کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ ہے جس کی گونج پوری دنیا میں سنی جارہی ہے۔وہ لاشہ روز قیامت جب سوال کرے گا کہ مجھے کس قصور میں مارا گیا تو اس کے لئے حکمران سمیت پوری قوم جواب دہ ہوگی۔وہ بچی امانت تھی جسے اس کے والدین بھروسے کی ڈور سے باندھ گئے تھے…لیکن چند خون آشام بھیڑیوں نے اسے تار تار کرڈالا۔
آپ کہیں گے hot topicپر لکھنا ٹرینڈ ہے۔نہیں یہ ہاٹ ٹاپک نہیں ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے،یہ ظلم ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کیا اپنی آواز بھی بلند نہیں کرسکتے؟ان مجرموں کو پھانسی نہیں بلکہ انہیں تو بیچ چوراہے پر لٹکا کر سنگسار کردینا چاہئے اور مرنے کے بعد ان کی لاشیں کتوں سے نچوانی چاہئیں کہ آئندہ کوئی درندہ ایسی وحشیانہ حرکت کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے۔آپ حتی الامکان اپنی آواز بلند کریں۔وحشت و بربریت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اپنی اہمیت رکھتی ہے۔اسے کمزور نہ جانئے۔ہمارے ایک لفظ سے بھی اگر زینب کے لئے انصاف کی لڑائی لڑنے والوں کو حوصلہ ملتا ہے تو یہ ہماری طرف سے اس کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔

ریسرچ اسکالر،لکھنو یونیورسٹی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular