Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldروشن اندھیرے

روشن اندھیرے

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

تحریر: رسکن بانڈ

ترجمہ: ڈاکٹر شاہ محمد فا ئز

میں روہانہ تک کمپارٹمنٹ میں اکیلا ہی تھا، پھر وہ لڑکی اسی کمپارٹمنٹ میں داخل ہویٔ۔ جو مرد اور عورت اسے چھوڑنے آے ٔ تھے وہ غالباً اس کے والدین تھے تبھی وہ کافی پریشان لگ رہے تھے۔ عورت لڑکی کو ہر چیز کے بارے میں بہت باریکی سے سمجھا رہی تھی، کہ سامان کہاں رکھے، کب کھڑکی سے باہر نہیں جھانکنا ہے، اور انجان لوگوں سے باتیں نہیں کرنی ہے۔میں روہانہ تک کمپارٹمنٹ میں اکیلا ہی تھا، پھر وہ لڑکی اسی کمپارٹمنٹ میں داخل ہویٔ۔ جو مرد اور عورت اسے چھوڑنے آے ٔ تھے وہ غالباً اس کے والدین تھے تبھی وہ کافی پریشان لگ رہے تھے۔ عورت لڑکی کو ہر چیز کے بارے میں بہت باریکی سے سمجھا رہی تھی، کہ سامان کہاں رکھے، کب کھڑکی سے باہر نہیں جھانکنا ہے، اور انجان لوگوں سے باتیں نہیں کرنی ہے۔ان لوگوں نے اسے خدا حافظ کہا اور ٹرین اسٹیشن سے چل پڑی۔ میں جو بینایٔ سے پوری طرح اور صرف روشنی اور اندھیرے میں تمیز کرنے کے قابل تھا۔ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ لڑکی دیکھنے میں کیسی تھی مگر مجھ کو یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ چپل پہنے ہوے ٔ  تھی کیوں کہ اسکے چلنے کے انداز سے مجھ کو یہ اندازہ ہو گیا تھا۔اس کے بارے میں مزید کچھ جاننے کے لیٔ مجھ کو وقت درکار تھا۔ مگر اسکی آواز مجھ کو بہت اچھی لگ رہی تھی،یہاں تک کہ اسکی چپلوں کی آواز بھی۔ ’کیا آپ دہرہ دون تک جا رہی ہیں؟‘ میں نے دریافت کیا۔شاید میں کمپارٹمنت کے کسی اندھیرے کونے میں بیٹھا تھاکیوں کہ میری آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ تعجب بھرے لہجہ میں بولی ’مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ یہاں اور کویٔ بھی ہے۔‘ ’ہاں! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آنکھ والے لوگ وہ نہیں دیکھ پاتے جو ان کے بالکل سامنے ہوتا ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوںاس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لوگ جو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ وہی محسوس کرکے دیکھ پاتے ہیں جو کہ انکے دوسرے حواسوں پر گہرا  اثر ڈالے۔  میں نے بھی آپکو نہیں دیکھا تھا‘، میں بولا،  ’لیکن میں نے آپکو اندر آتے ہوے ٔ  سنا  تھا!‘میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا میں اس سے یہ بات چھپا سکوں گا کہ میں نابینا ہوں۔ پھر میں نے سوچا کہ اگر میں اپنی سیٹ پر بیٹھارہوںتو یہ کام اتنا مشکل بھی نہ ہوگا۔  لڑکی بولی  ’میں سہارنپور پر اترونگی،وہاں پر مجھے میری آنٹی ملیںگی۔‘  تب تو مجھے آپ سے زیادہ دوستی نہیں بڑھانی چاۂے! آنٹیاں عام طور سے خوفناک مخلوق ہوتی ہیں!آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اس نے پوچھا۔ دہرہ دون اور پھر مسوری۔اوہ! آپ کتنے خوش قسمت ہیں، کاش میں بھی مسوری جا رہی ہوتی۔ پہاڑ مجھ کو بہت پسند ہیں، خاص کر  اکتوبر میں۔  وہاں یہ وقت سب سے اچھا ہوتا ہے، اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوے ٔ میں نے کہا!  پہاڑ اس وقت جنگلی ڈھیلیا کے پھولوں سے ڈھکے ہوتے ہیں، سورج بھی اس وقت خوشگوار ہوتا ہے  اور رات کے وقت آگ کے پاس بیٹھ کے تھوڑی برانڈی پینے کا تو الگ ہی مزا ہے۔سارے سیاح جا چکے ہوتے ہیں، سڑکیں خالی اور پرسکون ہوتی ہیں، ہاں اکتوبر۔۔۔اکتوبر ہی سب سے بہتر وقت ہے۔وہ خاموش تھی، میں نے سوچا کہ کیا میرے اس بیان نے اس کے دل کو  چھو لیا ہے، یاپھر اس نے مجھ کو کویٔ    بے وقوف  مجنوں تو نہیں سمجھ لیاہے۔ پھر مجھ سے ایک غلطی ہو گیٔ۔ باہر کیا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا۔ ایسا لگا گویا میرے اس سوال سے ا س کوکویٔ حیرت نہیں ہویٔ۔  کیا اس کو  پتہ چل گیا ہے کہ میں اندھا ہوں؟ مگر اس کے اگلے ہی جملہ نے میرے اس وسوسہ کو دور کر دیا۔  ’آپ خود کھڑکی سے باہر کیوں نہیں دیکھ لیتے؟‘ اس نے پوچھا۔ میں بہت ہی آرام سے کھڑکی کی طرف کھسکا اور چھو کریہ اندازہ کیا کہ کھڑکی کھلی ہویٔ تھی، پھر میں نے اسی طرف منھ کر کے ایسا ظاہر کیاجیسے میں باہر دیکھ رہا ہوں۔ انجن سے نکلتی ہویٔ چھک چھک اور پہیوں سے نکلتی ہویٔ آواز مجھ کو سنایٔ دے رہی تھی۔ میں اپنے خیالات میں بجلی کے کھمبوں کو  پیچھے بھاگتے ہوے ٔ  بھی دیکھ رہا تھا۔ ’کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے‘ میں بولا، ’ایسا لگتا ہے گویاہم اپنی جگہ کھڑے ہوں اور باقی چیزیں چل رہی ہوں۔‘’ہمیشہ ہی ایسا ہی ہوتا ہے‘ ، وہ بولی۔’کیا آپ کو کویٔ جانور نظر آ رہا ہے؟‘ ’نہیں‘ ، میں نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔ مجھ کو معلوم تھا کہ دہرہ دون کے اطراف کے جنگلوں میںبمشکل ہی کویٔ جانور بچا ہے۔میں نے گھوم کر لڑکی کی طرف منھ کر لیا، کچھ دیر ہم لوگ خاموش رہے۔  ’آپکا چہرہ بہت دلچسپ ہے‘  ، میں نے کہا۔ میری ہمت کافی بڑھتی جا رہی تھی مگر وہ ایک محتاط جملہ تھا۔ کچھ لڑکیاں ہی چاپلوسی برداشت کر پاتی ہیں۔وہ بہت ہی دلکش انداز میں ہنسی۔۔۔ایک صاف جھنجھناتی ہویٔ ہنسی۔ ’ اچھا لگتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ میرا چہرہ دلچسپ ہے۔ مگر میں یہ لوگوں سے سنتے سنتے تھک گیٔ ہوںکہ میرا چہرہ خوبصورت  ہے۔‘اوہ! تو آپکا چہرہ خوبصورت ہے، میں نے دل میں سوچا۔پھر مین زور سے بولا،  ’ہاں ایک دلچسپ چہرہ  خوبصورت بھی ہو سکتا ہے۔‘’آپ بہت ہی گیلنٹ ہیں‘ ، وہ بولی۔ ـ’ لیکن آپ اتنے سنجیدہ کیوں ہیں؟ـ‘میں نے سوچا کہ میں اس کی اس بات پر ہنسوں، مگر ہنسی کا صرف خیال ہی مجھ کو تکلیف اور اکیلے پن کا احساس دلاتا تھا۔’ہم  جلد ہی آپ کے اسٹیشن پر ہونگے‘ ، میں نے کہا۔’خدا  کا شکر ہے کہ یہ ایک مختصر سفر تھا۔ میں ٹرین میں دو تین گھنٹے سے زیادہ نہیں بیٹھ سکتی‘۔،  اگرچہ میں تو کتنے ہی لمبے وقت کے لیٔ بیٹھنے کو تیار تھا۔۔۔صرف اسکی باتیں سننے کے لیٔ، اسکی آواز میں پہاڑی جھرنے کی تازگی تھی۔  جیسے ہی وہ ٹرین سے اتریگی وہ ہماری اس چھوٹی سی ملاقات کو بھول جاے ٔگی۔ مگر یہ یاد میرے ساتھ پورے سفر بھر رہے گی، بلکہ اس کے بعد بھی۔انجن نے سیٹی دی اور گاڑی کے پہیوں نے اپنی لیٔ بدل دی۔ وہ اٹھی اور اپنا سامان اکٹھا کرنے لگی۔میں اس کے بالوں کے بارے میں سوچ رہا تھاکہ اس کے بال جوڑے کی شکل میں ہونگے یا پھر چوٹی کی شکل میں، یا پھر اس کے کندھے پر کھلے پڑے ہیں یا پھر چھوٹے کٹے ہیں؟ٹرین اسٹیشن پر رکی، باہر سے قلیوں اور خوانچے والوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ دروازہ کے پاس سے ایک زنانی مگر کرخت سی آواز آیٔ۔ وہ  یقینا اس لڑکی کی آنٹی کی آواز تھی۔’خدا حافظ‘ ، لڑکی نے کہا۔ وہ میرے بہت قریب کھڑی تھی، اتنے قریب کہ اس کے بالوں کی مہک مجھ کو ترسا  رہی  تھی۔ میں اپنا ہاتھ اٹھا کر اس کے بالوں کو چھونا چاہتا تھا، مگروہ آگے بڑھ گیٔ۔جہاں پر وہ کھڑی تھی وہاں صرف اس کی خوشبو باقی رہ گیٔ۔ دروازہ پر کچھ گڑبڑی ہوگئی، ایک آدمی جو کمپارٹمنٹ میں چڑھ رہا تھااس نے معذرت چاہی، پھر دروازہ ایک زوردار آواز کے ساتھ بند ہو گیا۔دنیا ایک بار پھر میرے لیٔ بند ہو گیٔ تھی۔ میں اپنی جگہ پر واپس آ گیا ۔ گارڈ نے سیٹی دی اورہم آگے چل پڑے۔ ایک بار پھر مجھے اس نیٔ مسافر سے وہی کھیل کھیلنا تھا۔ٹرین نے رفتار پکڑی اور پہیوں نے ایک بار پھر اپنا نغمہ شروع کر دیا۔ میں کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا اور دن کی روشنی کو بغور دیکھنے لگا جو کہ میرے لیٔ اندھیرا تھی۔ کھڑکی کے باہر بہت کچھ ہو  رہا تھا۔ اس بات کا اندازہ لگانا ایک دلچسپ کھیل ہو سکتا تھا۔ وہ آدمی جو کمپارٹمنٹ میں سوار ہوا تھا اس نے میرے خیالات کا سلسلہ توڑا۔  ’آپ بہت ناامید ہو گیٔ ہونگے‘ ،اس نے کہا۔ ’میں آپکا اس جیسا دلچسپ سفر کا ساتھی نہیں ہوں، جو کہ ابھی اترا ہے۔‘’وہ بہت دلچسپ لڑکی تھی‘ ،  میں نے کہا۔  ’کیا آپ بتا سکتے ہیںکہ اس کے بال لمبے تھے یا چھوٹے؟‘’مجھ کو یاد نہیں‘،  اس نے حیرت  سے جواب دیا۔   ’میں نے اس کی آنکھوں پر غور کیا تھا نہ کی اس کے بالوں پر۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ مگر وہ کسی کام کی نہیں تھیں۔ وہ پوری طرح نابینا تھی۔ کیا آپ نے اس بات پرکوئی توجہ نہیں دی؟ (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ انگریزی، مانو)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular