Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبہــــوگنا جی

بہــــوگنا جی

امیر العلما ءآیت اللہ مولاناسید حمید الحسن

26 اپریل بہوگنا جی کی یاد منائی گئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی یاد کبھی اس طرح بھی منائی جائے گی کہ جو عوامی سے زیادہ خصوصی سطح پر ہوگی۔ ریتا بہوگنا جی اور ان کا محترم خانوادہ اس کا حقدار ہے کہ وہ ایسی شخصیت کی یاد دلانے کا اہتمام کریں جو عوامی اور خصوصی سطح دونوں جگہوں پر بہت ممتاز تھی۔ اگرچہ سیاسی شخصیتوں کے بارے میں کبھی بھی میں نے کچھ بھی نہیں لکھا جن میں ہمارے ملک کے بڑے بڑے ایسے نام بھی ہیں جن سے کافی قریب رہ کر انہیں جاننے اور سمجھنے کے مواقع ملے۔ مگر آج کے اخبارات میں اُترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی جی کے یہ الفاظ ’’بہوگنا جی کی پیدائش 25 اپریل 1919 ء کو موجودہ اُتراکھنڈ ریاست کے علاقے پوڑی گڑھوال ضلع کے ایک گائوں میں ہوئی تھی آج بھی وہاں کا راستہ دشوار گذار ہے۔ 100 سال قبل ایسے حالات سے باہر آکر سیاست اور سماجی خدمت کے توسط سے ملک اور ریاست میں اپنی جگہ بنانا ان کی سخت محنت، لگن، دیانت داری اور جدوجہد کی مثال ہے‘‘ اہم ہیں۔ اور انہی نے ہمیں آمادہ کیا کہ ہم بھی بہوگنا جی کے بارے میں کچھ لکھیں۔ ’’کچھ‘‘ اور ’’بس‘‘ زیادہ کی ہمت نہیں کہ ’’زیادہ‘‘ کی برداشت ہمارے دیش کی سیاسی دنیا کو کم ہے۔ نہ سب گاندھی جی ہیں اور نہ ہی ’’اٹل جی‘‘ تو بہوگنا جی بھی انہیں میں تھے جو دشوار گذار پہاڑی چٹانوں کے درمیان سے اُبھرے اور خود بھی دیش کی روایتوں کو زندہ رکھنے کیلئے ایک چٹان بنے رہے۔ اس کے ثبوت میں ہم ایک واقعہ یاد دلائیں ہم نے انہیں مدرسہ ناظمیہ میں آنے کی دعوت دی یہ 1974 ء کا زمانہ ہے وہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ وزارت اعلیٰ (اُترپردیش) کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ مدرسہ کے صدر دروازہ پر ہم نے ان کا استقبال کیا۔ رات کے آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے کا وقت ہے کچھ روشنی کچھ اندھیرے میں ہم نے ان کے ساتھ ساتھ آنے والے ہجوم میں ایک محترمہ کو بھی دیکھا۔ دروازے ہی پر ہم نے بہوگنا جی سے سوال کرلیا ’’یہ کون؟‘‘ جواب ملا یہ بھی آپ کے صوبے کی وزیر ہیں محسنہ جی۔ عرض کی یہ اندر مجمع میں جلسہ میں نہیں جاسکیں گی۔ اندازہ کیجئے۔ کسی بھی بات سے پہلے ہم دونوں کے درمیان یہ مکالمہ کیا نتائج سامنے آسکتے تھے؟ ٹھیک ہے۔ ہم بھی واپس جارہے ہیں۔ جی نہیں یہ تو ضرور ساتھ جائیں گی جلسے میں ساتھ بیٹھیں گی۔ وغیرہ۔ جی نہیں۔ جواب جو ملا وہ یہ ’’ٹھیک ہے آپ جہاں مناسب سمجھیں انہیں بٹھائیں۔ ہم کس طرف چلیں؟ ہم نے مدرسہ کے ذمہ داران سے کہا بہوگنا جی کو اندر صدر ہال میں لے چلیں۔ محسنہ جی سے ہم نے عرض کی ’’بیگم صاحبہ آپ اِدھر تشریف لائیں۔ صدر دفتر میں لے جاکر خود بٹھایا اور پوچھا چائے یا شربت۔ وہ خود ہی قدیم تہذیب کی نمائندہ شخصیت بہت ہی معذرت کے ساتھ جواب دیا۔ میں تو بہوگنا جی کے ساتھ ساتھ بے خیالی میں آگئی۔ میں واپس جارہی ہوں۔ اور وہ واپس بھی ہوگئیں اور بعد میں جب بھی ملیں پورے اخلاق و خلق کا نمونہ رہیں۔‘‘
جلسے میں صدر ہال کے تمام دروازے بند کردیئے گئے کہ الیکشن کا زمانہ ہے لوگ اس جلسہ کو بھی الیکشنی جلسہ نہ سمجھ لیں۔ ابھی بہوگنا جی ڈائس پر بیٹھے ہی تھے کہ پھر مدرسہ کے باہر نعروں کی آواز آئی۔ بہوگنا جی سے عرض کی دو منٹ میں اجازت چاہتا ہوں۔ دروازہ پر محترم دائوجی گپتا 50-40 افراد کے ساتھ اندر آنا چاہتے تھے۔ ان سے عرض کی گپتا جی ہم نے اپنے مدرسہ کے مسائل پر بات کرنے کیلئے اپنے وزیراعلیٰ کو زحمت دی ہے یہ کوئی عوامی پروگرام یا الیکشنی میٹنگ نہیں ہے۔ دائوجی گپتا کے لئے بھی سب ہی جانتے ہیں وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بہت ہی سلجھے ہوئے روشن خیال انسان ہیں۔ اُس وقت وہ بہوگنا جی کے مخالف ہوکر بھی فوراً ہی مان گئے اور کہا معاف کیجئے گا ہم نے پریشان کیا اور اپنے تمام رفقاء کے ساتھ وہ بھی آگے چلے گئے۔ جلسے میں بہوگنا جی نے کیا فرمایا؟ یہاں ہم صرف اسی بات کو یاد دلائیں گے جبکہ ہماری یادوں میں بہوگنا جی۔ شری ہیم وتی نندن بہوگنا سے وابستہ بہت سی باتیں بہت سے واقعات ہیں۔ وہ مجھے اس لئے بھی یاد ہیں کہ بعض مواقع پر بس وہ اور ہم ہیں ممبئی سے دہلی تک کا ہوائی جہاز کا سفر ہے اور وہ اپنی زندگی کے واقعات مسلسل بے تکان بے تکلفی کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔ صوبے کے قد آور سیاسی رہنمائوں کے بارے میں کہ کون کیا ہے؟ ہمیں بہت کچھ یاد ہے۔ جب وہ کانگریس کے لئے دل و جان تھے جب ان کے ذریعہ جی ہاں انہیں کے ذریعہ یوپی پر اقتدار حاصل کیا جاتا رہا اور پھر جب وہ کانگریس سے باہر ہوگئے۔ جے پی کے ساتھ کی سیاسی ہلچل میں ان کا کردار۔ جب شری مرارجی ڈیسائی ملک کے وزیراعظم اور بہوگنا جی ریل منتری ہوئے۔ بہت سے ایسے مواقع ہیں جب بہوگنا جی سے کچھ سننے سمجھنے کیلئے ملا اور ہمیں حیرت تھی کہ یہ شخصیت جو شدید جذباتی بیھ ہیں۔ برداشت کا نمونہ بن کر کیسے ملکی، قومی، سماجی کاموں کو بھی انجام دیتے ہیں۔ ایک بات یہاں اور کہہ لیں۔ وزیراعلیٰ کیلئے ضروری ہے کہ وہ خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں مگر دفتری کاموں کیلئے وزیراعلیٰ کے دفتر کی کرسی کو بھی ہر روز خواہ چند لمحوں ہی کے لئے زینت ضرور بخشیں (جب تک وہ لکھنؤ میں ہوں) یہ بات بہوگناجی کے ساتھ ہمیشہ رہی۔ اس سے عوام کا اعتبار وزارت اعلیٰ کے لئے بڑھتا ہے اور انتظامیہ میں بہتری آتی ہے۔ بہوگناجی جب تک یوپی کے وزیراعلیٰ رہے ہم نے انہیں اسی طرح پایا۔ مسائل کیسے کب ان تک پہونچائے جائیں۔ آسان رہا۔ ہمارے تمام ساتھ کے بزرگ افراد کو بھی اس کا اعتراف رہا۔ مولانا سید کلب عابد صاحب قبلہ مرحوم، مولانا طاہر جرولی صاحب مرحوم، اشرف حسین ایڈوکیٹ مرحوم، مولانا مرزا محمد عالم صاحب مرحوم یا برادرم مولانا کلب صادق صاحب، مولانا آغا روحی صاحب۔ ہم سب ہی کبھی الگ کبھی ساتھ میں قومی مسائل پر جب چاہتے ملنا بات کرلینا مشکل نہ تھا۔ اور مسائل جلدی جلدی طے ہوجاتے۔
تو آیئے اس جلسے کی بات ختم کرلیں۔
بہوگناجی سے ہم نے اپنی تقریر میں عرض کی۔ یہاں آپ کے انٹیلی جنس کے لوگ بھی ہوں گے ان سے بعد میں رپورٹ لے لیجئے گا کہ کیا ان مدارس کے کردار سے ملک کو کوئی خطرہ ہے؟
بہوگناجی۔ شری ہیم وتی نندن بہوگناجی۔ ملک کے انتہائی باوقار وزیراعلیٰ بہوگناجی جن کے لئے قیاس آرائیاں تھیں کہ وہ ملک کے وزیراعظم بھی بن سکتے تھے انہوں نے کیا جواب دیا۔ ایک وزیراعلیٰ نے پوری ذمہ داری سے کہا۔
مجھے معلوم ہے۔ میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں۔ ہمارے یہ مدارس ہمارے ملک کی شان ہیں بلکہ میںتو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے یہ مدارس بہت سے ملکوں سے ہمارے بہتر تعلقات کیلئے ذریعہ ہیں وسیلہ ہیں۔ اگر کوئی ان مدارس کیلئے غلط سوچتا ہے تو وہ بڑی غلطی پر ہے۔ اور پھر بہوگنا جی کی بڑی خوبصورت تقریر اس مجمع نے سنی۔ انہوںنے مدرسہ ناظمیہ۔ مدرسہ سلطانیہ کیلئے ایک رقم کا اعلان اسی جلسے میں کیا۔
یہ بات آج بھی اہم ہے۔ بہوگناجی جو ایک غیرمعروف دیہات سے پہاڑی علاقے سے اٹھ کر آئے اور ملکی سیاست پر چھا گئے وہ خود سے دو مرتبہ ناظمیہ مدرسے میں بھی آتے۔ ملک کی مشہور دینی درسگاہ ندوۃ العلماء کے جو اجلاس لکھنؤ میں منعقد ہوئے تھے اس میں خود بھی گئے۔ اور ملک کی اُس وقت کی وزیراعظم اندرا جی کو بھی لے گئے۔ اور تمام ملک کے مدارس کا احترام بڑھاتے رہے۔1974 ء سے 2018 ء بڑا فاصلہ ہے۔ اتنا ہی کہنا ہے مدارس دینیا آتنک واد کو کچل دینے والوں کیلئے نرسری ہیں۔ وہ یہاںسے یہ سیکھ کر نکلنے والوں کیلئے درسگاہ ہیں کہ آتنک اور آتنکی انسانیت کے دشمن ہیں۔ کیا ہم اس پر کبھی مدارس کے ماہرین کو ساتھ بٹھاکر کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں؟ ایسا کریں تو اچھا ہوگا۔ ملک اور قوم سب کے لئے۔
عمید جامعہ ناظمیہ ، لکھنؤ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular