Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeMuslim World"ارتعاش" کا شاعر..... ڈاکٹر شاد مشرقی

“ارتعاش” کا شاعر….. ڈاکٹر شاد مشرقی

زبیر احمد قادری

شعر و ادب نے ہر دور میں شعور حیات انسانی کو تابندگی اور بالیدگی عطا کی ہے.. مرزا پور کی سرزمین کا رشتہ ہر زمانے میں ادب سے جڑا رہا… صفدر مرزاپوری، حرمت الاکرام مرزاپوری، کامل مرزا پوری وغیرہ کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا..
مرزاپور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاد مشرقی پیشے کے اعتبار سے ایک معالج ہیں.. مگر شعر و ادب سے ان کا قلبی لگاؤ ان کی شخصیت میں چار چاند لگاتا ہے… نجی زندگی کے رکھ رکھاؤ، احباب کی محفلوں میں ان کا رویہ، ان کی پسند نا پسندگی، ان کے خلوص کو قلم بند کرنا یہ بہت بڑی خوبی ہے…..
زیر نظر ڈاکٹر شاد مشرقی کا مجموعہ “ارتعاش” ہے.. ارتعاش کا لغوی معنی “رعشہ” ہوتا ہے.. موصوف نے اپنے مجموعہ کا نام بالکل الگ رکھا.. اس کے نام کا انتخاب بہت کم ملتاہے.. میں نے ان کی غزلوں کو بہ غور پڑھا.. چند غزلوں سے اتنا متاثر ہوا کہ دوبارہ پڑھنے پر مجبور ہوگیا.. ان کے یہاں لفظی بازی گری یا محض تفنن طبع کا نام نہیں بلکہ ایک تپسوی کی طرح فن کی دیوی سے لو لگانے اور اس کی تقدیس کا لحاظ رکھنے کا ہنر ہے… ڈاکٹر شاد مشرقی کی زبان سادہ اور سلیس ہے.. قاری کو ان کی باتیں بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں…اشعار دیکھیں

عیب کو اپنے چھپانے میں تھے ماہر وہ لوگ
بے گناہی نے بدلتے جنھیں تیور دیکھا
جھلملا کر بجھ گئے جتنے بھی روشن تھے چراغ
کل جو اک زندہ حقیقت تھا، فسانہ ہوگیا
کس سے بتاؤں کون سنے گا میرے دل کی بات
کب بے چینی بڑھتی ہے، کب اچھا رہتا ہوں
ڈاکٹر شاد کی بیشتر غزلیں فکر و خیال اور زبان و بیان کی ہم آہنگی کا عمدہ نمونہ ہے… پرواز تخیل اور بندش چست ہے…
مجھ کو اب تک مل نہ پائی درد فرقت سے نجات
ایک پل کی دوستی کا زخم تھا گہرا بہت
دھڑکنیں دل کی کسی کے کوئی سنتا ہی نہیں
اہل دنیا کا سلیقہ تاجرانہ ہوگیا
یہ اشعار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ شعر و فن کے سفر میں ڈاکٹر شاد کی منزل مقصود کیا ہے اور وہ مستقبل میں کس فضائے شعری میں پرواز کرنے والے ہیں… مجھے حیرت بھی ہے کہ پیشے کے اعتبار سے معالج ہوتے ہوئے بھی اتنی عمدہ شاعری کرنا کمال ہے… شاعری تو خداداد صلاحیت ہے اللہ جس کو نواز دے بہتر سے بہتر نوازتا ہے.. یہ نوازشیں ڈاکٹر شاد پر خصوصی طور پر ملیں… موصوف نے گیت پر بھی طبع آزمائی کی.. بہترین آواز کے مالک ہیں.. ترنم سے مشاعروں میں پڑھتے ہیں…
مضمون آفرینی اور شاعرانہ نازک خیالی قابل داد ہے…..
اشکوں کے قہقہوں نے بکھیرے ہزار رنگ
زنگین پھر بھی شہر تمنا نہ ہوسکا
تاریخ آدمیت رکھتی ہے یاد اس کو
جو خون دل سے اپنے نقش وفا ابھارے
میں دعائیں دے رہا ہوں گردش ایام کو
بجلیوں کی نذر میرا آشیانہ ہوگیا
مختصر یہ کہ شاد مشرقی کی شاعری میں تازگی و توانائی بھی ہے اور سادگی و پرکاری بھی.. اپنی شاعری کے ذریعہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرلینے کا ہنر موصوف میں موجود ہے.. اس مجموعہ میں تقریباً 50 سے زیادہ غزلیں اور چند گیت شامل ہیں… ارتعاش سے چند اشعار اور ملاحظہ کریں…..
لکھی ہوئی تھی میرے مقدر میں تیرگی
گھر بھی جلا کے دور اندھیرا نہ ہوسکا
گھبرا کے میں نے کرلی اندھیروں سے دوستی
جب میری شام غم کا سویرا نہ ہوسکا
شاد جوانی میں رہتی ہیں
دنیا سے بے گانی آنکھیں
الزام ہواؤں پہ لگاتا وہ ملے گا
جو اپنے چراغوں کا نگہ بان نہیں ہے
چمکی کہاں پہ ظلم کی تلوار دیکھیے
بے چین کیوں ہے صبح کا اخبار دیکھیے
شاد مشرقی اپنے مجموعہ میں توقیر قرطاس و قلم کو عامیانہ پن، بیانیہ پن اور سپاٹ پن سے ہر شعر میں بچا گئے ہیں اور یہ بڑی بات ہے…. اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
مدیر ترقیم و ترسیل ،دہلی 9990372105

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular